شیطان قوم نوح کو بالکل شروع میں اگر بت بنا کر سجدہ کرنے کو کہتا تو یقینی بات ہے کہ ایک بھی شخص اس کی بات نہ مانتا. اس نے بتدریج ان سے اپنے فوت شدہ بزرگوں کی عقیدت میں غلو کروا کر ان کے عقیدے کو تہس نہس کیا اور اس انتہا تک کیا کہ اللہ کو پوری قوم کو ہی تہس نہس کرنا پڑا۔
یہ تدریج کا قاعدہ آج ہزاروں سال بعد بھی اتنا ہی کامیاب ہے، خواہ اچھائی کی ترویج کے لیے استعمال ہو یا برائی کی. بعینہ شیطان اور اس کے انسانی چیلوں نے انسان کو یکدم خدا سے "بے نیاز" نہیں کیا. انھیں جمہوریت والی "بااختیار" زندگی کا حسین جھانسہ دیکر سیکولرازم اور لبرل ازم کے "درخت" کی طرف مائل کیا، جہاں سے انہوں نے خدائی وحی سے "آزادی" کا پھل کھایا اور یوں ان کی حیا کا لباس اتر گیا. کلیسا کے ستائے لوگوں نے ردعمل میں عملی زندگی سے چرچ کے ساتھ ساتھ خدا کو بھی نکال دیا. ریاست کے امور میں "خدائی مداخلت" ناقابل برداشت ٹھہری اور "ہیومنز" کے لیے "ہیومن ازم" کا دین ایجاد ہوا جس کی بنیاد ہی سیکولر ازم، اور اقتدار اعلی کے انسانی حق کے اقرار پر ہے جو کہ جمہوریت کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے.
اس لحاظ سے سیکولرازم، جسد جمہوریت کی روح ہے. اگر آپ اقتدار اعلی کا منبع خدا اور وحی کو قرار دیتے ہیں تو یقینی طور پر آپ جمہور کی رائے کو کچھ حدود میں قید کرنے اور آزادی اظہار کو سلب کرنے کے "مجرم" قرار پاتے ہیں. یہ گویا اس نظام کی روح (سیکولرازم) کو مجروح کرنے کے مترادف ہے. اور چونکہ روح کے بغیر جسم مفلوج ہے، لہٰذا ردعمل اور مدافعت منطقی نتائج ہیں. اس نظام کی "فطرت" میں تبدیلی کی ہر کوشش کے شدید رد عمل کی کئی مثالیں اب تاریخ کا حصہ ہیں:
الجزائر،
فلسطین،
مصر،
اور اب ترکی...!!!
تو جناب اگر آپ کو کسی ان دیکھے خدا کا اتنا ہی خوف ہے کہ جوتا بھی اس کے بتائے طریقے سے پہننا چاہتے ہیں تو جائیں اسی سے اس کا نظام پوچھیں اور چلائیں. ہمارے
نظام میں "پیوند کاری" ہمیں منظور نہیں. ہم نے بڑی مشکل سے اور بڑی قربانیاں دے کر اسے ترتیب دیا ہے اور اس کی معراج تک پہنچایا ہے. اگر آپ اس میں کوئی "غیر ضروری" اور بنیادی نوعیت کی ترمیم کرنے کی کوشش کریں گے تو ہم بھی تمام اصول، انسانیت اور اخلاقیات بالائے طاق رکھ کر میدان میں اتریں گے اور اپنے دین کی بقا کے لیے لڑیں گے. اور یہ "چھوٹی موٹی ناکامیاں" ہمارا راستہ نہیں روک سکتیں.
''اگلے وار کے لیے تیار رہنا''
تبصرہ لکھیے