ہوم << حکومت کے سیاسی جرائم اور پی ٹی آئی کے احسانات-سلیم صافی

حکومت کے سیاسی جرائم اور پی ٹی آئی کے احسانات-سلیم صافی

saleem safi
سی پیک ایک منصوبہ نہیں بلکہ منصوبوں کی ماں ہے ۔ یہ پاکستان اور خطے کی ترقی کی چابی نہیں بلکہ دروازہ ہے ۔ یہ ملک کی مختلف اکائیوں کو ہی نہیں بلکہ خطے کے ممالک کوآپس میں جوڑنے کی زنجیر ہے ۔ یہ پاکستان اور افغانستان کو جرمنی اور فرانس بناسکتا اور بھارت کو پاکستان کے قدموں میں بٹھاسکتا ہے(انشاء اللہ)۔یہ پختون پٹی اور بلوچستان میں جاری تشدد کے مرض کے لئے تریاق ہے ۔ یہ اپنی روح کے مطابق آگے بڑھے تو پاکستان کو آگے بڑھنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔ یہ صرف معاشی نہیں بلکہ معاشرتی اور تزویراتی انقلاب کا بھی پیش خیمہ بن سکتا ہے لیکن افسوس کہ اس منصوبے کو میاں محمد نوازشریف صاحب اور احسن اقبال صاحب نے ذاتی، خاندانی ، علاقائی اور سیاسی منصوبہ بنانے کی کوشش کی ۔ پختونخوا حکومت کی نااہلی ،عمران خان صاحب کی غلط ترجیحات، محمود خان اچکزئی صاحب کےمک مکا اور مولانا فضل الرحمان صاحب کا اپنے ڈی آئی خان کے لئے ایک سڑک پر سودے بازی کی وجہ سے وفاقی اور پنجاب حکومت کو فری ہینڈ مل گیا اور انہوں نے اس منصوبے کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا، جوانہوں نے ملکی اداروں کے ساتھ روا رکھا ہے ۔
تبھی تو میرا ایمان ہے کہ یہ پروجیکٹ ،جس کی مسلم لیگ(ن) کی قیادت بہت کریڈٹ لینا چاہتی ہے ، وقت آنے پر اس کے گلے کا پھندا بنے گا اور اسی پروجیکٹ کی وجہ سے پاکستان اور چین کی آئندہ نسلیں انہیں اپنا مجرم سمجھیں گی ۔ مجھے یقین ہوچلا ہے کہ موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے اس پروجیکٹ سے متعلق تنازعات ختم ہوسکتے ہیں اور نہ اس کی روح کے مطابق اس کی تکمیل ہوسکتی ہے ۔ تبھی تو میں سب سے بڑھ کر اس حکومت کے خاتمے کا متمنی ہوں اور میں سجدہ شکر بجالانے میں دیر نہیں لگائوں گا جب مجھے اس کے خاتمے کی نوید ملے گی ۔
سی پیک کی طرح میرا دوسرا بڑا درد سر دہشت گردی اور انتہاپسندی ہے ۔ اسے نہ صرف اس ملک کی اکثریت (بحوالہ پلڈاٹ سروے) ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں میرے ملک کی فوج اور پولیس اپنے ہی شہریوں کے ساتھ لڑنے اور قربانیاں دینے پر مجبور ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہم انتہائی پیارے اور قریب ترین دوستوں کے ساتھ سے محروم ہوگئے اور اسی عفریت کے نتیجے میں میرے باپ دادا کی سرزمین گزشتہ ایک دہائی سے جہنم بنی ہوئی ہے ۔ اسی کے نتیجے میں ایک طرف ہماری فورسز کے لاکھوں جوان گھروں سے دور رہنے پرمجبور ہیں اور اسی ہی کی وجہ سے لاکھوں قبائلی سالوں سے بے گھر ہوکر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی عفریت عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کوخراب کررہا ہے اور اسی کی وجہ سے میرے پاکستانی اور بالخصوص پختون پوری دنیا میں بدنام ہورہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ میاں نوازشریف صاحب اور ان کی ٹیم کی ترجیحات میں یہ مسئلہ سرے سے شامل ہی نہیں ۔ وہ خود اس ایشو کو سمجھنا چاہتے ہیں اور نہ خوشامدیوں پر مشتمل ان کی ٹیم اسے سمجھتی ہے ۔ اس مسئلے کے حل کے لئے سول ملٹری ہم آہنگی ضروری ہے اور ماضی کا سبق یہی تاثر دیتاہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن میاں نوازشریف کے دور میں سول ملٹری تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے ۔ اس تناظر میں بھی موجودہ حکومت کا خاتمہ میری دلی آرزو ہے کیونکہ کوئی بھی جماعت یا کوئی بھی حکومت انسانوں کی زندگیوں سے اہم نہیں ہوسکتی ۔
میرا تیسرا بڑا درد سر اس وقت پاکستان کے وفاق کو لاحق خطرات اور لسانی یا علاقائی بنیادوں پر تنائو ہے ۔ میں ایک عرصے سے محسوس کر رہا ہوں کہ پسماندہ علاقوں اور کراچی میں ایک نئےاور خطرناک قسم کے قوم پرستانہ جذبات سامنے آرہے ہیں ۔ قوم پرست لیڈروں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ رہا ہے لیکن نوجوان نسل میں ایک نئی طرح کے قوم پرستانہ خیالات اور ریاست کے خلاف نفرت کے جذبات جنم لے رہے ہیں ۔ پہلے سے موجود قوم پرست لیڈروں کو تو دبایا بھی جاسکتا ہے، انہیں سیاسی لالچ بھی دیا جاسکتا تھا اور انہیں مختلف طریقوں سے بھی رام کیا جاسکتا تھا لیکن اب کی بار جو نوجوان دلائل کی بنیاد پر انتہاپسندانہ قسم کے خیالات کے ساتھ سامنے آرہے ہیں ، ان کا کوئی لیڈر معلوم نہیں ۔ یوں اگر اس نسل کے جذبات عمل کے روپ میں ڈھل گئے تو ریاست پاکستان کے لئے ان پر قابو پانا بہت مشکل ہوگا۔ امریکہ ، ہندوستان اور دیگر پاکستان مخالف ممالک کی ایجنسیاں اور میڈیا بڑے شاطرانہ طریقے سے ان جذبات کو مزید ہوا دے رہے ہیں ۔ مختلف لسانی اکائیوں کے انتہاپسند نوجوانوں کو باہم منسلک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ مذہبی عسکریت پسندوں اور ان کے ملاپ کی بھی سازشیں زور پر ہیں ۔ دوسری طرف وقت اور تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ میاں نوازشریف کی حکومت میں پاکستان کے چھوٹے صوبوں اور پسماندہ علاقوں کی محرومیاں مزید بڑھ جاتی ہیں ۔ اب کی بار تو انہوں نے اپنی حکومت کو مکمل طور پر ایک صوبے کا نہیں بلکہ ایک مخصوص علاقے کی حکومت بنا دیا ہے اور یوں ان کی حکومت اس حوالے سے پاکستان کی سلامتی کے لئے بھی خطرہ بنتی جارہی ہے اور یہ وجہ بھی مجھے موجودہ حکومت کے خاتمے کا متمنی بناتی ہے ۔
مذکورہ تناظر میں اگر کوئی اٹھ کر آئینی اور جمہوری طریقے سے مسلم لیگ(ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت کو ختم کرے گا ، تو میں اسے اپنا اور اس قوم کا محسن سمجھوں گا۔ لیکن شرط اس کی یہ ہے کہ طریقہ آئینی اور جمہوری ہو۔ میں اس حکومت کو سیاسی شہادت کے عالی مقام پر فائز نہیں دیکھ سکتا ۔ میری خواہش ہوگی کہ عوامی ووٹ کے ذریعے اس کا اس سے بھی بدتر حشر ہو، جو گزشتہ انتخابات میںپیپلز پارٹی کا ہوا ۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ تحریک انصاف جب بھی اس حکومت کے خاتمے کے لئے اٹھتی ہے تو غلط وقت پر ، غلط طریقے سے اٹھتی ہے ۔ دھرنوں کے نتیجے میں سول ملٹری تعلقات نہ صرف خراب ہوگئے بلکہ اس میں موجود توازن مزیدبگڑگیا۔ میڈیا جو اس حکومت پر چیک رکھتا تھا اور جو حکومت کے مذکورہ اور اس قسم کے دیگر جرائم پر اس کی پکڑ کرسکتا تھا کا امیج تباہ ہوگیا۔ وہ آپس میں لڑ پڑا یا پھر اس کی کریڈبلیٹی اتنی خراب ہوئی کہ وہ حکومت کے محاسبے کے قابل ہی نہ رہا ۔ اسی طرح عدلیہ، حکومت کا محاسبہ کرسکتی تھی لیکن دھرنوں کے بعد اسے بھی اپنی بقا کی فکر لاحق ہوگئی۔ بدقسمتی سے اب ایک بار پھر عمران خان صاحب غلط وقت پر (ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ کشیدگی اور پاکستان کی عالمی تنہائی کے تناظر میں ) ، غلط طریقے سے (پرامن احتجاج کی بجائے اسلام آباد بند کرنے کا اعلان ) ، میدان میں نکلے ہیں یا پھر نکالے گئے ہیں ۔ ماضی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت تنہا اور اپوزیشن متحدہوتی تھی لیکن جس طریقے سے تحریک انصاف تکبر اور بدتمیزی کی سیاست کررہی ہے ، اس کی وجہ سے حکومت کے سب اتحادی اس کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ اپوزیشن تقسیم درتقسیم کاشکا ر ہوگئی ۔
پیپلز پارٹی اگرچہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں مجرمانہ غفلت سے کام لے رہی ہے اور اس کی حکومت میں کرپشن کی بہتات کا تاثر کسی بھی دوسری حکومت سے زیادہ تھا لیکن میرے دردسر کی حیثیت رکھنے والے مذکورہ ایشوز پر پیپلز پارٹی کا موقف لائق تحسین ہے ۔ دوسری طرف عمران خان صاحب نے پہلے لاہور کے چار حلقوں اور اب پاناما پر سیاسی اور صحافتی فضا کو جس طرح مکدر رکھا ، اس کی وجہ سے نواز حکومت کے مذکورہ قومی اور سیاسی جرائم نہ سیاست کے موضوعات بن سکے اور نہ صحافت کے ۔ تبھی تو خورشید صاحب کی اس رائے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ میاں نوازشریف کے سب سے بڑے محسن عمران خان ہیں ۔ تماشہ یہ ہے کہ پختونخوا اسمبلی توڑنے اور قومی اسمبلی سے سچ مچ مستعفی ہونے کا غیرمضر اور آئینی و قانونی راستہ وہ اختیار نہیں کررہے ہیں لیکن وہ پرتشدد راستہ اپنارہے ہیں جس میں دوسروں کے بچوں کے مرنے کا خطرہ ہے ۔ خود تو ان کے گوئبلز اور دوسرے درجے کی قیادت اسمبلیوں کی تنخواہیں اور مراعات چھوڑنے کو تیار نہیں لیکن دوسروں سے جانوں کی قربانی طلب کی جارہی ہے ۔تبھی تو خدشہ ہے کہ اب کی بار اخلاقی جواز سے محروم رہ جانے والی میاں نوازشریف کی حکومت مزید مضبوط نہ ہوجائے۔