آگ جلاتی اور پانی ڈبوتا ہے۔ مگر کبھی کبھی آگ جلانا اور پانی ڈبونا بھول جاتے ہیں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ نمرود کی جلائی آسمان کو چھوتی آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ائرکنڈیشنڈ گلزار ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ٹھاٹھیں مارتے دریائے نیل کا نیلگوں پانی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو ڈبونے کے بجائے مٹی کے بلند پہاڑو ں کی صورت اختیار کر جاتا ہے. ہماری دنیا میں بغیر باپ اور ماں کے کسی بچے کی پیدائش ممکن نہیں مگریہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے انسان سیدنا آدم علیہ السلام بغیر ماں باپ کے جبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیداہوئے. قانون میں کبھی کبھی کے اس تعطل اور ’بائی پاس‘ کو عربی اور اردو میں ’ استثنا‘کہتے ہیں جبکہ انگریزی زبان میں کہا جاتاہے : ’’ There are exceptions to every rule‘‘۔
دراصل اس کائنات کی مجاز اتھارٹی اور حتمی قوت انسانوں کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ گو اس نے انسانوں کے لیے اس کائنات کی بنیاد اسباب اور ذرائع پر رکھی ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی قطعا نہیں کہ اب خود خدا بھی اپنے ہی وضع کردہ اسباب و وسائل کے سامنے بے بس ہو گیا ہے. چنانچہ انسانوں کی اسی غلط فہمی کا ازالہ وہ یوں کرتا رہتا ہے کہ جب چاہتا ہے، اپنے بنائے ہوئے قوانین پر اپنی برتری دکھا دیتاہے. تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات کے ان قوانین میں استثنا یا Excepeion جب جب بھی ظہور کرتا ہے، پوری انسانیت کے لیے ایک واضح دلیل، نمایاں برہان اور ہمیشہ باقی رہنے والا سبق بن جاتا ہے۔ اپنی قدرتِ کاملہ کاایسا اظہار اللہ تعالیٰ کبھی نابغۂ روزگار شخصیات کو تخلیق کرکے بھی فرماتا ہے. چنانچہ جب جب اللہ کو منظور ہوا، اس نے زمیں کو ایسے ایسے عبقری اور شہ دماغ انسان نصیب کیے کہ آسمان کو بھی ان پر رشک آتا رہا. تاریخ و سیر میں جھانکنے والے شخص کے لیے نہ یہ موضوع اجنبی ہے اور نہ وہ ایسی نادرِ روزگار شخصیات سے ہی لاعلم ہو سکتا ہے. علوم و فنون کے مختلف میدانوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے عالی دماغ پیدا فرمائے کہ تاریخِ انسانی آج بھی انھیں تعجب اور احترام سے یاد کرتی ہے. ایسے کچھ نابغوں نے شعر و ادب کے نئے آسمان تخلیق کیے، کچھ نے دین و معرفت کے در کھولے اور کچھ نے کائنات کے گنجلک اسرار و رموز انسانیت کے لیے پانی کر دکھائے. ماضی قریب میں دینی حلقوں میں ابن تیمیہ ، شاہ ولی اللہ، مجدد الفِ ثانی اور ابو الکلام آزاد جیسی انسانیت کی ایسی ہی نمائندہ طلسماتی اور کرشماتی شخصیات انسانیت کا اثاثہ ہیں.
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارا عہد بھی ایسے بڑے لوگوں سے خالی نہیں. جن بڑی شخصیات کو میں اس زمانے کا ضمیر اور پہاڑی کا نمک سمجھتا ہوں، ان میں ایک شخصیت ڈاکٹر عبدالکریم ذاکر نائک صاحب کی بھی ہے. شہرت اور مقبولیت اس شخص پر یوں ٹوٹ کے برسی ہے کہ آدمی اللہ کی اس دین پر دنگ رہ جاتاہے. ویسے بطور سلیبریٹی شہرت کے لیے درکار لوازمات کو دیکھا جائے تو شہرت کو ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب پر ہرگز مہربان نہیں ہونا چاہیے تھا. وہ ایک دھان پان سے شخص ہیں. ٹی وی کے لیے درکار مروجہ فیس بیوٹی کے معیار پر وہ پورے نہیں اترتے. روایتی علماء و مشائخ کے بر عکس انھوں نے ممتاز ہونے کے لیے کبھی جبہ و دستار کا بھی سہارا نہیں لیا. نہ انگریزی ان کی مادری زبان ہے اور نہ اردو. اردو میں وہ بات کرنے سے پہلے معذرت کر لیتے ہیں کہ ممکن ہے وہ گرامر کی رو سے فصیح اردو بولنے سے قاصر رہیں. اس سب کے باوجود لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تھری پیس سوٹ پر ایک سادہ سفید ٹوپی پہن کر دنیا بھر کے ادیان کو اسی عام سے آدمی نے دلیل و دانش کی بنیاد پر مناظرے کا چلینج دے دیاہے. چیلنج دینا تو خیر ہمارے ہاں بڑا عام ہے لیکن تین عالمی مذاہب سے کیے گئے ناقابلِ فراموش کامیاب مناظرے بھی آنجناب کے کریڈٹ پر ہیں. ان کا مشہورِ زمانہ مناظرہ شکاگو (امریکہ) میں ایک عیسائی سکالر سے ہوا. دراصل عالمی سطح کے معروف عیسائی سکالر ولیم کیمبل کا دعویٰ تھا، بلکہ انھوں نے کتاب بھی لکھی تھی کہ ان کے نزدیک قرآن مجید میں کم و بیش سو سائنسی غلطیاں ہیں. یکم اپریل 2001 کو ہونے والے اس کئی گھنٹوں پر مشتمل مناظرے میں ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب نے ولیم صاحب کے ہر اعتراض کو دلائل سے غلط ثابت کیا جسے ولیم کیمبل صاحب نے تسلیم بھی کیا اور جوابا ڈاکٹر صاحب نے بائبل میں کئی ایسی سائنسی غلطیوں کی نشان دہی کی کہ جن کا عیسائی سکالر سے کوئی جواب نہ بن سکا اور یوں انھوں نے اپنی شکست کا اعتراف کر لیا. ڈکٹر صاحب ایسے ہی دو ایک اور بڑے مناظروں میں بھی مقابل مذاہب کو شکست دے چکے ہیں.
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کی مقبولیت دراصل دلیل کی مقبولیت ہے. ڈاکٹر صاحب معجزاتی حافظے کی حامل ایک انتہائی سلجھی ہوئی سادہ شخصیت ہیں. آپ کے منطقی لیکچرز اور اسلام کا ہر سطح پر دفاع پوری امت مسلمہ میں مقبولیت اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے. ڈاکٹر صاحب اس کے ساتھ ساتھ ایک امن پسند اور قانون پسند شہری بھی ثابت ہوئے ہیں. پوری دنیا گھوم لینے والے ڈاکٹر صاحب نے آج تک پاکستان کا صرف اس لیے دورہ نہیں کیا کہ کہیں پاک بھارت معاملات ان کی دعوت کے آڑے نہ آنے لگیں. حیرت ہے اس کے باوجود کیسے بچگانہ بہانوں سے ان کے کام اور نام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے. ویسے ایسا تو ہوتا ہی آیا ہے. بقول غالب
ہوتا آیا ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
میڈم نگہت ہاشمی صاحبہ نے ٹی وی پر کیا خوبصورت بات کی کہ جب سیدہ خدیجہ ؓ رسول رحمت کو انجیل کے عالم ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں تو انھوں نے کہا کہ کاش میں اس وقت ان کی کچھ مدد کر سکوں کہ جب انھیں ان کی قوم یہاں سے نکال دے گی. سیدہ حیران ہوئیں کہ ایسے بھلے آدمی کو بھلا قوم کیوں نکالے گی؟ تب اس نے کہا کہ جو اس سچے پیغام کے ساتھ آیا، قوم نے اس کے ساتھ ہمیشہ یہی سلوک کیا ہے. بہرحال ان شااللہ یہ ہوائیں سیرت کے سچے پیروکار ڈاکٹر صاحب کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی. ان کا جلایا چراغِ مصطفوی شرارِ بو لہبی کے مقابل پوری توانائی سے تمتماتا رہے گا.
الحمدللہ ، دنیابھر سے بلا قیدِ مسلک و مشرب ڈاکٹر صاحب کے دفاع میں آوازیں اٹھی ہیں جو بڑے مبارک مستقبل کی نوید ہیں. پاکستانی چینل پیغام ٹی وی کے COO اور ہمارے دوست حافظ ندیم احمد صاحب ، جو دبئی میں ڈاکٹر صاحب سے تفصیلی ملاقاتیں کر چکے ہیں، وہ آپ کی سادگی، خلوص اور تقابلِ ادیان کے ساتھ ساتھ جدید ترین آئی ٹی ٹیکنالوجی پر آپ کی دسترس کی حیران کن کہانیاں سناتے ہیں، بلکہ حافظ ندیم صاحب کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب کو اپناقیمتی ترین وقت اور دماغ اسلام کے لیے ہی صرف کرنا چاہیے کہ آئی ٹی وغیرہ جیسے انتظامی معاملات تو کئی اور لوگ بھی دیکھ سکتے ہیں مگر جو کام ڈاکٹر صاحب کر رہے ہیں، فی الوقت وہ امت میں کوئی دوسرا نہیں کر سکتا. اس وقت میں نے بھی ان کے اس خیال کی تائید کی تھی لیکن اب جب دیکھتا ہوں کہ کشمیر کے ساتھ ساتھ احمد آباد اور گجرات کو لہو میں نہا دینے والے انڈیا کو دلیل کی بنیاد پر عالمی عزت دینے والے شخص کو خود اس کا اپنا ہی وطن انڈیا دہشت گردی سے جوڑنے کی ناکام کوششیں کر رہا ہے اور ایسے موقع پر خود مسلمانوں میں سے کئی ڈاکٹر صاحب سے منہ پھیرنے لگے ہیں تومجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ڈاکٹر صاحب بد دل ہو کے آئی ٹی یا اپنی پروفیشنل لائن میڈیکل کی طرف ہی نہ رجوع کر لیں. مجھے یہ بھی یقین ہے کہ یہ محض ایک خیال ہے ورنہ ڈاکٹر صاحب ان معاملات سے گھبرانے والے نہیں. آج تو خیر وہ بہت آگے نکل آئے ہیں. وہ ہزاروں لیکچر دے چکے ہیں. اپنی خدمات کے صلے میں سعودی عرب کا سب سے بڑا قومی اعزاز شاہ فیصل ایواڑد حاصل کر چکے ہیں. ان کے لیے تو بہت ابتدا میں، عیسائیت کے مقابل دلائل کی چٹان ثابت ہونے والے شیخ احمد دیدات نے فرمایا تھا کہ،’’جو کام میں نے ساری زندگی لگا کے کیا، ڈاکٹر صاحب نے وہ کام محض چار سالوں میں کر دکھایا ہے۔‘‘ یقینا آج ہمیں اپنے چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل سے بالا تر ہو کر ڈاکٹر صاحب کی اسلام کے لیے خدمات کے صلے میں ان کی حمایت میں آواز بلند کرنی چاہیے ، تاکہ ہمارا شمار بھی دین اسلام کے حامیوں میں ہو سکے. کوئی فتنہ نہیں ، ان شااللہ ڈاکٹر صاحب ہمارا اور اسلام کا فخر ہیں ۔امید ہے ڈاکٹر صاحب بھی اپنی شخصیت کو فروعی معاملات سے امت کے مفاد کی خاطر بلند رکھیں گے۔
تبصرہ لکھیے