ہوم << باطل کی فکری یلغار اور دینی مدارس کی ذمہ داریاں - عابد محمود عزام

باطل کی فکری یلغار اور دینی مدارس کی ذمہ داریاں - عابد محمود عزام

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ دینی مدارس نے دینی علوم کے فروغ اور معاشرے کی اصلاح کے لیے ہردور میں انتہائی محنت اور جستجو کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ دینی مدارس کی سچی لگن کو دیکھتے ہوئے معاشرے نے بھی ان پر اعتماد کیا ہے اور آج وطن عزیز میں دینی مدارس اور طلبہ کی تعداد اس حد تک بڑھ رہی ہے کہ ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ تاہم مقدار میں اضافے کے ساتھ معیار میں کمی کا مسئلہ دینی مدارس کو بھی درپیش ہے اور رفتہ رفتہ مدارس میں ماضی کا تحقیقی و علمی مزاج دم توڑ رہا ہے۔ ماضی میں دینی مدارس تحقیقی مراکز ہوا کرتے تھے اور ان سے متعلق علماءنے مختلف موضوعات پر ہزاروں گراں قدر اور نایاب تحقیقی کتب تصنیف کی ہیں، اس دور میں بھی بہت سے کتب لکھی جارہی ہیں، لیکن ان کا علمی و تحقیقی معیار اس پائے کا نہیں جو ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے موجودہ دور میں ان اداروں میں تحقیق کے سوتے خشک پڑتے جارہے ہیں۔ بہت سے مدارس میں درسی تعلیم کے بعد تحقیق اور تصنیف کے شعبے گزشتہ چند برسوں میں کثرت سے قائم ہوئے ہیں۔ ان کی موجودگی سے اسلامی تحقیقات کی اہمیت کا احساس بڑھا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی شعبے سے تحقیق کے وہ مقاصد اب تک کماحقہ پورے نہیں ہوسکے، جس کی آج قوم و ملت کو اشد ضرورت ہے۔ اکثر دینی مدارس میں تحقیق و تصنیف برائے نام اور صرف نصابی سرگرمیاں حاوی ہیں۔ نتیجے میں مدارس سے غالب تعداد مدرسین اور مقررین یا پھر درسی کتب کے شارحین پیدا ہورہے ہیں۔ دینی مدارس کے فضلاءکی اکثریت میں آٹھ دس سال تعلیم کا محور سمجھے جانے والے علوم پر دسترس حاصل کرلینے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے اور افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد تو عربی زبان کی نصابی یا غیر نصابی کتابوں کی صحیح عبارت خوانی سے ہی قاصر ہوتی ہے۔ طلبہ کا سب سے بڑا اور اہم کام علمی تحقیقی و تصنیفی کام ہے۔ یہ کام طلبہ انفرادی طور پر اپنے شوق سے انجام نہیں دے سکتے، اس کے لیے مدارس کی سطح پر مطالعہ اور تحقیق کے لیے طلبہ کی مکمل رہنمائی اور موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق فضلاءمدارس اور طلبہ میں علم وتحقیق کا صحیح شعور بیدار کرنے کے لیے منصوبہ بند اقدامات کی ضرورت ہے، اس کے بغیر انفرادی طور پر طلبہ کے مطالعہ و تحقیق سے وہ کچھ حاصل نہیں ہوسکتا، جس کی ضرورت ہے۔
دینی مدارس میں عالمیہ کے بعد جو تخصصات کروائے جاتے ہیں، یہ عصری جامعات میں مختلف موضوعات میں کی جانے والی پی ایچ ڈی کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ ان تخصصات کو سائنسی اصولوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ عصری جامعات کی پی ایچ ڈی میں تحقیق کے جو جدید اصول اور مناہج تحقیق اپنائے جاتے ہیں، ان کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دینی مدارس کا نظام و نصاب اور مدارس میں عصری تعلیم کی ضرورت و اہمیت اگرچہ الگ موضوعات ہیں، لیکن سیرت النبی، تاریخ اسلام، اسلام کا معاشی نظام، جدید سیاسی نظریات کے تقابل کے ساتھ اسلام کا سیاسی نظام، جدید معاشرتی افکار کے ہمراہ اسلام کا معاشرتی نظام اور اس کے ساتھ استشراق، الحاد، مسلم ممالک پر مغرب کی فکری یلغار، اسلامی ممالک اورعالم اسلام کے مسائل اور جغرافیہ کو تفصیلی طور پر مدارس میں زیر بحث لانا بھی ضروری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مدرسے کی سند فراغت دراصل علوم دینیہ کے کمرے میں داخل ہونے کی کنجی ہے۔ گویا ایک فارغ التحصیل آٹھ دس سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس قابل ہوگیا ہے کہ اپنے طور پر بنیادی مآخذ کا مطالعہ کرکے علم و تحقیق کے سمندر سے لعل و گہر نکال سکتا ہے۔ تاہم تحقیق اور تصنیف کے لیے جس تجسس اور تخلیقی فکر کی ضرورت ہے، وہ صرف مدارس میں رائج نصاب سے حاصل نہیں ہوتی، اس کے لیے غیر نصابی کتب کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے، لیکن افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ مدارس کے طلبہ میں مطالعہ کا ذوق ناپید ہوتا جارہا ہے۔ بہت سے طلبہ جدید سہولتوں کی رو میں بہہ گئے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے فوائد اپنی جگہ، لیکن اس نے طلبہ کی علمی سوچ و استعداد کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ اب طلبہ کی اکثریت فارغ وقت تو فضولیات میں گزارتی ہی ہے، اپنی تعلیم کا بھی بہت سارا وقت موبائل، فیس بک اور دیگر ذرایع کی نذر کردیتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب بیشتر طلبہ میں نہ تو نصابی کتابوں کے مطالعے کا ذوق رہا اور نہ ہی غیرنصابی کتابوں سے کوئی سروکار ہے۔ ماضی میںطالب علم جب مدارس سے فراغت حاصل کرتے تو نصابی کتابوں کے ساتھ سیکڑوں مفید غیرنصابی کتب کا مطالعہ بھی کرچکے ہوتے تھے۔ اب غیر نصابی کتب کا مطالعہ صرف مناظر ے کے انداز میں لکھی گئی کتب کا مطالعے تک محدود ہوگیا ہے۔
دینی مدارس کو موجودہ طریق سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ علمائے کرام کی متفقہ کمیٹی تشکیل دے کر اس کے تحت روز پیش آنے والے نت نئے عصری و جدید مسائل پر تحقیق کا مضبوط نظام ترتیب دینے کی بھی ضرورت ہے۔ بسا اوقات بہت سے دینی مسائل میں مختلف مدارس کے مختلف فتاویٰ جات اور مختلف موقف سامنے آتے ہیں، بلکہ بعض مدارس میں تو ایک ہی مدرسے کے مختلف علمائے کرام کے مختلف موقف ہوتے ہیں اور بہت دفعہ کسی ایک رائے پر بہت شدت سے اصرار کیا جاتا ہے اور معاصر آراءکو درخور اعتناءنہیں سمجھا جاتا۔ ان حالات میں ایک عام آدمی ایک ہی دینی مسئلے میں متعددآرا کو دیکھ کر پریشان ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دینی مسائل میں دلائل کی بنیاد پر اختلاف کا ہونا فطری امر ہے اور تمام مسائل میں مکمل اتفاق رائے کسی بھی شعبے میں نہیں ہوتا مگر عملی زندگی سے متعلق فروعی نوعیت کے مسائل میں زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے کے لیے مشترکہ ادارہ ہونا چاہیے۔ ملک کا سب سے بڑا دینی تعلیمی بورڈ ہونے کی حیثیت سے وفاق المدارس کو چاہیے کہ ملک بھر کے جید علمائے کرام پر ایک منظم فقہی کمیٹی تشکیل دے، جو حالات حاضرہ اور جدید مسائل پر بحث کرکے کوئی متفق موقف سامنے لائے اور علمائے کرام کی یہ کمیٹی ملک بھر کے تمام شہروں میں دارالافتاءقائم کرنے کے اصول و ضوابط طے کرے، تمام دارالافتاءانہی اصولوں کے تحت فتاویٰ جات جاری کرنے کے پابند ہوں۔ معاشرے میں اپنے بلند مقام اور بھاری ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے دینی مدارس کو غور و خوض کے بعد اس قسم کے مزید اقدامات کرنا ہوں گے، تاکہ عوام کو شرعی و دینی مسائل میں اطمینان حاصل ہوسکے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مثالی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے دینی مدارس کا مستحکم و منظم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ دینی مدارس اور علمائے کرام نے جس معاشرے میں بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کیں، وہ معاشرہ ہمیشہ دینی اقدار کا علمبردار رہاہے۔ علمائے کرام، دینی مدارس اور اسلامی مراکز کی سب سے بڑی ذمہ داری اسلامی نظریات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ موثر اور منظم طریقے سے دینی احکام کی نشرواشاعت اور اسلام کے خلاف کھلنے والے ہر محاذ کا مقابلہ کرکے دین برحق کو قرآن و سنت کے سر چشمہ سے لے کر زمانے کے فہم میں ڈھال کر عصر حاضر کی زبان میں آگے منتقل کر نا بھی ہے۔ عصر حاضر میں تمام چیلنجز کے مقابلے کے لیے دینی مدارس کے طلبہ کو باقاعدہ تیار کرنا منتظمین کی ذمہ داری ہے۔ وارثان نبوت کا مطالعہ و تحقیق کے ذریعے معترضین کے لیے مسکت جواب تیار کرنا اور عمدہ بیان و تقریر اور بہترین انداز تحریر پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ طلبہ کی ذمہ داری جلسوں میں نعرے بازی کرنا نہیں، بلکہ عصر حاضر میں امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا اور معاندین کو انہیں کی زبان میں موثر انداز میں جواب دینا ہے۔
آج دین اسلام کے خلاف بہت ہی منظم انداز میں علمی و فکری سطح پر جدوجہد کی جارہی ہے۔ الحاد، استشراق، سیکولرازم، لبرل ازم اور نجانے کون کون سے عنوانات سے سادہ لوح مسلمانوں کو تشکیک میں مبتلا کر کے راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دشمنان اسلام اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کے لیے بھرپور محنت کے ساتھ نہ صرف کوشاں ہیں، بلکہ کامیابیاں بھی سمیٹ رہے ہیں۔ معاشرے میں مستشرقین، ملحدین، مغرب کی فکری و تہذیبی یلغار اور دیگر مخالفین اسلام کی کامیابیوں کو دینی مراکز کی اپنی ذمہ داریوں سے بے توجہی کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ مخالفین اسلام اہل اسلام کو اسلام سے بدظن کرنے کے لیے جس محنت اور جستجو سے کام کررہے ہیں، دینی مدارس کو اس سے کہیں زیادہ تحقیق و جستجو اور محنت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج دیگر مسالک کے رد سے کہیں زیادہ محنت الحاد، استشراق، سیکولرازم، لبرل ازم ، مغرب کی فکری و تہذیبی یلغار سمیت بہت سے جدید فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ہے۔ مستشرقین نے اسلام، قرآن، حدیث، سیرت، تفسیر، فقہ اور اسلامی علوم پر اعتراضات کرنے کے لیے اپنی پوری زندگیاں وقف کردی ہیں۔ اسلامی علوم میں خامیاں ڈھونڈنے کے لیے اسلامی علوم کو اتنا زیادہ پڑھا کہ ہمارے ہی متعدد علوم پر ہم میں سے بہت سوں سے زیادہ عبور حاصل کرلیا ہے، بلکہ اسلام دشمنی میں انہوں نے اس قدر تحقیق کی کہ بہت مرتبہ ان کی کی ہوئی تحقیق خود ہمارے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔ ملحدین دین متین اسلام پر ایسے ایسے اعتراضات کرتے ہیں کہ مدارس کے طلبہ ان کے جوابات دینے سے قاصر ہوتے ہیں، کیونکہ انہیں اس ضمن میں تیار ہی نہیں کیا گیا ہوتا ہے۔ ان حالات میں اگر امت کے رہنمایان وقت کی نزاکت کا احساس نہیں کرتے تو بعید نہیں کہ معاشرہ ان کے ہاتھوں سے نکل جائے۔ اگرچہ دینی مدارس گوناگوں مشکلات ومسائل کا شکار ہیں، وسائل کی کمی ہے، لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہمارے اسلاف نے بھی وسائل کی کمی کے باوجود ہی حیران کن حد تک علمی و تحقیقی ذخیرے چھوڑے ہیں، اس دور میں ہمارے پاس کم از کم ان سے تو زیادہ ہی وسائل ہیں۔ اسلام کے خلاف کھلنے والے جدید فکری محاذوں کے خلاف ملک میں اجتماعی سطح پر کوئی بڑا تحقیقی کام نہیں ہورہا، جہاں دینی مدارس کے باصلاحیت طلبہ کو اپنی خدمات پیش کرنے کا موقع مل سکے اور رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے وہ کچھ منفرد پیش کرسکیں۔ اگر کوئی فاضل یا طالب علم اپنی ذاتی دلچسپی اور کاوش کی بنا پر کوئی تحقیقی سامنے لے کر آتا ہے تو اس کی اس قدر حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، جس کا وہ مستحق ہوتا ہے، حالانکہ حوصلہ افزائی ضروری ہے۔
دینی مدارس میں طلبہ کو امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کے مقابلے کے لیے تیار کرنا، ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنا انتہائی ضروری ہے۔ طلبہ کو تحقیق کے لیے عصر حاضر میں امت مسلمہ اور ہمارے معاشرے کو درپیش مسائل سے متعلق مختلف موضوعات دے کراساتذہ کی نگرانی میں مطالعہ کروایا جائے اور ان موضوعات پر مقالاجات لکھوائے جائیں۔ مدارس کی سطح پر ملک میں ایک ایسا ادارہ قائم ہونا چاہیے، ملک کے تمام شہروں میں جس کی ذیلی شاخیں ہوں۔ دینی مدارس کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنا، اگر ضرورت ہو تو معاشی معاونت کرنا اور اسلام پر جدید اعتراضات کے جوابات سے لیس کر کے قوم کے سامنے لانا جس کی ذمہ داری ہو۔ مدارس میں لکھے گئے مقالاجات میں سے اگر کوئی تحقیقی کام اچھا کیا ہوا اور وہ قوم و ملت کا لیے نفع بخش ہوسکتا ہے تو اسے شائع کروانے کی بھی کوئی ترتیب بنائی جائے۔ یہ ادارے وقتاً فوقتاً ہر شہر کی سطح پر مختلف پروگرامات کا انعقاد کریں، جن میں طلبہ کا تحقیقی کام منظر عام پر لایا جائے اور اس پروگرام میں شریک طلبہ کو انعامات سے نوازا جائے۔ اس سے یقینا تمام طلبہ میں تحقیقی کا م کا ذوق پروان چڑھے گا۔ اہل یورپ نے اپنے طلبہ میں تحقیقی ذوق کو پروان چڑھایا اور اپنے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جس سے تاریک ماضی رکھنے والے یورپین آج پوری دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں، جبکہ ہم تحقیقی اور علمی ذوق کو خیرباد کہہ کر پستی کی گہرائیوں میں جاگرے۔ اگر دینی مدارس کے طلبہ کا ساتھ دیا جائے اور ان کے ساتھ تعاون کیا جائے تو یقینا وہ اپنی تمام ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے عصر حاضر کی توقعات پر پورا اتریں گے۔

Comments

Click here to post a comment