عبد الستار ایدھیؒ کے انتقال پر کئی طرح کے رد عمل سامنے آئے، حالانکہ موت پر عموماً ایک ہی طرح کا رد عمل سامنے آتا ہے جو مرنے والے کے لیے دعائے مغفرت کے ساتھ دکھ کا ہوتا ہے۔ لیکن ایدھی مرحوم کو جہاں خراج تحسین پیش کیا گیا، وہاں بعض لوگوں نے ان کے عمل کو یکسر فراموش کرکے ان کے عقیدے کو موضوع بنایا اور انہیں ملحد و زندیق وغیرہ قرار دیا۔ انسان کے عمل کا انکار کر دینا، دراصل انسان کے وجود ہی سے انکار ہے اور اس کے بعد ہر بات کہنے کا راستہ کھل جاتا ہے اور کچھ بھی کسی کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے۔
ضمناً اس میں انسانیت اور مذہب کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا اور ایک نیا خلط مبحث پیدا ہو گیا جس میں انسانیت اور اسلام کی مابینی نسبتوں پر بھی گفتگو ہونے لگی۔ گزارش ہے کہ انسان اور مسلمان دونوں حیثیتوں سے یہ صورت حال ازحد افسوس ناک ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ہم نے اپنی دینی تعلیمات کو چیستاں بنا لیا ہے، اور دوسری طرف حیاتِ انسانی کے مسلمات سے بھی ہمارا ذہن حالتِ انکار میں چلا گیا ہے۔
گزارش ہے کہ انسان ہونا فطری ہے اور مسلمان ہونا ارادی، یعنی انسان ہونا اپنی ہستی میں آفاقی اور مشترک ہے جبکہ حیات میں مختلف ہے۔ بلا تفریق رنگ، زبان، نسل اور مذہب، انسان ہونا تقدیری صورتحال میں مشترک ہے جبکہ تاریخی صورتحال میں مختلف ہے یعنی انسان being میں ایک ہے اور becoming میں مختلف ہے۔ مذہبی فرق کے باوجود، تقدیری صورتحال میں انسان کے فطری اشتراکات کو نظر انداز کرنا نادانی اور محرومی کی بات ہے۔ ان فطری اشتراکات میں اخلاقی اعمال اور رویے لازماً شامل رہتے ہیں۔
دنیا کا ہر مذہب یا ہر تصورِ حیات تاریخ میں اجتماعی سطح پر بہت متعین مظاہر رکھتا ہے جو عموماً چار ہیں۔ اگر کوئی مذہب یا تصور حیات اجتماعی سطح پر یہ چار مظاہر نہیں رکھتا تو وہ تہذیبی اور آفاقی ہونا کوالیفائی نہیں کرتا: (۱) سیاسی نظام؛ (۲) معاشی نظام؛ (۳) علم، اور (۴) کلچر اور جمالیاتی مظاہر۔ مذہب یا کسی بھی تصور حیات کے یہ تاریخی مظاہر ہی اس کی تہذیب قرار پاتے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ اس وقت عالم گیر سطح پر اسلام کے سیاسی، معاشی اور علمی مظاہر معدوم ہیں اور کلچر اور جمالیاتی مظاہر کمزور اور عالمی تناظر میں غیر اہم ہیں۔ ان چاروں پہلوؤں سے اسلامی ممالک اور معاشرے مغربی تہذیب کے دست نگر ہیں اور انہوں نے اپنے معاشروں کی پوری جدید تشکیل ادھار کے نظام اور مانگے کے علم سے کی ہے۔ ہمارے کلچر اور دینی معاشرت کے نمونے بھی بہت تیزی سے غائب ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف آج کی دنیا میں اسلام کے طاقتور اور مؤثر ترین تہذیبی مظاہر تحریک طالبان پاکستان، داعش، بوکوحرام اور الشباب وغیرہ ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے زعم میں اسلام کی ایک خاص تعبیر کی داعی ہیں اور مسلم دنیا کا بڑا حصہ ان کے موقف کو مسترد کرتا ہے۔ لیکن ہمارا رد اتنا کمزور ہے کہ ہم خود بھی اسے نہیں سن پاتے، کوئی کیا سنے گا، کیونکہ ان تنظیموں کے رد میں ہمارے اندر بھی ایک گہرا دوغلا پن پایا جاتا ہے۔ ہمیں ان کا نعرہ اچھا لگتا ہے، لیکن عمل سے ڈر آتا ہے۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے جدید دنیا میں اسلام کی اجتماعی اور عالمی نمائندگی کے جملہ حقوق بالجبر اپنے نام منتقل کر لیے ہیں۔ ان کا موقف یقیناً غلط ہے لیکن اس وقت اسلام اپنے جو بھی تہذیبی مظاہر رکھتا ہے، وہ ان تنظیموں کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ تنظیمیں خالص ترین بربریت کی نمائندہ ہیں۔ عموماً ”انسانیت“ کی جو بات کی جاتی ہے اس کے پس منظر میں اشارہ اسی بربریت کی طرف ہوتا ہے، اور جو درست بھی ہے کیونکہ انسان ہونے کا کوئی بھی معروف تصور بھلے وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی، اس بربریت کو نہ درست قرار دے سکتا ہے نہ قبول کر سکتا ہے۔ اس سیاق میں انسانیت کے ذکر سے اسلام کی مخالفت مراد لینا درست نہیں۔
بطور علمی اصطلاح ”انسان“ کا لفظ ایک خالی ظرف کی طرح ہے۔ انسانوں کے تقدیری اشتراکات کو نظر انداز کیے بغیر، ہر تصورِ حیات اور ہر مذہب انسان ہونے کی مرادات کو اپنے خاص تناظر میں متعین کرتا ہے۔ بطور مذہب اسلام چونکہ حق کا نمائندہ ہے، اس لیے اسلامی تناظر میں ”انسان“ کی حتمی معنویت، مراد اور مطالبہ uncompromising ہے اور جسے ”عبد“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ”عبد“ ہونے سے انسان کے انفرادی، سماجی اور تاریخی مظاہر مختلف ہو جاتے ہیں، اور تقدیری صورت حال کے بارے میں اس کا موقف تبدیل ہو جاتا ہے۔ اور موقف کی اس تبدیلی کے باوجود دیگر انسانوں سے ”عبد“ کے تقدیری اشتراکات پھر بھی باقی رہتے ہیں۔
انسانیت کے موضوع پر ناچیز مطعم بن عدی کے واقعے کا ذکر کرنا چاہ رہتا تھا، لیکن چونکہ مذہبی بات کرنے کے جملہ حقوق کہیں اور محفوظ ہیں اس لیے ہم اس کو موضوع نہیں بناتے، لیکن یہ واقعہ اس موضوع پر حتمی ہے۔
ہمارے ہاں انسانیت ایک خلط مبحث اس لیے بن گئی ہے کہ ہمارے علم اور عمل سے انسان غائب ہے۔ ہمارے ہاں جو انسان دینی ہدایت پر کاربند ہے، اس کا بیان بھی غائب ہے، یعنی وہ ایک فرضی مخلوق ہے اور اس کے انسانی، سماجی، تاریخی اور تہذیبی خدوخال ہمارے علم سے خارج ہیں۔ یہی صورت حال اس انسان کی ہے جو اس کا ممکنہ مخاطب ہے، یعنی عصر حاضر میں جو انسان اس ہدایت کا مخاطب ہے، اس کی شناخت بھی ہمیں قطعی نامعلوم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے علم اور عمل کا مدار انسان کا عمل نہیں رہا ہے، اس کا عقیدہ بن گیا ہے، حالانکہ انسان ظاہر پہلے ہے اور باطن بعد میں ہے۔ ہماری آنکھ ارد گرد جس انسان کو دیکھتی ہے، وہ معاشرے اور تاریخ میں نہیں ہے، ہمارے پسماندہ ذہن کی بنائی ہوئی کوئی ادھوری تصویر ہے۔ انسان کے عمل کا انکار کر دینا، انسان، معاشرے اور تاریخ کا بیک وقت انکار ہے۔ انسان کے انکار سے خدا کی معنویت بھی باقی نہیں رہتی۔ اس موقف پر انسان اور تاریخ دونوں فکشن بن جاتے ہیں۔ ہماری یہی وہ حالت انکار ہے جس میں اب ہمیں کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ اگر ہم انسان ہونے کی کوئی معنویت باقی نہیں رکھ پا رہے تو مسلمان ہونے کی کسی معنویت کا دفاع کرنا بھی ممکن نہیں رہتا۔
خوارج کی اصل پہچان یہ تھی کہ وہ اصلاً عملِ انسانی کا انکار کرتے تھے، اور دوسرے کے عقیدے پر یک طرفہ فیصلہ خود ہی دیتے تھے، اور پھر اپنے اس فیصلے کو یک طرفہ سیاسی اور جارحانہ عمل کی بنیاد بناتے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ انسان کی جنت و دوزخ کا فیصلہ بھی یہیں ”نافذ“ کر دیتے تھے۔ خوارج کے برعکس، ہماری روایت میں عقیدہ براہ راست فتوے کا موضوع نہیں ہے، علم کا موضوع ہے، اور علم کے بعد فتوے کا امکان بروئے کار لایا جاتا ہے جبکہ عمل براہ راست فتوے کا موضوع ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خوارج کے رویے اب علی الاطلاق مسلم معاشرے پر غالب آ گئے ہیں اور ہم نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے دینی موقف اور عمل کو یکسر فراموش کر دیا ہے۔ ”کافر“، ”مشرک“، اور ”گستاخ“ کہنے کا براہِ راست تعلق عقیدے سے ہے اور یہ ایک ہی بات کے مختلف رخ ہیں۔ ہمارے غالب مذہبی مباحث کا مقصد ان تین میں سے کسی ایک نتیجے تک پہنچنا ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد ہم خوارج کے تتبع میں مرنے والوں کی جنت و دوزخ کا تعین بھی ادھر بیٹھے کر لیتے ہیں۔ ہمارے مذہبی علما انبیا کے وارث ہیں، اور وہ اب تک مذہبی متون کے آئینے میں اپنی تصویر دیکھتے رہے ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ وہ عصری تاریخ کے آئینے میں بھی اپنی تصویر دیکھنی چاہیے۔
اسلام اب بھی دنیا اور مسلم معاشروں میں طاقتور اور لاتعداد انفرادی، خانگی اور سماجی مظاہر رکھتا ہے جو زیادہ تر عباداتی اور اخلاقی نوعیت کے ہیں۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کے جو تہذیبی مظاہر عمل اور علم میں سامنے آ رہے ہیں وہ علی العموم نہایت تشویشناک ہیں۔ اب ہمارے مذہبی عمل اور مذہبی علم میں صرف دو بڑے تہذیبی مظاہر باقی رہ گئے ہیں۔ مذہبی عمل میں یہ داعشی طرز کی دہشت گردی ہے جو سوائے بربریت کے اور کچھ نہیں۔ مذہبی علم میں یہ آفاقی تکفیریت ہے جو انسان کشی کے علاوہ کچھ نہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت اس سے متفق نہیں، لیکن ہمارے ان شدید، مذہب دشمن اور انسان دشمن تہذیبی مظاہر نے عامۃ المسلمین کے اختلاف کو بھی بے معنی کر دیا ہے۔ ظاہر ہےکہ ہمارے دین کے انفرادی، خانگی، جمالیاتی، تعلیمی اور معاشرتی مظاہر اب بھی بے شمار ہیں لیکن تہذیبی مظاہر کے سامنے ان کی حیثیت فطری طور پر کم ہے اور ان کا دائرہ بھی مختلف ہے۔ اس کا بہت سادہ مطلب یہ ہے اگر ہم خلافت راشدہ کی مذہبی تعلیمات کی کوئی فکری تشکیل نہیں کر پاتے اور اس کے علمی اور فکری دفاع کے اہل نہیں ہیں تو ہم اپنی اخلاقیات کو بھی نہیں بچا سکیں گے۔ یہ عمل ادھورا نہیں رہتا، پورا ہوتا ہے۔ ہم نے بہت تیزی سے زندگی کے سارے سلیقے فراموش کر دیے ہیں۔ دہشت گردی اور تکفیریت کے عالمگیر تہذیبی مظاہر میں ہماری اپنی دینداری اور انسانیت بھی اب داؤ پہ لگی ہوئی ہے۔ آج کے دور میں ہمیں اپنے مسلمان ہونے کی معنویت کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے انسان ہونے کی معنویت کو باقی رکھنے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔
گزارش ہے کہ اپنے ذہن کی کسریت اور عمل کے انہدام میں اسلاف سے تمسک راستوں کو روشن کرنے، عزم سفر اور سفر کے تمام لازمی وسائل کا واحد ذریعہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اور اگر ہم نے فیصلہ کر لیا ہے اور یہ فیصلہ وہی ہے جس کے تہذیبی مظاہر نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے، تو ہمیں اپنے ملی مستقبل کے بارے میں ازسرنو سوچنے کی ضرورت ہے۔
واللہ اعلم
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته. ..
دین جوہر صاحب کی تحریروں سے کافی استفادہ کرتا ہوں... اگر آنجناب کی تصانیف کی فہرست اور اگر ہوسکے تو ان کی ڈاؤن لوڈنگ لنک ارسال کردی جائے تو یہ ایک علمی احسان ہوگا....
دعاؤں کا طالب. ..
musalman hona bhi fitri hai iradatan baad mai insan kuch bhi ban sakta hai
ایدھی صاحب سے ایک خاتون نے انکے کام سے متاثر ہو کر دوسری شادی کی تھی اور کچھ عرصہ بعد ہی اس خاتون نے جو کچھ وھاں ھوتا تھا اسکے بقول کہ یہاں سے بچوں اور بڑوں کے اعضاء نکال کر یورپ اور خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل بھیجے جاتے ھیں اس طرح کے بیانات دینے شروع کیے تو اس خاتوں کو ھی غائب کردیا گیا اور بیان دیا گیا کہ وہ خاتوں سونے کی اینٹیں لے کر بھاگ گئی ھے ۔ اس طرح کے خواتین کے گھر سے بھاگنے واقعات بھی ھوتے ھیں اور خواتین پکڑی بھی جاتی ھیں مگر یہ معمولی واقعہ نہیں تھا کہ نظرانداز کردیاجائے کہ اُس خاتون کا پتہ ھی نہیں چل سکا کہ اسے آسمان نے اُچک لیا یا زمین نگل گئی
اور ویسے بھی سوچنے کی بات ھے کہ جب ایبٹ آباد والی سائیڈ پر زلزلہ آیا تھا تو وھاں سے ہزاروں بچے ایدھی سنٹرمنتقل کیے گئے تھے اور اس کے علاوہ ایدھی جھولوں سے لوگوں کے گُناہ اورپورے پاکستان سے لاتعداد لاواث بچے اور لوگ ایدھی سنٹروں میں بھیجے جاتے ہیں کہاں جاتے ھیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟