ہوم << ذلیل ایسے ڈاکٹر ہیں نہ کہ ان کا پیشہ - احمر اکبر

ذلیل ایسے ڈاکٹر ہیں نہ کہ ان کا پیشہ - احمر اکبر

(ذیل میں جس تصویر کی بنا پر یہ تحریر لکھی گئی ہے، وہ دلیل کو موصول ہوئی ہے. تصویر بےشرمی اور بےحسی کی علامت ہے. حساسیت کی وجہ سے اسے شامل اشاعت نہیں کیا جا رہا. آپریشن تھیٹر میں مردوں کی موجودگی یا خود ان کا آپریشن کرنا ایک بھیانک مسئلہ ہے اور اس طرح کی شکایات مختلف مواقع پر آتی رہی ہیں، انٹرنیٹ پر بھی ایسے کئی واقعات کے حوالے سے مواد موجود ہے. ضروری ہو گیا ہے کہ نہ صرف حکومت قوانین سخت کرکے ان پر عملدرآمد کو یقینی بنائے بلکہ ڈاکٹروں کو بھی اپنے درمیان ایسے کالی بھیڑوں کی نہ صرف نشاندہی کرنی چاہیے بلکہ انھیں اپنے پیشے سے الگ کرنا چاہیے.)
ڈاکٹر ایک مسیحا سمجھا جاتا ہے. دنیا میں ڈاکٹری کو مقدس ترین پیشوں میں جانا اور پہچانا جاتا ہے، ہماری مقدس کتاب قرآن مجید میں بھی حضرت لقمان حکیم کا ذکر موجود ہے۔ ڈاکٹر حکیم لقمان کی ہی جدید قسم ہے.
ڈاکٹروں کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے۔ ہم کو بچپن سے ہی یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ ڈاکٹر سے کبھی بھی شرمانا نہیں چاہیے. پہلے فیملی ڈاکٹر ہوا کرتے تھے، اب ان کی گھر آنے والی سروس تو ختم ہوئی، ساتھ میں نخرے بھی بڑھ گئے. مخصوص ڈاکٹروں کو ہم اپنا رازدار بنا کر، انھیں اپنی پریشانی اور جسمانی بیماریوں کے بارے میں بتا کر بہتر علاج کی توقع کرتے ہیں، جس کی ہم مخصوص رقم بھی ادا کرتے ہیں. اگر وہی ڈاکٹر جن کو ہم اپنا مسیحا مانتے ہیں، ہماری عزتیں بھی اچھالنے لگیں تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟ یقینا میری طرح آپ بھی ردعمل دیں گے.
اب آتے ہیں اصلی بات کی طرف۔ کل سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھی ہے جس کو دیکھنے کے بعد نہایت افسوس بھی ہوا، شرمندگی بھی ہوئی اور اپنی قوم کی بےحسی پر ترس بھی آیا۔ تصویر میں دو ڈاکٹرز کسی سرکاری یا نجی ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں اپنی سیلفی بنا رہے ہیں، سیلفی بنانا جرم نہیں مگر اس تصویر کے پیچھے اگر ہم دیکھیں تو ایک بیٹی، ایک بہن، ایک ماں بنا کپڑوں کے نیم بےہوشی کی حالت میں سٹیچر پر پڑی نظر آتی ہے۔
مجھے سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ لگا کہ ہم جن ڈاکٹروں کے سپرد اپنی عزت کرتے ہیں، وہ اتنے گھٹیا اور بےشرم بھی ہو سکتے ہیں کہ عورتوں کی اس حالت میں جب وہ اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں، نیم بے ہوش ہوتی ہیں، ان کی عزت کو نیلام کیا جائے؟ کیا ایسے ہوتے ہیں ڈاکٹر؟ کیا آپ اپنے ڈاکٹر کی ایسی حرکت برداشت کر سکتے ہیں؟ یقینا آپ میں سے کسی نے بھی کھی کوئی ایسی ریکی نہیں کی ہوگی، ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ جن ڈاکٹروں کے پاس ہم بغیر کسی خوف کے جاتے ہیں، ان کا عملہ یا وہ خود ایسا کوئی کام کر سکتے ہیں، مگر یہ جو آج سب دیکھا، آنے والی نسلوں کے لیے بھی فکر کی علامت ہے.
لوگ کہیں گے یہ ان کا ذاتی فعل ہے، سب ڈاکٹروں کو اس کیٹگری میں مت ڈالیں، مجھے اتفاق ہے مگر آپ لوگ خود بتائیں، جو واقعہ لکھا ہے یا جو باتیں بیان کرنے لگا ہوں؟ کیا وہ غلط ہیں؟
عورتوں کو بےہوشی کے دوران ہلکی پھلکی ہوش ہوتی ہے، وہ بہتر بتا سکتی ہیں کہ کیا وہاں ڈاکٹر اپنا موبائل استعمال نہیں کرتے؟
کیا ان کے ساتھ نرسیں اور عملہ آپس میں مذاق نہیں کرتا؟
کیا فی میل ڈاکٹر، آپریشن کو میل ڈاکٹر سے نہیں کرواتی؟
آج سے بیس سال پہلے وقت بہت اچھا تھا، ڈاکٹر لوگوں کے گھروں تک جاتے تھے، فیملی ڈاکٹر کہلواتے تھے. اب ہر کوئی اپنا کاروبار، اپنا بزنس، اپنا ہسپتال بنا کر عوام کو لوٹ رہا ہے، اور ہم اور ہماری عورتیں بڑی خوشی سے ان کے پاس جا کر اپنا پیٹ چاک کرواتی ہیں، اور کبھی اس بارے میں سوچا تک نہیں کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اس تصویر میں نظر آ رہا ہے.
ایک ڈاکٹر پر کتنا خرچہ آتا ہو گا کوئی اندازہ ہے آپ کو؟
ایک ڈاکٹر پر چالیس لاکھ تک خرچہ حکومت کا ہوتا ہے والدین کے علاوہ۔ دوسرے لفظوں میں وہ ہمارا پیسہ ہوتا ہے، عوام کے ٹیکس کا پیسہ۔ ہم کو معلوم ہی کب تھا کہ ان میں ایسے سانپ بھی پل رہے ہیں جو اس طرح عوام سے کھیلیں گے، پیسوں کے حوالے سے بھی اور عزت کے حوالے سے بھی۔گائنی کے شعبے میں آج کل مردوں کو بہت چارم نظر آتا ہے، اس کی کوئی خاص وجہ مجھے آپ ہی بتا دیں ؟ میں تو ناقص العقل ہوں کچھ بھی سوچ سکتا ہوں.
کیا یہ حقیقت نہیں کہ بڑی بڑی لیڈی ڈاکٹروں کے نام سے چلنے والے ہسپتالوں میں بھی 80% لیڈی ڈاکٹر صرف ڈیکوریشن پیس ہوتی ہیں، وہاں آپریشن میل ڈاکٹر یا میل او ٹی کرتے ہیں، اور میڈم پاس پڑی کرسی پر اپنے موبائل کے ایس ایم ایس چیک کر رہی ہوتی ہیں. آپریشن کا دورانیہ آدھا گھنٹہ ہوتا ہے مگر اسے بڑھا کر دو گھنٹے کر دیا جاتا ہے تاکہ ورثا سوچیں کہ بہت تسلی بخش کام کیا جاتا ہے. یہ نہیں پتہ کہ اندر نرس، او ٹی ڈاکٹر موبائل میں مصروف ہیں.
فی میل سرجن کی نسبت میل سرجن زیادہ بہادری سے اور جلدی کام ختم کرتے ہیں مگر پھر عوام کو دھوکے میں کیوں رکھا جاتا ہے؟
ڈاکٹروں کی سہولت کے لیے پورے ہسپتال میں کیمرے لگے ہوتے ہیں؟ کیا مریض کے ورثا بھی آپریشن تھیٹر کا اندرونی حال دیکھنے کی فرمائش نہیں کر سکتے؟
آپ یقین کریں، آج کل نجی ہسپتالوں میں ماحول کسی یورپی ملک سے کم نہیں ہے۔ یہ تصویر کسی سرکاری یا غریب نجی ہسپتال کی ہو سکتی ہے مگر یہ عزت ہم سب کی ہے، ہم سب کی مائیں اور بہنیں ان کے پاس جاتی ہیں، ان پر ہم اندھا اعتماد کیوں کرتے ہیں؟
کیا ہمارے پاس آپشن ختم ہو چکے ہیں؟ کیا ہم ان جیسے گھٹیا لوگوں اور نام کی لیڈی ڈاکٹروں کے علاوہ کہیں اور نہیں جا سکتے؟
ہم سب کب تک چپ رہیں گے؟ کب تک اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر خاموش رہیں گے؟
ابھی بھی وقت ہے، ہم سب مل کر ایسے عناصر کا خاتمہ کر سکتے ہیں، آپ نشاندہی کریں، آواز اٹھائیں کہ چپ رہنے سے ان جیسوں کو اور جرات مل جاتی ہے.
میں حکومت وقت سے التجا کرتا ہوں کہ اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر ایسے مسائل کا بھی حل نکالے اور ہسپتالوں میں کچھ اقدامات پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے. جیسے
آپریشن تھیٹر میں موبائل فون کا استعمال ممنوع ہو۔
آپریشین تھیٹر کا عملہ جنس کے حساب سے ہو، مرد کے لیے مرد اور عورتوں کے لیے عورتیں۔
آپریشن اگر میل سرجن کرے مگر ان کے ساتھ تمام عملہ مہذب اور ایک ہی جنس کا ہو۔
ورثا کو آپریشن تھیٹر تک رسائی دی جائے تاکہ وہ اندرونی ماحول کو دیکھ سکیں۔
امید ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو گا اور جن کے چہرے تصویر میں نظر آ رہے ہیں، انھیں، اور ان جیسے عناصر کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ دوبارہ ایسی جرات کوئی اور نہ کر سکے۔

Comments

Click here to post a comment