ہوم << ٹرمپ نے وہ کہا جو اوبامہ اور بش نے ہمارے ساتھ کیا-انصار عباسی

ٹرمپ نے وہ کہا جو اوبامہ اور بش نے ہمارے ساتھ کیا-انصار عباسی

Ansar-Abbasi-1
تجزیے، سروے، پیشن گوئیاں اور اندازے سب ہار گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے۔ امریکیوں نے ایک ایسے شخص کو اپنا صدر منتخب کر لیا جس کے بارے میں امریکا میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایک متعصب، منفی، بدکردار اور بدزبان شخص ہے جو مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے اور اگر ایسا شخص امریکی صدر بن گیا تو امریکا میں اقلیتوں کے لیے خطرہ ہو گا اور وہاں شدت پسندی زور پکڑے گی۔ پی پی پی کی رہنما شیری رحمان سمیت ہمارے کچھ لوگوں کی رائے میں امریکا ٹرمپ کی جیت کے بعد مایوسی کی حالت میں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی اکثریت نے ایک ٹرمپ کو اُس کی تمام تر خرابیوں کے ساتھ اپنا صدر منتخب کیا اور وہ اس انتخاب پر جشن بھی منا رہے ہیں۔ ہاں ہمارے ہاں بہت سو لوگ صدمہ میں ضرور ہیں۔ اُن کے لیے ہیلری کلنٹن تو جیسے پاکستان کی کوئی اپنی امیدوار تھیں اور ٹرمپ کوئی دشمن۔ چند ہفتوں پہلے میں نےسوشل میڈیا میں امریکی صدارتی امیدواروں کے حوالے سے لکھا تھا کہ ٹرمپ مسلمانوں کے خلاف اُس سے زیادہ کیا کچھ کر سکتا ہے جو خصوصاً 9/11 کے علاوہ بش اور ابامہ نے کیا۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل و غارت بش اور ابامہ کے ادوار میں ہوا۔
ٹرمپ اس سے زیادہ بُرا کیا کرے گا۔ ٹرمپ سے پہلے امریکا نے افغانستان، عراق، لیبیا، شام وغیرہ میں تباہی و بربادی پھیلا دی جس میں ہمارے ـ’’اپنی‘‘ ہیلری کلنٹن کا بھی ان جرائم میں اہم حصہ رہا۔ پاکستان کو امریکا نے ہمیشہ دھوکہ دیا، استعمال کیا۔ 9/11 کے بعد ہمارے ملک کو دہشتگردی کا نشانہ بنوایا، یہاں ڈرون حملے کیے اور سینکڑوں افراد بشمول عورتوں اور بچوں کو مارا، ایبٹ آباد حملہ کیا، سلالہ میں ہمارے کئی فوجیوں کو شہید کیا، پاکستان میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کے نیٹ ورک کو مضبوط کیا اور یہاں افراتفری پھیلانے کا سامان پیدا کیا۔ اب ٹرمپ اس سے زیادہ پاکستان کو کیا نقصان پہنچائے گا۔ تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیری مزاری نے کیا خوب کہا کہ ہیلری وہ شیطان ہے جسے ہم جانتے ہیں جبکہ ٹرمپ وہ شیطان ہے جسے ہم نہیں جانتے۔ خاص بات یہ کہ دونوں (ہیلری اور ٹرمپ)پاکستان ہو یا مسلمان اُن کے خیر خواہ نہیں۔ ٹرمپ اور دوسروں میں جو فرق ہے وہ صرف اتنا کہ ٹرمپ کی مسلمانوں سے نفرت اُس کی زبان پر ہے جبکہ دوسروں نے اپنے اندر چھپا کر رکھی ہے۔ اس لیحاظ سے تو ٹرمپ دوسروں سے بہتر ہے کیوں کہ جو اُس کے دل میں ہے وہ اس کی زبان پر بھی ہے۔ٹرمپ اپنی زبان سے مسلمانوں کے خلاف تعصب کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کوامریکا میں داخل نہیں ہونے دے گا، وہ کہتا ہے کہ پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام پر سخت نظر رکھے گا تا کہ وہ شدت پسندوں کے ہاتھوں میں نہ جائے اور یہ بھی کہ وہ ہندوٗں اور بھارت کا دوست ہے۔ تو کیا یہ سب کچھ ابامہ اور بش نے اپنے اقدامات سے ثابت نہیں کیا۔
نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے امریکا نے پاکستان کو استعمال کیا، پاکستان کے اندر دہشتگردی کی لعنت کو دھکیلا۔ پاکستان کے احسانوں کا بدلا یہ دیا کہ پہلے افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ کو بڑھایا اور اب مکمل طور پر اپنا جھکائو بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف کر دیا۔ پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کو شک کی نظر سے ہی امریکا دیکھتا رہا جبکہ بھارت کے ساتھ نہ صرف نیوکلئیر انرجی تعاون کا معاہدہ کیا بلکہ اُسے نیوکلئیر سپلئیرز گروپ میں شامل کرنے کے لیے اپنی مہم چلا رہا ہے۔ جو کچھ ابامہ اور ہیلری نے بھارت کے لیے گزشتہ آٹھ سالوں میں کیا اُس کو ٹرمپ نے زبان دی۔ ہاں اس الیکشن میں جیت سے امریکیوں کا چہرہ ضرور بے نقاب ہو گیا جس پر ٹرمپ کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے۔ امریکیوں کے بارے میں اب بہت سوں کی یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ وہ بہت شاندار اور کھلے دل کے لوگ ہیں۔ امریکی ووٹرز نے اس تاثر کو بھی غلط ثابت کر دیا کہ امریکی انتظامیہ کے مسلمان اور اسلام مخالف تعصب اور پالیسیوں کا امریکی عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ امریکی لوگ تو بڑے غیر متعصب ہوتے ہیں۔ ٹرمپ الیکشن جیتنے کے بعد کیا کریں گے اس پر بحث بعد میں ہو گی لیکن اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ اُن کی جیت نے امریکی ووٹرز کے اندر کے بغض خصوصاً مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت کو سب پر ظاہر کر دیا۔
میری ذاتی رائے میں جو امریکا میں ہوا وہ اچھا ہوا۔ ٹرمپ کی جیت امریکا کو اُسی طرح کمزور کرسکتی ہے جس طرح Brexit کے نتیجے میں برطانیہ اور یورپ کو خطرات کا سامنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کمزور امریکا اور منقسم یورپ مسلمانوں پر پہلے جیسا ظلم ڈھانے کے قابل نہیں ہوں گے اس لیے امریکی الیکشن نتائج اور Brexit سے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس ماحول میں مسلمانوں کو بھی ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے، اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کوتاہیوں کو دور کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم امریکا و یورپ کی غلامی میں ہی اپنا مستقبل محفوظ رکھنے کے دھوکہ میں پڑے رہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک آپس میں تعاون اور رابطوں کو بڑھائیںتاکہ غیروں کی سازشوں کا مل کر مقابلہ کیا جاسکے۔

Comments

Click here to post a comment