بہتر ذریعہ معاش کی فکر میں ہر انسان بہتر سے بہتر پڑھائی اور کامیابی کی کوشش کرتا ہے، مگر بہت سے لوگ اچھا پڑھ لکھنے کے باوجود بھی اچھی تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں اور بعض اوقات کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ بھی ادب و آداب کی اونچائیوں کو چھونے لگتے ہیں، یہی وہ ظرف ہے جو اللہ پاک کی طرف سے نعمت کے طور پر کچھ لوگوں کو عطا کر دیا گیا ہے، ادب سے لگاؤ اور محبت ہی اعلی ظرفی کا سبب ہوتی ہے اور اگر ادب انسان کے اندر رچ بس جائے تو زندگی کے ہر موڑ کو وہ ایک الگ نظریہ سے سوچتا، سمجھتا اور بیان کرتا ہے۔
مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب میں سعودی عرب آیا اور نوکری کےلیے بہت سی جگہ انٹرویو اٹینڈ کیے۔ فیلڈ میں فریش ہونے کے باعث کافی خجالت اٹھانا پڑی اور کافی تگ و دو کے بعد ایک کمپنی میں کم پیسوں پر کافی عرصہ تجربہ حاصل کرنے کی غرض سے نوکری کرنا پڑی۔ اس میں کچھ نیا نہیں تھا کہ تعلیم سے فراغت کے بعد طلبہ و طالبات کو تجربہ حاصل کرنے کے لیے ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اچھی نوکری کی تلاش میں ایک نئے دوست کسی کے توسط سے رابطہ میں آ گئے، عمر اور تجربہ کے لحاظ سے کافی سینئیر تھے، سلام دعا کے بعد علاقائی تعارف ہوا تو ڈاکخانہ بھی مل گیا۔ ایک اچھی نوکری کی تلاش میں پہلے سے ہی تھا اور پھر ان کا تعاون ملا تو مزید آسانی ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد حالات کی مناسبت سے جب انہوں نے اپنی کمپنی میں میرے لیے کوشش کی تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں انٹرویوکی غرض سے الخبر دمام سے ریاض پہنچ گیا، پہلے پہل تو میں ان کی کمپنی میں انٹرویو دینے پہنچا اور جیسا انہوں سے سمجھایا تھا تو وہاں کا ماحول سمجھنے میں بھی پریشانی نہ ہوئی اور انٹرویو بہت اچھا رہا۔ فیلڈ کی مناسبت سے بہت سے سوالات کیے گئے جن کے بہت اچھے طریقے سے جوابات دینے پر مجھے منتخب کر لیا گیا۔ بعد ازاں انھی کے ایک دوست کے ساتھ ریاض شہر سے تقریبا دو سو پچاس کلومیٹر کی مزید مسافت طے کر کے سائٹ پر جا پہنچا جہاں باقی کا دن سائٹ آفس میں کچھ ڈرائنگز دیکھتے اور پھر سائٹ وزٹ پر گزرا، دارصل یہ پراجیکٹ اس ریلوے ٹریک کا تھا جو ریاض سے مدینہ منورہ تک کے لیے بچھایا جا رہا تھا، سو رہائشی ایریا تک پہنچنے کے لیے مزید دو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑا، رات گئے ہائی وے سے اتر کر جنگل و بیابان سے گزرتے ہوئے ایک ویرانے میں پہنچے جو نئے بچھائے جانے والے ریلوے ٹریک کے ساتھ عارضی رہائش کےلیے منتخب کیا گیا تھا۔ رات کے پُرتکلف طعام بعد نئے ملنے والے سب احباب نے اپنی اپنی خواب گاہوں کا رخ کیا۔
سونے کی تیاری کے دوران ہم آپس میں بھی کافی گپ شپ کرتے رہے لیکن تعجب تب ہوا جب ان کے منفی تاثرات مجھ پر عیاں ہونے شروع ہوئے۔ بہت سی ذو معنی باتیں اور کبھی اٹھ کر کمرے میں ائیر فریشنر کا چھڑکاؤ، ایسی ادائیں اور نرالے ناز و انداز دیکھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی، اس سے پہلے میرے ساتھ اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا تھا سو بوکھلاہٹ چہرے پر عیاں تھی، ہچکچاہٹ کی وجہ سے الفاظ لبوں پر نہیں آ رہے تھے اور ماتھے پر نمودار ہوتی بوندیں میرے چہرے پر پریشانی کو مزید عیاں کر رہی تھیں۔
ان کے حساب سے ڈیل کرنا تو مجھے کہاں معلوم تھا مگر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ چند کہے گئے الفاظ اُن پر اس قدر گراں گزرے کہ میری باقی رات سکون سے بسر ہوگئی اور میں برائی سے بال بال بچ گیا۔ اس میں میری ہوشیاری اور چالاکی بالکل نہ تھی بلکہ زبان سے خود بخود یہ الفاظ نکل گئے کہ،
جنابِ محترم! اگر میرے سامنے کوئی حسین و جمیل لڑکی بھی اس طرح کی ادائیں دکھا کر لُبھانا اور مجھے برائی کی طرف مائل کرنا چاہے تو میں اسے بھی رد کرنے میں ایک پل نہ لگاؤں گا کہ مجھے میرے رب نے حق اور ناحق، اچھائی اور برائی اور حلال و حرام کے علم سے نوازا ہے۔
یہ چند الفاظ سننے کے بعد انہوں نے وہاں سے جانے میں عافیت جانی۔
صبح نہا دھو کر پھر سائٹ پر جانے کے لیے دو گھنٹے کی مسافت پر نکل کھڑے ہوئے، اس دوران خاموشی تب ٹوٹی جب وہ کہنے لگے کہ میری زندگی میں پہلے ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آیا، جو میں بھی سمجھنے سے قاصر تھا کہ میں آپ کے پاس ہم جنس پرستی کی اس خواہش میں کیا بن کر آیا تھا، آیا کہ آپ نوجوان ہو کر بھی اپنے نفس پر قابو پا کر مجھے ٹھکرا رہے تھے یا میں اپنے نفس کی پیروی کرتا آپ کے حسن سے متاثر ہو کر کچھ ناجائز طلب کا خواہاں تھا۔ تحمل سے ان کی بات سنی اور علامہ اقبال کا ایک شعر میرے ذہن میں آیا جو میں نے انہیں سنانا چاہا کہ
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کرگئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ
انہوں نے واہ واہ کرتے میری بات کاٹی اور اپنی صفائی میں مزید بیس منٹ کا لیکچر سنا ڈالا، مجھے اگلا شعر تو سنانا تھا مگر انہیں اطمینان بھی دلانا پڑا کہ آپ ایک پڑھے لکھے اچھے انسان ہیں، معاشرے میں اچھا نام رکھتے ہیں، اور ایک اچھی فیملی سے بھی تعلق رکھتے ہیں، لیکن آپ مجھے علامہ محمد اقبال کا شعر تو مکمل سنا لینے دیجیے کہ میں اپنے احساسات و خیالات اور جذبات کی ترجمانی کر سکوں۔ کہنے لگے کہ آپ کے ساتھ یہ تھوڑا سا ٹائم گزار کر مجھے ایک الگ ہی احساس پیدا ہوا جسے شاید آج سے پہلے میں نے محسوس کرنے کی کوشش ہی نہ کی تھی، معذرت خواہ ہوں آپ شعر مکمل کیجیے۔
تو سر علامہ اقبال اس کے بعد اپنی قوم کے جوانوں سے کچھ یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ،
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بےداغ
سر! میں حیران ہوں کہ آج کل نئی نسل کس راستہ پر چل پڑی ہے، ہمارے بڑوں کو ہمیں اقبال کا شاہین بنانے میں کردار ادا کرنا چاہیے تھا مگر وہ کیا کر رہے ہیں؟ کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ ہم انتہا کی بےراہ روی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم جنس پرستی کے حامی اور اسے فروغ دینے والے سات سمندر پار بیٹھ کر ہمیں اس گھناؤنی دلدل میں دھنسائے جا رہے ہیں اور اپنے چند ایجنٹس کے ہاتھوں ہماری نسل کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہیں۔ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ ہم اپنے مقصد زندگی کو بھول رہے ہیں، یہ روش برقرار رہی تو نہیں معلوم انجام کیا ہو، بڑوں کو تو فکرمند ہونا چاہیے کہ وہ اپنی آنے والی نسل کو کیا دے کر جا رہے ہیں۔ جس قدر تیزی کے ساتھ ہم جنس پرستی فروغ پا رہی ہے، مستقبل قریب میں اس بیماری سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ کم عمری میں بری صحبتوں کا شکار ہونے والے اس قبیح حرکت کو اپنا لیتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ پختہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس قبیح حرکت کا آغاز کرنے والی قومِ لوط اس کی وجہ سے عذابِ الہی کا شکار ہوئی تھی۔ کبھی اتفاق ہو تو بحیرہ مردار کے جنوبی حصے اور موجودہ اردن سدوم اور عمورہ کے علاقے کو وزٹ کیجیے کہ جہاں مٹی کے اوپر ایک الگ تہہ ہے، کٹے پھٹے عجیب و غریب، دہشت زدہ وہ پہاڑ ہیں جو ان دہکتے پتھروں اور مٹی کے ہیں جو اس قوم کی برائی پر اصرار اور سرکشی کے باعث برسائے گئے تھے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں راہِ راست پر صبر و استقامت عطا فرمائے، ہمارے لیے آسانیاں پیدا فرمائے اور مسلمانیت و انسانیت کے درد سے ہمارے سینے منور فرمائے کہ ہم اپنی عارضی و ابدی زندگی میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو سکیں۔
اقبال کا یہ شاہین آج بھی میرا بہت اچھا دوست ہے، جو ریاض کا اپنا پہلا سفر سنا رہا تھا اور میں بڑے تعجب اور حیرانی کے ساتھ سن رہا تھا۔
تبصرہ لکھیے