آئینی، سیاسی اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہوئے ہرگز ہرگز کسی دھرنے، مارچ، جلسے اور جلوس پر اعتراض اور تنقید نہیں کی جا سکتی کہ یہ اس راستےکے ضروری بلکہ بعض اوقات لازمی ذرائع ہیں جو مقاصد کے حصول کے لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔
مگر اس طریق کار اور حکمت عملی پر اختلاف ہو سکتا ہے جو ہر سیاسی جماعت اپنی سوچ، ویژن، مقاصد اور ترجیحات کے مطابق طے کرتی ہے۔
سیاسی میدان میں اس سیاسی لیڈر کو اناڑی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو اپنی مرضی کو دیگر سیاسی جماعتوں پر ٹھونسنے اور اسے اپنا حق سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہوا کرتا ہے۔ ایسی سوچ، رویہ اور طرزعمل تکبر، غرور اور گھمنڈ کہلاتا ہے اور یہ بہت بڑی کمزوری ہے جو اس لیڈر اور اس کی جماعت کو سیاسی تنہائی سے دوچار کر رہی ہوتی ہے۔
آج کل کے سیاسی حالات میں عمران خان صاحب کی سیاسی اپروچ اور طرزعمل سے اسے بخوبی جانچا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
ہمارا نہیں خیال کہ کسی کو خان صاحب کے دھرنے پر اعتراض تھا، جس پہلو نے تنقید کا جواز فراہم کیا، وہ ان کا طریق کار اور عزائم تھے۔ کرپشن کو ایشو بنانا، اس کے خلاف قوم میں آگاہی پیدا کرنا، لوگوں کو متحرک کرکے حکمرانوں کو انڈر پریشر رکھنا، اداروں کو اس کے خلاف کچھ کرنے کرانے پر مجبور کرنا، اور کچھ کر گزرنے کے لیے خود کو پیش کرنا، منوانا، اعتماد حاصل کرنا اور جگہ پانا اور معاملہ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حکومت کو ہر ہر صورت عدم استحکام سے دوچار کرنا، اسے گرانا اور وزیراعظم کی چھٹی کرانے سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہونا الگ اپروچ ہے. ظاہر ہے کہ ان راستوں کے تقاضے مختلف اور نتائج علیحدہ علیحدہ ہوں گے۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حکمرانوں کی کرپشن خان صاحب کا ایشو نہیں ہے، یہ تو پوری قوم کا ایشو ہے، مگر یہ ضرور کہنا ہے کہ ان کی سوچ اور مقصد واضح ہے کہ وہ خود فوری وزارت عظمی اور حکومت کے تمام تر اختیارات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے ان کی خواہش اور مطالبہ بلکہ ”فتوی“ ہے کہ ملک کے تمام سیاسی و غیر سیاسی، ظاہری و پوشیدہ، نئے اور پرانے، سب عناصر غیر مشروط طور پر ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور ان کی حکمت عملی کی داد بھی دیا کریں بغیر نتائج کے پروا کے۔
یہی خیال ہے جس نے محترم کو انانیت کے خول میں بند کر رکھا ہے، اس کے مظاہر ضد، ہٹ دھرمی اور انتہاپسندی کی صورت ہم دیکھتے ہیں۔
اب اسے کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ ایک سیاسی اور اپوزیشن جماعت کی برپاکردہ تحریک کے تمام تر مطالبات کی تکمیل یعنی،
جوڈیشل کمیشن کی تشکیل
انتخابی اصلاحات
چار کے بجائے بیس منتخب حلقوں کی دوبارہ جانچ پڑتال
وغیرہ اور ہونے والے معاہدہ کےلیے پارلیمنٹ کی ضمانت کے حصول کو محض اس ایک شرط کہ وزیراعظم لازمی استعفی دے، کو پورا نہ ہونے پر زمین پر پٹخ دیا جائے اور میں نہ مانوں کی پالیسی پر کاربند رہا جائے؟ اس طرزعمل کا جو نتیجہ خود انھوں نے، ان کی جماعت نے اور پوری قوم نے بھگتا، وہ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
کیا اس کا تجزیہ اور محاکمہ کرنا، تحریک انصاف اور اس کے ہمدردوں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ ایک موقع ایسا آتا ہے کہ ایک کے علاوہ ان کے تمام مطالبات ماننے میں عافیت سمجھی جاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آئے کہ یہ تمنا، آرزو اور حسرت مقدر ٹھہر جائے کہ،
”کاش کوئی واپسی کا باعزت راستہ دکھائے۔“
اسی تناظر میں جب خان صاحب نے جاتی عمرہ، رائے ونڈ میں جلسے کے تجربے کے بعد اسلام آباد کو بلاک کرنے یا کرانے کا اعلان فرمایا تو سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس پر حیرت اور تعجب کا اظہار کیا اور انھیں متوجہ کیا کہ ایسے میں کہ حکومت کا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، وہ اپنی صوبائی حکومت کی کارکردگی پر توجہ دیں اور بقول ان کے جو اصلاحات کی گئی ہیں اور اقدامات اٹھائے گئے ہیں، اس کے نتائج اور ثمرات کے حصول پر فوکس کریں اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے اسے ماڈل کے طور پر پیش کریں۔ اس طرح نواز حکومت کو اپنی ناکامی چھپانے کےلیے کوئی آڑ نہیں ملےگا۔ اچھی منصوبہ بندی اور مسقبل کے لیے تیاری کے ساتھ تحریک کو جاری رکھا جائے مگر کسی انتہائی اقدام اٹھانے سے گریز کیاجائے، مگر حسب روایت خان صاحب اونچی اڑان کے شوق میں اعلان کربیٹھے کہ ”آسمان گر جائے، تب بھی دھرنا ہوگا۔“ جو کہ بدقسمتی سے نہ ہوسکا۔
زمیں اور آسمان اپنی جگہ قائم ہیں مگر خان صاحب نے اپنی پوری جماعت اور تحریک کو ہلا کے رکھ دیا، اسے متنازعہ اور مشکوک ٹھہرا دیا۔ اس کا انھیں خود کو بھی احساس ہے اور متعدد بیانات میں اپنے کارکنوں کی ناراضی کا اظہار کر چکے ہیں. یہ تو اللہ بھلا کرے سراج الحق کا کہ وہ عین وقت پر سپریم کورٹ سے کوئی امید افزا فیصلہ لینے میں کامیاب ہو گئے جس سے خان صاحب کو ”یوم تشکر“ منانے کا نادر موقع ہاتھ آیا اور صحیح تر معنوں میں واپسی کا محفوظ راستہ ملا۔ سراج الحق نے ہی سب سے پہلے سپریم کورٹ میں پڑیشن دائر کی تھی اور اس کے ذریعہ مسئلہ حل کروانے پر زور دیا تھا، اب خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کو مکمل حق حاصل ہے کہ وہ اپنی غلطی اور ناکامی کی اچھی سی اچھی توجیح پیش کریں، اور سراج الحق کی کامیاب حکمت عملی اور کامیابی کو ہائی جیک کرکے اس پر خوشی کے شادیانے بجائیں مگر جو تلخ حقیقت ہے اس سے صرف نظر نہ کیاجائے، شاید اندرونی طور پر انھیں اس کا شدت سے احساس بھی ہوا ہے اور تسلیم بھی کرایا گیا ہے کہ محض یوم تشکر منانے پر اکتفا کرنے کی بنیادی وجہ غلط حکمت عملی اور کوئی معقول اور قابل اعتبار تعداد کو اسلام آباد تک لانے میں ناکامی ہے۔ میڈیا کے باخبر ذرائع کے توسط سے اس اجلاس کی جو اندرونی کہانی سامنے آئی ہے، وہ سب کچھ بتاتی ہے۔
یہاں ہم ضرور جماعت اسلامی اور اس کے امیر سراج الحق کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ انھوں نے بہت ہی احسن انداز میں کرپشن کے خلاف نہ صرف تحریک کو اٹھایا ہے بلکہ مؤثر انداز میں اسے آگے بھی بڑھایا ہے۔ آج کرپشن کا ناسور اور حکمرانوں کی بد دیانتی ہر سنجیدہ محفل اور سوچنے والے حلقوں کا موضوع بنا ہوا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی سیاسی جماعتیں اور میڈیا کسی نہ کسی انداز میں اس پر بحث و مباحثہ کرنے اور کرانے پر مجبور ہیں، اس سے عوامی شعور اور بیداری میں ضرور مدد ملےگی۔ سراج الحق کی سپریم کورٹ میں پٹیشن اور مؤثر انداز میں اس کی پیروی پر سپریم کورٹ کا جو فیصلہ سامنے آیا ہے، وہ تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے اور اگر درست اور مؤثر انداز میں اس کیس کو یونہی آگے بڑھایا گیا تو حکمرانوں کو دن میں تارے نظر آ جائیں گے۔
ہم گزارش کریں گے کہ انانیت، ضد، جلد بازی اور خود کریڈٹ لینے اور تنہا سفر کرنے کے بجائے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو باہمی مشاورت اور اعتماد کے ساتھ اچھی حکمت عملی اور مؤثر جدوجہد کے ذریعے اکٹھے آگے بڑھنا چاہیے اور اس ملک کے بہتر مستقبل کے خاطر دیگر سیاسی جماعتوں اور خیر کے عناصر کو بھی جگہ دینے اور ساتھ ملانے کی فکر کی جائے۔ خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس جانگسل جدوجہد میں کامیابی تب ہوگی جب دوستوں کی تعداد زیادہ اور دشمنوں کی کم ہوگی.
تبصرہ لکھیے