ہوم << پانامہ لیکس اور فلاپ جمہوری تماشا - ثقلین مشتاق

پانامہ لیکس اور فلاپ جمہوری تماشا - ثقلین مشتاق

ثقلین مشتاق یہ 3 اپریل2016ء کا دن تھا جب International Consortium of Investigative Journalists نے انکشاف کیا کہ ملک پاکستان کی حکمران شریف فیملی نے عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ چوری کرکے شمروک، چنیڈ رون جرسی، نیلسن انٹر پرائزز لمیٹڈ اور نیسکول لمیٹڈ نامی آف شور کمپنیاں بنائی ہیں۔ اس انکشاف کے بعد بڑے میاں صاحب نے اگلے ہی روز پاکستان کی عوام سے خطاب کرکے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنے کا وعدہ کیا۔ منٹ گھنٹوں، گھنٹے دنوں اور دن ہفتوں میں تبدیل ہوتے گئے لیکن وہ دن نہ آیا جب میاں صاحب نے خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا تھا۔ یہ وعدہ بھی میاں صاحب کے الیکشن کے دنوں میں کیےگئے وعدوں کی طرح ہوا ہوگیا۔
میاں صاحب نے سوچا پانامہ لیکس کیس بھی مہران بینک سیکنڈل کی طرح بریکینگ نیوز بن کر کسی قبرستان کی نامعلوم قبر میں ابدی نیند سو جائے گا۔ شاید اس بار میاں صاحب بھول گئے تھے کہ اصل اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی اس معصومانہ خواہش کو عملی جامہ نہیں پہننے دی گی؟ عمران خان نے مسلم لیگ نون کی نیت کو بھانپ لیا تھا، اس لیے پانامہ پیپرز کے مسئلہ کو حل کرنے کا بیڑا اُٹھا لیا، اور تحقیقات کے لیے نیب، ایف آئی اے اور الیکشن کمیشن کے دروازے پر متعدد بار دستک دی لیکن بڑے بےحس نکلے یہ احتساب کرنے والے، اور غریب عوام کے چوری شدہ پیسہ کی تحقیقات کرنے سے عملا صاف انکار کردیا۔ نیب والے کہتے ہیں کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں، ایف آئی والے کہتے ہیں ہمارا نہیں۔ جی جناب، یہ وہی نیب اور ایف آئی اے ہے جن کے نام سے لوگ خوف کھا کرتے تھے، لیکن اس بار یہ ادارے میاں صاحب کے سامنے ہاتھ کھڑے کر گئے۔ بھلا احتساب کے ادارے کے سربراہان میاں صاحب کی تلاشی کیوں لیں؟
عمران خان کو جب ملکی کے احتساب کے اداروں سے مایوس پلٹنا پڑا تو ان کے پاس صرف ایک ہی آپشن تھا کہ اس کیس کو عوام کی عدالت میں لے کر جائیں۔ خان صاحب نے بالکل ایسا ہی پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے لیے عوام کے ساتھ مل کر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ شروع میں میاں صاحب اور حکومتی نمائندوں نے اس کو خوشحال پاکستان کی ترقی میں رکاٹ قرار دیا، اور لوگوں کو نیلی، پیلی، ہری، لال بسوں اور ٹرینوں کے پروجیکٹ کی داستان سُنا کر بیوقوف بنانے کی ناکام کوشش کی۔ اگر ترقی ہورہی ہوتی تو ملک پر 20 ہزار ارب ڈالر کے قرضے ہوتے؟ موٹروے گروی رکھی جاتی؟ اگر ترقی ہو رہی ہوتی تو پھر کیا غریب کے چولہے میں ہفتہ میں ایک بار آگ جلتی؟ بچے بھوک سے مر رہے ہوتے؟ سکول جانے کے بجائے ہوٹلوں پر برتن دھوتے؟ لڑکیاں دلہن بننے کا خواب دل میں لے کر ہی مرجاتیں؟ ہاں اگر ترقی ہو رہی ہے تو شاید حکمران جماعت کی آف شور کمپنیوں میں ترقی ہو رہی ہوگی۔
ترقی کا شوشہ ناکام ہوا تو جمہوریت یاد آگئی، اور عمران خان کے احتجاج سے جمہوریت خطرے میں نظر آنے لگی۔ لیکن میاں صاحب کے دور میں جب ملک کی اعلیٰ عدلیہ پر حملہ کیا گیا، اور جب میاں صاحب فرماتے تھے کہ اب قوم کی تقدیر کا فیصلہ سڑکوں پر ہوگا، لانگ مارچ اور دھرنے کو کوئی نہیں روکا سکتا، تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے روکنے والا تباہ ہوجائےگا، اور زندہ قومیں اپنے جذبات کا اظہار احتجاج سے کرتی ہیں اور گو زرداری گو کی مہم شروع کی تھی تو تب جمہوریت کو خطرہ نہیں تھا۔ اگر عمران خان ملک کے غربیوں کا چوری شدہ پیسہ واپس لینے کے لیے احتجاج کرے تو جمہوریت کو خطرہ ہے۔ ویسے مصباح الحق کے پش اپ سے بھی جمہوریت کو خطرہ ہے اور لگتا ہے عنقریب ارشد خان کی نیلی آنکھوں سے بھی جمہوریت کو خطرہ ہوگا۔
چادر اور چار دیواری کا درس دینے والے یہ بتانا پسند کریں گے کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلام آباد میں دفعہ 144 لگانا، پرامن کنونشن پر حملہ کرنا، ماؤں، بہنوں کے ساتھ طوفان بدتمیزی برپا کرنا، خواتین کارکن کو بالوں سےگھسیٹنا، ذاتی انا کی بنیاد پر شہریوں کوگرفتار کرنا، کیا چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی نہیں؟ برہان اور صوابی انٹرچینج پر پنجاب پولیس نے ظلم و ستم اور انتشار کی جو تاریخ رقم کی، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پنجاب پولیس نے کے پی کے کے عوام پر ایسے شلیلنگ اور ربڑ کی گولیں فائر کیں جیسے وہ کسی دوسرے ملک کے باشندے ہوں۔ ایک صوبے کے منتخب وزیراعلیٰ کو ملک کے ایک حصہ دوسرے حصے میں جانے سے روکا گیا۔ اور اس کارنامے کو جمہوریت کا نام دیا جا رہا ہے۔
جمہوریت کی تسبیح کرنے والے خود جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ پتہ نہیں جمہوریت کس چیز کا نام رکھا ہوا ہے؟ جمہوریت کی آڑ لی جائے یا ایک منصوبے کا پچاس پچاس مرتبہ افتتاح کیا جائے لیکن پانامہ حکمرانوں کے گلے کا طوق بن چکا ہے۔ خدا بھلا کرے خان صاحب کا جس کی شہر بند کرنے کی دھمکی کام کر گئی اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے خان صاحب کی فریاد سن لی۔ اب پاکستانی عوام کی نگاہیں سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں۔ چند دنوں تک دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ان شاءاللہ عنقریب اس ملک کے غریب کا پیسہ واپس آئے گا اور میرے ملک کا غریب راج کرے گا۔

Comments

Click here to post a comment