ہوم << بچوں کی جنسی تربیت کیسے کریں - مونا کلیم

بچوں کی جنسی تربیت کیسے کریں - مونا کلیم

ہم سب اس الجھن کا شکار ہیں کہ بچوں اور نوجوانوں کو جنسی تعلیم دینی چاہیے یا نہیں. اس موضوع پر اب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں مگر ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے. یہ بات طے ہے کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سیکولر و لبرل طبقہ ہمارے بچوں کی اس معاملے میں جس قسم کی تربیت کرنا چاہتا ہے یا کر رہا ہے وہ ہر باحیا مسلمان کے لیے ناقابل قبول ہے. مگر یہ بھی ضروری ہے کہ نوعمر یا بلوغت کے قریب پہنچنے والے بچوں اور بچیوں کو اپنے وجود میں ہونے والی تبدیلیوں اور دیگر مسائل سے آگاہ کیا جائے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر گھر سے بچوں کو اس چیز کی مناسب تعلیم نہ ملے تو وہ باہر سے لیں گے جو کہ گمراہی اور فتنہ کا باعث بنے گا. چند فی صد لبرل مسلمانوں کو چھوڑ کر ہمارے گھروں کے بزرگوں کی اکثریت آج کی نوجوان نسل میں بڑھتی بے راہ روی سے پریشان ہے. وہ لوگ جو اپنے گھرانوں کے بچوں کے کردار کی بہترین تربیت کے خواہشمند ہیں، انکی خدمت میں کچھ گزارشات ہیں جن سے ان شاءاللہ ان کے بچوں میں پاکیزگی پیدا ہوگی
بچوں کو زیادہ وقت تنہا مت رہنے دیں
آج کل بچوں کو ہم الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کر ان سے غافل ہو جاتے ہیں.... یہ قطعاً غلط ہے. بچوں پر غیر محسوس طور پر نظر رکھیں اور خاص طور پر انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے مت دیں کیونکہ تنہائی شیطانی خیالات کو جنم دیتی ہے. جس سے بچوں میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور وہ غلط سرگرمیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں 
بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پہ خاص نظر رکھیں تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپکا بچہ یا بچی کا میل جول کس قسم کے لوگوں سے ہے. بچوں بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں کو بھی ان کے ساتھ کمرہ بند کرکے مت بیٹھنے دیں. اگر آپ کا بچہ اپنے کمرے میں ہی بیٹھنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے سے گاہے بہ گاہے چیک کرتے رہیں.
بچوں کو فارغ مت رکھیں
فارغ ذہن شیطان کی دکان ہوتا ہے اور بچوں کا ذہن سلیٹ کی مانند صاف ہوتا ہے بچپن ہی سے وہ عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جب انکا ذہن اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کا فوراً اثر قبول کرتا ہے. اس لیے انکی دلچسپی دیکھتے ہوئے انہیں کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں. ٹی وی وقت گزاری کا بہترین مشغلہ نہیں بلکہ سفلی خیالات جنم دینے کی مشین ہے اور ویڈیو گیمز بچوں کو بے حس اور متشدد بناتی ہیں. ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو وہ بچوں کے لیے بہترین ہوتے ہیں تاکہ بچہ کھیل کود میں خوب تھکے اور اچھی، گہری نیند سوئے.
بچوں کے دوستوں اور مصروفیات پر نظر رکھیں
یاد رکھیں والدین بننا فل ٹائم جاب ہے. اللہ نے آپکو اولاد کی نعمت سے نواز کر ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد کی ہے. بچوں کو رزق کی کمی کے خوف سے پیدائش سے پہلے ہی ختم کردینا ہی قتل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اولاد کی ناقص تربیت کرکے انکو جہنم کا ایندھن بننے کے لئے بے لگام چھوڑ دینا بھی انکے قتل کے برابر ہے. اپنے بچوں کو نماز کی تاکید کریں اور ہر وقت پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں. کیونکہ جسم اور لباس کی پاکیزگی ذہن اور روح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے.
بچیوں کو سیدھا اور لڑکوں کو الٹا لیٹنے سے منع کریں. حضرت عمر رضی اللہ اپنے گھر کی بچیوں اور بچوں پر اس بات میں سختی کرتے تھے. ان دو پوسچرز میں لیٹنےسے سفلی خیالات زیادہ آتے ہیں. بچوں کو دائیں کروٹ سے لیٹنے کا عادی بنائیں.
بلوغت کے نزدیک بچے جب واش روم میں معمول سے زیادہ دیر لگائیں تو کھٹک جائیں اور انہیں نرمی سے سمجھائیں. اگر ان سے اس معاملے میں بار بار شکایت ہو تو تنبیہ کریں. لڑکوں کو انکے والد جبکہ لڑکیوں کو ان کی والدہ سمجھائیں.
بچوں کو بچپن ہی سے اپنے مخصوص اعضاء کو مت چھیڑنے دیں. یہ عادت آگے چل کر بلوغت کے نزدیک یا بعد میں بچوں میں اخلاقی گراوٹ اور زنا کا باعث بن سکتی ہے
بچوں کو اجنبیوں سے گھلنے ملنے سے منع کریں. اور اگر وہ کسی رشتہ دار سے بدکتا ہےیا ضرورت سے زیادہ قریب ہے تو غیر محسوس طور پر پیار سے وجہ معلوم کریں. بچوں کو عادی کریں کہ کسی کے پاس تنہائی میں نہ جائیں چاہے رشتہ دار ہو یا اجنبی اور نہ ہی کسی کو اپنے اعضائے مخصوصہ کو چھونے دیں.
بچوں کا 5 یا 6 سال کی عمر سے بستر اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دیں تاکہ انکی معصومیت تا دیر قائم رہ سکے .
بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چیک کرتے رہیں. آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ آپ کے بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے پر ہے . مسلہ یہ ہے کہ آج کے دور پرائویسی نام کا عفریت میڈیا کی مدد سے ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے اس سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچائیں. کیونکہ نوعمر بچوں کی نگرانی بھی والدین کی ذمہ داری ہے. یاد رکھیں آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپکے نہیں. آج کے دور میں میڈیا والدین کا مقام بچوں کی نظروں میں کم کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے. ہمیں اپنے بچوں کو اپنے مشفقانہ عمل سے اپنی خیرخواہی کا احساس دلانا چاہیے اور نوبلوغت کے عرصے میں ان میں رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے متعلق رہنمائی کرتے رہنا چاہیے تاکہ وہ گھر کے باہر سے حاصل ہونے والی غلط قسم کی معلومات پہ عمل کرکے اپنی زندگی خراب نہ کر لیں.
بچوں کو بستر پر جب جانے دیں جب خوب نیند آ رہی ہو. اور جب وہ اٹھ جائیں تو بستر پر مزید لیٹے مت رہنے دیں
والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے جسمانی بے تکلفی سے پرہیز کریں.ورنہ بچے وقت سے پہلے ان باتوں کے متعلق با شعور ہو جائیں گے جن سے ایک مناسب عمر میں جا کر ہی آگاہی حاصل ہونی چاہئے . نیز والدین بچوں کو ان کی غلطیوں پہ سر زنش کرتے ہوئے بھی با حیا اور مہذب الفاظ کا استعمال کریں ورنہ بچوں میں وقت سے پہلے بے باکی آ جاتی ہے جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے.
13 یا 14 سال کی عمر میں بچوں کو ڈاکٹر آصف جاہ کی کتاب Teenage Tinglings پڑھنے کو دیں. اس کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے .یاد رکھیں آپ اپنے بچوں کو گائیڈ نہیں کریں گے تو وہ باہر سے سیکھیں گے جس میں زیادہ تر غلط اور من گھڑت ہوگا جس سے ان کے اذہان آلودہ ہوں گے.
تیرہ، چودہ سال کے ہوں تو لڑکوں کو انکے والد اور بچیوں کو انکی والدہ سورۃ یوسف اور سورۃ النور کی تفسیر سمجھائیں یا کسی عالم ، عالمہ سے پڑھوائیں. کہ کس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے بے حد خوبصورت اور نوجوان ہوتے ہوئے ایک بے مثال حسن کی مالک عورت کی ترغیب پر بھٹکے نہیں. بدلے میں اللہ کے مقرب بندوں میں شمار ہوئے. اس طرح بچے بچیاں انشاءاللہ اپنی پاکدامنی کو معمولی چیز نہیں سمجھیں گے اور اپنی عفت و پاکدامنی کی خوب حفاظت کریں گے.
آخر میں گذارش یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں بٹھا دیں کہ اس دنیا میں حرام سے پرہیز کا روزہ رکھیں گے تو انشاءاللہ آخرت میں اللہ کے عرش کے سائے تلے حلال سے افطاری کریں گے. اللہ امت مسلمہ کے تمام بچوں کی عصمت کی حفاظت فرمائے اور ان کو شیطان اور اس کے چیلوں سے اپنی حفظ و امان میں رکھے. آمین

Comments

Click here to post a comment

  • ما شا للہ بہت زبردست تحریر ہے والدین اور بزرگوں کو یہ تحریر ضرور پڑھنی چاہئے۔ میرے خیال میں ایسے ایشوز پر آگاہی عوام الناس میں بہت ضروری ہے۔ آجکل بچے اسی لئے خراب ہورہے ہیں کہ ان کی تربیت اس حوالے سے ماں باپ نہیں کرتے اور وہ باہر سے الٹی سیدھی عادتوں میں پڑ جاتے ہیں۔

  • بہترین تحریر ہے. واقعی أصل چیز آگہی اور تربیت ہے. اور یہ مسلسل دل سوزی اور محبت اور نگرانی کی متقاضی ہے

  • اس پورے مضمون میں جنسی تربیت کے حوالے سے تو کچھ بھی نہین بتایا گیا ہے ۔بس وہی احتیاطی تدابیر درج ہیں جو ہم سب پہلے سے جانتے ہیں تو مضمون کا نام بچوں کی جنسی تربیت کے بجائے احتیاطی تدابیر ہونا چاہیئے

    • کسی بھی مرض سے بچنے کے لیے پہلے احتیاطی تدابیر ہی کی جاتی ہیں . بعد میں تو علاج ہوتا ہے .

  • ماشاء الله..
    بھت عمده اور سبق آموز براۓ والدین.
    الله کرے زور قلم اور زیاده
    جزاک الله

  • مجھے بعض خواتین و حضرات کے ان کومنٹس سے شدید اختلاف ہے کہ اس مضمون میں جنسی حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا اور تو اور ایک صاحب نے فرمایا کہ جب قرآن اس حوالے سے سب کچھ کھول کھول کر بیان کر رہا ہے تو یہاں بیان کرنے سے گریز کیوں ۔۔۔؟؟
    قران کے مخاطب باشعوراور عاقل و بالغ لوگ ہیں نہ کے بچے ِ ایک نابالغ بچے کو نماز جیسے اہم فریضے سے سات سال کی عمر تک استثناء دیا گیا اور دس سال کی عمر تک اسے فرض نہیں قرار دیا گیا تو یہ کسیے ممکن ہے کہ جنسیات جیسے حساس مسئلے کو بچوں کے لیے کھول کھول کر بیان کر دیا جائے۔
    بلوغت کو پہچنے پر بھی یہ مسائل کسی ایک حد تک ہی والدین اپنی اولاد کو سمجھا سکتے ہیں ۔
    ٭٭٭ کیا ہی اچھا ہوتا مصنفہ چارٹ اور نقشوں کی مدد سے اپنا مدعا " ان صاحبان " سمجھا دیتیں 🙂

  • دلیل پر پڑھی جانے والی مقبول ترین تحاریر میں اپنا نام پیدا کیا اس تحریر نے وہ بھی فقط تین دن میں۔۔۔۔۔۔ مونا کلیم کا یہ تحریر ہر گھرانے کیلئے اس لحاظ سے مفید ہے کہ ہم میں سے اکثریت اپنے بچوں کی ایسی تربیت سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔
    جس کے نتائج بعد میں بھگتنے پڑھتے ہیں۔۔۔ اور وہ نتائج بھی منظر عام پر نہیں آتے اور یوں عمر بھر کی الجھن، ندمات رہتی ہے۔۔۔۔۔ تمام والدین کو بچوں کے ذہن مین یہ باتین ڈالنی چاہئیں۔۔۔
    اس جراءتِ اظہار پر مونا واقعی مستحقِ داد ہیں

  • بہن بہت خوب مشااللہ، لکھتی رہیےَگا، اور ایک گزارش ہے، نام نہاد "پراییویسی" جو کہ لبرلز مسلط کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں، کے موضوع پر بھی ضرور لکھنا، تاکہ تدارک ہو سکے، شکریہ

  • بہت ہی خوبصورت تحریر، مکمل اور جامع۔ لکھتی رہیں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ اس حساس موضوع کو آپ نے بہت ہی خوبصورتی سے تمیز کے دائرے میں احاطہ قلم کیا ہے۔ بہت خوب۔ اپنی فیس بک آئی ڈی شیئر کریں تاکہ مستقل استفادہ حاصل کیا جائے۔

  • ایک ہمارا تبصرہ باقی تھا۔ سوچا مونا بہن کنجوسی کا گلہ نہ لیے پھریں۔ تحسین حاضر ہے، بمعہ ڈھیروں دعاؤ ں کے!
    بلا شبہہ یہ ایک اچھی کاوش تھی کہ ہمارے معاشرے نے ایسے موضوعات کو taboo یعنی ممنوع کی کیٹیگری میں رکھ چھوڑا ہے جو علم و تعلیم کی اِس برق رفتاردنیا میں اب ممکن نہیں۔اس پہ بات ہونی چاہیئے، راستےتلاشنے چاہیئیں تا کہ تجسس مارے بچے غیر سنجیدہ ذرائع کا شکار نہ ہو ں-ایسے رجوع کے لیے اس عمر میں طبیعت کی منہ زوری واقعتاً مجبور کردیتی اور بے راہ روی کا سبب بنتی ہے جس کی سینکڑوں مثالوں سے ہمارا گردو پیش اٹا پڑا ہے- کہ آج کی دنیا میں ایسے ذرائع فقط ایک "کلک" کے فاصلے پر بستے ہیں۔رسالتمآبؐ نے اسی لیےاشارہ دیا تھا کہ اس دور میں آنکھ کھلتے ہی بندے پر فتنوں کی یلغار ہو جائے گی۔ یوں، سوئے ہوئے شخص کو آپؐ نے محفوظ گردانا۔
    ساتھ ہی ساتھ یہ اعتراف بھی کہ آپ ہی کی اس تحریر سے انسپائر ہو کر ناچیز نے بھی اپنے احساسات ومشاہدات کو سپرد قلم کیا تھا "معاملہ بچوں کی تربیت کا" کی شکل میں – شاید نظر سے گذرا ہو، جس کی دوسری قسط ابھی ہم پر قرض ہے۔ہمیں بھی تقریباً چھے ہزار ویوز اور 500 شیئرز کیصورت خاصی پذیرائی نصیب ہوئی۔اگرچہ یہ سوچ کر تھوڑےحسد کے مرغولے سے اٹھتے ہیں کہ اصلاً ہماری کاوش کا کریڈٹ بھی آپ ہی کے کھاتے میں چلا جاتا ہے۔ 🙂 ------ اچھا یہ کومنٹ طوالت پکڑ رہا ہے، ہم اسے آرٹیکل کی شکل میں پوسٹ کروا دیتے ہیں۔ 🙂