ہوم << تنقید کے اصول، اسلوب اور مقصد - راشد کاظمی

تنقید کے اصول، اسلوب اور مقصد - راشد کاظمی

راشد کاظمی تنقید تخلیق کے لیے آکسیجن اور ترقی کے لیے زینہ (سیڑھی) کا کام کرتی ہے.
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر پچھلے پانچ سو سال کی تنقید کو اگر انسانی تاریخ سے نکال دیا جائے تو شاید یہ جو سیاسی معاشی اور سائنسی انقلابات آئے ہیں، جن کی بدولت چاند پر کمندیں ڈالی جا رہی ہیں اور تحت الثری کے خزائن کھنگالے جا رہے ہیں، یہ محض دیومالائی قصے ہی ہوتے.
تنقید کا بنیادی مقصد ہی اصلا ح و ارتقاء ( Reforms and Evolution ) ہے. اصلاح ذہن سازی کی بدولت ہی ممکن ہے. اگر تنقید کے ذریعے اس بڑے مقصد تک پہنچنا مطلوب ہے تو تنقید کے کچھ بنیادی لوازمات اور اصول ہیں جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہے.
پہلا اصول:
تنقید دلیل اور شائستگی پر مبنی ہو یعنی اپنے مدعا کو بیان کرنے کے لیے دلائل اخلاقی زبان میں دیے جائیں.
جیسے علامہ نے بھی کہا کہ
؎ بیان اس کا منطق سے سلجھا ہوا
تنقید کا محرک جذباتیت کی بجائے دلیل ہونا چاہیے.
دوسرا اصول:
مسئلے یا رویے کو ہدف بنانا چاہیے نہ کہ شخصیت اور ذات کو. مسئلے یا رویے پر بات کرتے ہوئے کسی فرد یا گرہ کی نیت پر بات کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے.
تیسرا اصول:
یہ کہ کسی خاص طرزعمل یا حکمت عملی پر سوال کرنا چاہیے نہ کہ عمومی اور بحیثیت مجموعی کسی کی زندگی پر۔ تنقید کرتے ہوئے اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ تنقید غیر جانبدارانہ اور تعصب سے پاک ہو. عموما کسی سے تعلق کی بنیاد پر اس کی کمزوریاں اور کسی سے نفرت کی بنیاد پر اس کے مثبت پہلو دکھائی نہیں دیتے. ایک معنوی تنقید اس طرح کی وابستگیوں سے ماورا ہوکر ہی کی جا سکتی ہے.
؎
کون پھر ایسے میں تنقید کرے گا تُجھ پر
سب ترے جبہ و دستار میں کھو جاتے ہیں
منورؔ رانا
؎
تعلقات کا تنقید سے ہے یارانہ
کِسی کا ذکر کرے کون احتساب کے ساتھ
فضیل جعفری
علامہ نے بھی کہا ہے کہ
؎
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تیری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تیری تقریر سے
چوتھا اصول:
تنقید کرتے ہوئے بے باکی اور جرات کے ساتھ اپنا مدعا بیان کرنا چاہیے۔ حکمت کی آڑ میں مصلحت کوشی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ عرض مطلب بھرپور طریقے سے پہنچانا چاہیے۔ تاہم مصلحت اور جنون کے درمیان اعتدال برتنا چاہیے۔
؎
عرض مطلب سے ججھک جانا نہیں زیبا تجھے
صاف ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے
تو اگر کوئی مدبر ہے تو سن میری صدا
ہے دلیری دست ارباب سیاست کا عصاء
بندہ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے
قوت فرماں روا کے سامنے بے باک ہے
اقبال
؎
جو حرف لکھا بے لاگ لکھا، جو بات کہی بیباک کہی
امید کسی سے رکھی نہیں اور خوف کسی کا کھایا نہیں
ڈاکٹر دلدار احمد علوی
پانچواں اصول
تنقید میں رجوع و تصیح کی گنجائش موجود ہونی چاہیے۔ اپنا مدعا قطعیت کے ساتھ بیان کرنے کے بجائے اس وقت کی بہترین رائے کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔
چھٹا اصول:
تنقید کے لیے مناسب وقت موزوں موقع اور بہترین ابلاغ کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ تنقید زیادہ سے زیادہ مؤثر اور قابل اثر ہو۔
؎
محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جو اب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ
اقبال
ساتواں اصول:
تنقید کے جواب میں بے بنیاد، سطحی، اور علمی تنقید کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ تینوں صورتوں میں تنقید کو برداشت بھی کرنا چاہیے اور بےبنیاد اور سطحی تنقید کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ سطحی تنقید کی عمر بہت کم ہوتی اسے سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ تاہم منفی تنقید کے جواب میں پھر مثبت تنقید کا سلسلہ بھی آگے بڑھایا جاسکتا ہے.
غالب نے اسے یوں کہا ہے کہ
؎
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
ارسطو کا کہنا ہے کہ سطحی تنقید سے بچنے کا آسان طریقہ ہے کہ انسان کچھ نہ کہے کچھ نہ کرے اور خود کو کچھ نہ سمجھے. محسن نقوی نے بے جا کی تنقید اور الزام تراشی سے بھی صرف نظر کرنے کو کہا ہے
؎
دنيا تو فنكار ہے اس درجہ کی کہ پل بھر میں
سنگ درہ کعبہ سے اصنام تراشے
تو کون ہے کیا ھے تیرا داغ كبا بھِی
لوگوں نے تو مریم پہ بھی الزام تراشے

Comments

Click here to post a comment