ٹرمپ جو کہ ایک بڑے کاروباری شخصیت ہے سیاست سے دور دور تک ان کا کوئی تعلق نہیں رہا جبکہ ان کے مقابلے میں ہیلری کی ملک کے لئے چالیس سالہ سیاسی خدمات سے سب واقف تھے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹرمپ اب امریکہ کا صدر ہے۔ اور اس کے صدر ہونے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں اور آپ کیا سوچھتے ہیں یا امریکہ کے چند شہروں میں چند ہزار مظاہرین کیا نعرہ لگاتے ہیں۔ کیونکہ وہ امریکہ کے اکثریت کا منتخب نمائندہ ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہوا۔اور اس میں ہمارے لیے کیا سبق ہے۔ تجزیہ نگار اس کی مختلف وجوہات پر سیر حاصل تبصرے کر رہے ہیں لیکن میری ناقص رائے میں اس کا جواب یہ ہے کہ قومیں ہمیشہ نڈر اور بے باک قیادت کو اسلئے پسند کرتی ہے کیونکہ وہ بولڈ فیصلے کرنے سے نہیں کتراتے، چیلنجز کا سامنا بہادری سے کرتے ہیں اورڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اسلئے جب بھی کوئی ایسا آپشن موجود ہو لوگ اس کا انتخاب کرتے ہیں۔ ترکی کا طیب ارودوان ہو یا بھارت کا نریندر مودی، ان کی باقی خوبیاں اور خامیاں اپنی جگہ لیکن ان میں یہ خاصیت موجود ہے کہ اپنے موقف کوبھرپور انداز میں بیان کرتے ہیں اپنی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں اور بولڈ فیصلے کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے بلا جھجھک اسلام اور مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور امیگرینٹس کو امریکہ کے بڑے مسائل میں سے ایک قرار دیتے ہوئے اس کو حل کرنے کا وعدہ کیا۔ گزشتہ نصف صدی سے پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے ذریعے جو پروپیگنڈہ کیا گیا اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں غیر مسلموں کی اکثریت تمام مسائل کی جڑ اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنے لگی۔ ایسے میں ٹرمپ کے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقاریر نے امریکہ کے ووٹر کو متاثر کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے تناظر میں نئے مواقع اور نوکریاں دینے کے اعلان نے بھی ٹرمپ کے سپورٹرز میں اضافہ کیا۔
اس الیکشن کے نتائج سے ایک اور پہلو بھی نمایاں ہو گیا کہ امریکی عہدیدار جو کہ ہمیں اعتدال پسندی کا درس دیتے نہیں تھکتے، خود وہاں کے عوام نے ایک انتہا پسند شخص کو منتخب کر کے یہ واضح کر دیا کہ امریکی معاشرہ خود کتنا انتہا پسند ہے۔ عورت کا مرد کے برابر ہونے کا بھاشن دینے والے ملک میں اکثر ووٹرز نے ہیلری کو اسلئے ووٹ نہیں دیا کہ وہ ایک خاتون کو امریکہ کا صدر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔اس الیکشن سے امریکی معاشرہ بری طرح ایکسپوز ہوگیااور ان کے دوہرے معیارات بالکل واضح ہو گئے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ آج کے جدید دور میں بھی امریکہ کالے اور گورے میں بری طرح تقسیم ہے۔ خواتین کو برابری کے دعوے کے با وجود برابری حاصل نہیں ہے۔ لبرل معاشرے کا تاثر اپنی جگہ لیکن انتہا پسندوں کی اکثریت ہے۔ جبکہ علاقائی اور نسلی تعصب بھی انتہاپرہے۔اب ٹرمپ کا امتحان شروع ہوچکا ہے اور وقت ثابت کر دیگا کہ وہ اپنے ووٹرز کے توقعات پر پورا اترتے ہیں یا دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کو ٹھیک ثابت کرتے ہیں۔
جہاں تک ہماری بات ہے، تو ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم پہلے بھی نشانے پر تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔ ہمیں امریکی انتخابات کے بعد اب اپنے معاملات پر توجہ دینی ہوگی۔ آئندہ عام انتخابات میں کسی ایماندار ، دیانت دار، محب وطن اور ملک وقوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے والا راہنما چننا ہوگا۔ ورنہ یہ کرپٹ، خود غرض اور بے حس حکمران اس ملک کو کھا جائیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور ہم - عبدالسلام

تبصرہ لکھیے