ہوم << جماعت اسلامی کے زوال کے اسباب - راشد حمزہ

جماعت اسلامی کے زوال کے اسباب - راشد حمزہ

جماعت اسلامی کے پاس جو ماہر اور تربیت یافتہ سیاسی کارکن ہے، وہ کسی دوسری جماعت کے پاس نہیں اور ہوگا بھی نہیں کیوں کہ یہ صرف جماعت اسلامی کا ہی خاصا رہا ہے کہ وہ اپنی مجموعی محنتوں کا زیادہ تر حصہ کارکن کی تربیت، ان کی صلاحیتیں نکھارنے اور پھر ان کو سیاست کے میدان میں اتارنے کے لیے تیاریوں پر صرف کرتی ہے. جماعت اسلامی کے پاس تربیت یافتہ کارکن ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جماعت اپنے کارکن پر اس کے تعلیمی سالوں یعنی سکولنگ ختم ہونے اور کالج شروع ہونے کے بعد بھرپور نگاہیں رکھتی ہے، اس کی سیاسی تربیت پر توجہ دیتی ہے، اس کو مکالمہ بازی کے فن سے آشنا کراتی ہے، اسے لٹریچر فراہم کرتی ہے، اسے سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رکھتی ہے، بات بے بات مظاہرے کرواتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جماعت کا کارکن جب اپنے تعلیمی سال مکمل کر لیتا ہے تو ساتھ ہی وہ بھرپور سیاسی عمل سے گزر کر ماہر کارکن بن چکا ہوتا ہے. صرف طالب علم ہی نہیں جماعت اسلامی ہر شعبے سے وابستہ اپنی تنظیموں خواہ وہ شعبہ خواتین ہو، اساتذہ ہوں وکلاء یا زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں، کو جماعت کی مرکزیت سے جوڑے رکھتی ہے، انھیں ہر اس قسم سرگرمی میں مشغول رکھتی ہے جس کا تعلق جماعت کی مرکزیت سے ہو، سادہ زبان اور مختصر لفظوں میں جماعت اسلامی اپنے کارکن کے لیے بھرپور درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے.
اس کے باوجود جماعت اسلامی کی مسلسل ناکامیوں کے اسباب اور وجوہات کیا ہیں؟ یہ شاید جماعت اسلامی نے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی. میرے خیال میں اگر ان اسباب کو جاننے کی کوشش کی جاتی جو جماعت کے زوال کا باعث بن گئے ہیں تو آج جماعت اس مقام پر کھڑی نہیں ہوتی. جماعت نے اپنے کارکن کی تربیت میں تو پورے نمبر حاصل کیے ہیں لیکن اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ جماعت کے سیاسی اہداف بھی وقت کے ساتھ ساتھ کمزور پڑتے جا رہے ہیں. پہلے کی جماعت اسلامی حکومت کو اپنی سٹریٹ پاور کے ذریعے چیلنج کرتی تھی، حکومتیں اس سے خوفزدہ رہتی تھیں لیکن جب ایم ایم اے کے فلیٹ فارم سے جماعت کو پارلیمانی حیثیت مل گئی اور جماعت نے اپنی مروجہ روش بدل ڈالی، جوڑ توڑ کی پالیسی اپنائی، تب سے نہ صرف جماعت کا بلکہ ہر مذہبی جماعت کی سیاسی حیثیت بہت کمزور ہو گئی ہے، اب کوئی مذہبی جماعت مطالبہ کرنے اور منوانے کی پوزیشن میں نہیں، ان کو کم سے کم قیمت پر ساتھ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے.
قاضی حسین احمد مرحوم تک جماعت کی سرگرمیاں پھر بھی توجہ کا مرکز بن جاتی تھیں لیکن جیسے ہی وہ رخصت ہوئے، جماعت اسلامی کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں، سید منور حسن کے دور میں جماعت اپنی تاریخ میں سب سے نچلی سطح پر آگئی. سید منور حسن کے بعد قیادت سراج الحق کو منتقل ہوئی تو جماعت نےروایتی سیاست اپنا لی، خیبر پختونخوا میں حکومت کے مزے لوٹنے کو اپنا مقصد جانا لیکن وفاق اور مرکز میں ایک ایسی حکومت کی بھرپور حمایت جاری رکھی جو ہر طرح سے نااہل اور غیر عوامی ہے. موجودہ حکومت کے خلاف نعرے تو لگائے گئے لیکن ہر ضمنی الیکشن میں اسی حکومت کا ساتھ دیا گیا. پختونخوا میں حکومت ملنے کے بعد سراج الحق کی قیادت کے پاس یہ سنہرا موقع تھا کہ وہ عمران کے ساتھ حکومت بھی چلاتی اور ساتھ ہی وفاق میں عمران کے ساتھ الیکشن ریفارمز، کرپشن اور مہنگائی کے خلاف تحریک چلاتی تو اس کا دوبارہ احیاء ہو جاتا، لیکن بدقسمتی کہ جماعت نے یہ موقع صرف اس خدشے کی وجہ سے ضائع کردیا کہ کہیں عمران خان کی مقبولیت کی وجہ سے ہماری آواز اس کے ساتھ دب نہ جائے.

Comments

Click here to post a comment