ہوم << گلگت بلتستان کا 69 ویں یوم آزادی - فہیم اختر

گلگت بلتستان کا 69 ویں یوم آزادی - فہیم اختر

فہیم اختر تاریخ انسانی میں انسان نے تاریخ کے ساتھ جو ظلم کیا ہے اس پر آج بھی تاریخ اپنا منہ چھپائے پھررہی ہے. محض اپنا نام، آبا کا نام اور خود کو تاریخ کا حصہ قرار دینے کے لیے ایک ہی دور پر درجنوں بار تاریخ لکھی گئی اور یہی حال گلگت بلتستان کے تاریخ کے ساتھ بھی رہا ہے. 69سال الحاق پاکستان بحیثیت متنازعہ خطہ کے باوجود آج بھی ذاتی مفادات کے حصول کے لیے تاریخ اور تاریخی حقائق سے منہ پھیرا جا رہا ہے۔
میرے لیے اس بات کی کوئی حیثیت نہیں کہ کس نے حقیقی معنوں میں انقلاب گلگت بلتستان میں اپنا کردار ادا کیا، کس نے لہو لگا کر اور انگلی کاٹ کر شہیدوں میں اپنا نام لکھا ہے۔ انقلاب گلگت بلتستان کا حقیقی ہیرو کون تھا، میرے سامنے1 انتہائی بے معنی سی بحث ہے لیکن انسانی تاریخ میں ایسی مثالیں نایاب ہیں کہ کسی بھی علاقے کو بغیر کسی بیرونی امداد کے اس کے باشندوں نے آپس کے اتحاد و اتفاق کے ذریعے آزاد کرایا ہو، اس حوالے سے جب بھی مثال دی جائے گی گلگت بلتستان کا نام ضرور آئے گا، جس میں اس علاقے کے باشندوں نے بغیر کسی عسکری امداد کے، بے سروسامانی کے حالت میں 28 ہزار مربع میل پر پھیلے اس علاقے کو آزاد کرایا۔ مملکت خداداد پاکستان کی جدوجہد کے پیچھے 1857ء کی جنگ آزادی سے 1947ء کی تقسیم برصغیر تک کی طویل اور مرحلہ وار جدوجہد کار فرما تھی۔ برما کو ہندوستان سے الگ کرنے میں 3سال لگ گئے۔ سندھ کو بمبئی سے الگ کرکے الگ کرنے میں 3سال لگ گئے۔ سندھ کو بمبئی سے الگ کرکے نیا صوبہ بنانے میں 2 سال لگ گئے۔ مگر گلگت بلتستان کی آزادی کے پیچھے 14اگست کو برصغیر کی تقسیم اور اسلام کے نام پر معرض وجو دمیں آنے والے نوزائیدہ ریاست پاکستان تھی۔ اور اسی نعرے کو سامنے رکھ کر اس علاقے کے باشندوں نے بھی ڈوگرہ راج کو 1 جھٹکے میں ہی بھگا ڈالا اور اس کی قیمت بھی بہت کم ادا کی گئی۔ بہرحال انقلاب گلگت بلتستان 1947ء اس دھرتی کے تاریخ میں وہ سنہرا باب ہے، جس پر آنے والی نسلیں بھی فخر کریں گی۔
یکم نومبر 1947ء سے یکم نومبر 2016ء تک اس دھرتی کی عمر 69سال بنتی ہے۔ سونے کا چمچ منہ میں لے کر دریافت ہونے والے اس خطے میں کسی بھی ایسی چیز کی کمی نہیں ہے جو قدرت نے عطا کر نہ کی ہو، جسے ارضیات، سماجیات اور عمرانیات کا کوئی طالب علم تلاش کرتا ہو۔ 69سال پیچھے مڑ کر اگر دیکھیں اس بے آئین خطے کی سرگزشت سن لیں اورداستان پڑھ لیں تو صرف 1 ہی لفظ ملے گا ۔۔۔۔آہ۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔ آہ
عمر گلوں کی دو دن جس میں یہ بھی قیامت بیت گئی
دست ہوس نے نوچے لاکھوں، شاخوں پہ مرجھائے کم
پیچھے مڑ کر دیکھیں تو 1خزاں رسیدہ درخت ہے جبکہ آگے کا حال کچھ بھی معلوم نہیں۔ آج بھی قدرتی نعمتوں میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اپنی خوبصورت پہچان، ثقافت، انتہائی اہمیت کا حامل جغرافیہ، مشہور اور بلند ترین پہاڑ، بہتے دریا سیاحتی مقامات اور بہت کچھ۔ لیکن نہ خواب مکمل ہو رہا ہے نہ نیند پوری ہو رہی ہے۔
سفر پر سفر جاری ہے، خطہ گلگت بلتستان کی روح، بے چین اور بے قرارہے۔ سب کچھ تو دیا ہے مجھے اس خطے نے مگر میں اس خطے کو کچھ دینے کی سوچ تو دورکی بات بلکہ میں تو دوسروں کو ’غدار ملت‘ اور وطن فروش کے الزامات لگانے پر تلا ہوں۔ میں نے آج تک دھرتی کی آواز کہ سنا نہیں مجھے تو بس فکر ہے تو یہ کہ اپنے مخالف اور دیگر فرقوں کے ماننے والوں کو زیر کروں۔ میرے پاس بھائی چارگی تو دور کی بات انسانیت بھی قریب نہیں پھٹکتی ہے۔ مجھے سکولوں میں فرقہ واریت کی تعلیم دی گئی۔ سرکاری نوکریوں پر میرا انتخاب میرے فرقے کی بنیاد پر کیا گیا۔ باہر کی جنگ میں اس قدر گھس گیا کہ اپنے دفاتر تک جلاڈالے۔ انسانیت پر فرقہ واریت کو مقدم سمجھا۔ ہمسایہ سے زیادہ اس کو اس کو دوست سمجھا جو میرے غم اور خوشی میں شریک تک نہیں ہوسکتا لیکن میرا ہم مسلک تھا۔ بنیادی انسانی ضروریات کو تقسیم کیا تو فرقہ وارانہ زہن بناکر، باقی انسانیت جائے بھاڑ میں۔ میں عوامی نمائندگی کا دعویٰ لے کر آتا ہوں، لیکن حقیقت میں میرے جیت کا فیصلہ منبر پر ہوتا ہے، اس لیے نہ کہ منبر رسول سے فیصلے درست اور سنت کے مطابق ہوتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ مذہبی جذبات کو استعمال میں لاکر کیسے مخالفین کو زیر کروں۔ لفظ میرٹ کی معنی ہمیں نہیں آتی۔ باوجود اس کے کہ دنیا چاند تک پہنچ گئی، میرٹ، انسانی حقوق، اور معلومات تک رسائی جیسے قوانین پر عالمی سطح پر مانیٹرنگ ہوتی ہے اور جہاں پامالی نظر آئے وہاں سخت دبائو بڑھاتے ہیں مگر نہیں۔ میرے سامنے اقوام متحدہ کی کیا حیثیت، آج تک اس کا کون سا فیصلہ عوام میں مقبول ہوا ہے ، کتنے معاملات پر اس نے اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرایا ہے (بقول حاضر سروس سپیکر)۔
میرے پاس صحت جیسی بنیادی اور اہم انسانی ضرورت کے سہولیات مذبہی بنیادوں پر تقسیم ہیں بھلے ہی غریب ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑتا ہو۔ بھلے اس کے پاس پیراسٹامول خریدنے کے لیے پیسے نہ ہوں میں پھر بھی بچائوں گا تو اپنے ہم مسلک کو۔ میرے دیس میں گنگا بھی عجیب بہتی ہے آج کرسی والا کل مٹی پر اور آج مٹی پر پڑے رہنے والے کل کرسی پر ہوتے ہیں۔ کرسی پر پہنچنے کے لیے مجھے سرکاری خزانہ سمیت ہر جائز و ناجائز طریقے استعمال کرنے میرے لئے باعث فخر و ثواب ہے۔ میرے رہن سہن کا انداز، میرے ثقافت ، تہذیب اور سیاست کے حدود مسجد سے متعین کیے جاتے ہیں۔ میرے سکون کے گھر (مسجد) میں صرف دنیاوی ہی نہیں بلکہ غیر انسانی باتیں ہوتی ہیں درس انسانیت دروازے سے مڑ جاتی ہے۔
میں خود پر لکھتا جائوں گا پچھتا تا جائوں گا۔ دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں جس میں بنیادی ضروریات کے فیصلے فرقہ، مسلک کی بنیاد پر کیے ہو۔ اور یہ تعصب کی سب سے خطرناک شکل ہے۔
بقول جمشید خان دکھی
تعصب سے بھرا پیغام یہ ہے
بہاؤ خون سڑکوں پر درس عام یہ ہے
مسلمانوں کا اگر انجام یہ ہے
میں کافر ہوں اگر اسلام یہ ہے
میں احباب علم و فکر، سیاسی قائدین، مذہبی سکالرز اور تمام سٹیک ہولڈرز کو دعوت فکر دیتا ہوں۔ ہمیں دھرتی عزیز ہے یا شخصیات، دھرتی یا فرقہ پرستی، دھرتی یا مولوی۔ اس قوم اور اس دھرتی کو مزید فرسودہ نعروں پر زندہ نہیں رکھا جاسکتا ہے، اگر تعصب کی پٹی اور عینک کو گھر چھوڑ کر ٹیبل پر آجائیں، پھر ہی ممکن ہے ہم دھرتی سے وفاکا ثبوت دیں۔ مستقبل کی راہ بنالیں، منزل کی نشاندہی کریں۔

Comments

Click here to post a comment