ہوم << 17 رمضان سن 2 ہجری کی رات - محمد ثاقب ساقی

17 رمضان سن 2 ہجری کی رات - محمد ثاقب ساقی

وہ بڑی عجیب رات تھی، دن کی غضبناک گرمی و تپش رات گئے تلک محسوس ہوتی رہی، سترھویں کا چاند اپنی پوری آب و تاب کےساتھ مشرق سے مغرب کی جانب محو سفر تھا.

جنوب میں خیموں کی ایک لمبی قطار رات کی چاندنی میں واضح نظر آ رہی تھی، جن میں ضیافتیں، رقص و سرور ، اونٹ کا بھنا ہوا گوشت، بادہ و جام، شاعری، مزاح، غل غپاڑہ، اور غرور و تکبر اپنے عروج پر تھا، قریش کے ان گھوڑوں کی ہنہناہٹ میں بھی عجیب سی رعونت تھی.
دوسری طرف شمال میں چند پھٹے پرانے خیمے لگے تھے، جن سے خیموں میں بسے مکینوں کی مفلسی اور تنگ دستی عیاں تھی، لیکن ان کے دلوں میں ایک طاقت تھی اور وہ ایمان کی طاقت تھی، جس نے ان 313 کو 1000 کے مدمقابل لا کھڑا کیا تھا. اہل ایمان کے خیموں میں نماز عشاء کے بعد نوافل ادا کیے گئے، خوش الحان قرا اپنی جادوئی آواز میں قرآن کی تلاوت میں مصروف ہو گۓ، تو کچھ آہ زاری کرتے خیمے کے کونے میں اس مجیب الدعوات رب سے دینِ محمدی کے لیے خیر کی دعائیں مانگنے لگ گۓ. آہ زاری تھی، ہچکیاں اب سسکیوں میں بدل چکی تھیں، دعائیں مانگی گئیں، اللہ سے نصرت کی التجائیں کی گئیں.

چاند اب فلک کے عین درمیان میں پہنچ چکا تھا، بڑا دلربا منظر تھا، ہر سو ہو کا عالم تھا، کسی کونے کھردرے میں کوئی چوں چرا نہ تھی، تمام چرند پرند اگلی صبح کے انتظار میں تھے. جنوب میں لگے خیموں میں صراحیاں اوندھے منہ پڑی تھیں، دخترِ انگور کے بے حد استعمال کے بعد کفار مکہ اب بے سدھ پڑے تھے. دوسری طرف شمال میں لگے خیموں میں فاقہ مستوں پر بھی اللہ رب العزت نے نیند طاری کر دی تاکہ ان کی تھکن دور ہو جاۓ. شب زندہ دار عابدین تھک کر سو چکے تھے.

لیکن عریش ( سرکار صلوۃ سلام کا جنگ بدر میں خیمہ) میں عجب منظر تھا. چاند کی کرنیں عریش کے اندر داخل ہو رہی تھیں، دروازے پر افضل البشر بعد الانبیا، یارِ غار و مزار جناب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چست و توانا کھڑے تھے. اندر فخرِ دوجہاں، نبی آخرالزماں محمد ﷺ دو زانوئے بیٹھے تھے، آپ نے وہ پوری رات جاگ کر گزاری تھی، اس سکوت کے عالم میں فقط شہہ ابرارﷺ کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں، آپ اس وقت صداۓ التجا تھے ، آپ اس قدر رو رہے تھے کہ ہچکی بندھ گئی، آنسو موتیوں کی شکل میں ریش مبارک میں جذب ہو رہے تھے، آپ کی چادر آپ کے شانہ مبارک سے بار بار سرک کر نیچے گر جاتی، بار بار ابوبکر صدیق چادر کو کندھے مبارک پر رکھتے. اُس رات رسول اکرم ﷺ شفیع امتاں بڑی اضطرابی کیفیت میں نمازِ تہجد ادا کرنے بعد مالکِ مختارِ کل کے حضور دست بدعا ہوۓ: "اے مالک اپنی نصرت کا جو وعدہ تو نے مجھ سے کیا تھا، اب وقت آ گیا ہے اسے پورا فرما، ان کفار کا غرور و تکبر خاک میں ملا، مالک آج اگر یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا."

آپ ﷺ کی یہ حالت دیکھ کر ابوبکر صدیق کا کلیجہ منہ کو آ رہا رہا تھا، عرض کیا "حسبک یا نبی اللہ"، عین اسی لمحے بارش کی بوندا باندی شروع ہوئی، آپﷺ نے سر مبارک اٹھایا اور فرمایا "البشر ابا بکر" . حضور مانگیں اور رب عطا نہ فرماۓ، ایسا کیسے ہو سکتا تھا. جبریل وحیِ خدا لے کر حاضر ہوۓ، آپ کے سامنے فرشتوں کی ایک جماعت حاضر باش کھڑی تھی، اللہ کی مدد پہنچ چکی تھی. حضور چاہتے تو دعا مسجد نبوی میں بیٹھ کر بھی مانگ سکتے تھے اللہ تو آپ کی دعا ادھر بھی قبول فرما لیتے مگر نہیں، آج آپ ان بے حال صحابہ کرام کے شانہ بشانہ کھڑے تھے جو آپ ﷺ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر کے آۓ تھے.

سحری کے وقت شمال میں لگے خیموں میں اس کل اثاثہ اسلام نے فقط کھجور اور پانی سے سحری کی اور روزے کی نیت باندھ لی. پھر آفتاب ایک بھرے مان کے ساتھ طلوع ہوا،. آج کا سورج اسلام کی فتح کی نوید لے کر طلوع ہوا تھا. پھر چشم فلک نے وہ منظر دیکھا اور گوشہ ارض( البدر) نے وہ سب کچھ سنا کہ اللہ نے کفار مکہ کی رعونت کو خاک میں ملایا، ابوجہل اور اس کے کئی کارندے جہنم واصل ہوۓ، اسلام کی فتح ہوئی.

جنوری 2019 میں بدر کے مقام پر حاضری ہوئی. عریش کی جگہ اب مسجد بنا دی گئی ہے جس کو مسجد عریش کہتے ہیں. مسجد عریش سے آگے نکلیں تو ایک کھلا میدان ہے، جس کے بیچوں بیچ ایک کنواں ہے جس کو آہنی جنگلے سے بند کیا گیا ہے. اس کنویں کے اندر حضور ﷺ کے حکم کے مطابق ابوجہل اور باقی سرداران مکہ کی لاشوں کو پھنکا گیا تھا. شمال کے جانب آج بھی کھجوروں کا ایک سر سبز جھنڈ نظر آتا ہے جبکہ جنوب میں ویرانیاں ہی ویرانیاں۔ جنگ بدر ہمیں ایک بھرپور سبق دیتی ہے کہ اللہ کی نصرت آتی ہے، ضرور آتی ہے مگر پہلے بدر جیسی فضا قائم کرنا پڑتی ہے.