انگلینڈ کے بدنام زمانہ کپتان ڈگلس جارڈن 1900 میں پیدا ہوئے تھے. جارڈن متحدہ ہندوستان کے شہر بمبئی میں پیدا ہوئے. اپنے دور کے اچھے بیٹسمین تھے مگر ان کی پہچان دنیا میں ایک منفی کھلاڑی کے طور پر ہوئی. ان کے نام کے ساتھ ایک ایسی منفیت جڑ گئی جس پر شاید وہ خود بھی باقی زندگی پشیمان رہے. انہوں نے کرکٹ کے کھیل میں باڈی لائن باؤلنگ متعارف کروائی
کرکٹ کی سب سے متنازعہ ترین سیریز میں سے ایک (1932-33 کی ایشز سیریز) دسمبر 1932 اور جنوری فروری 1933 کے درمیان کھیلی گئی. یہ سر ڈان بریڈ مین کا عروج تھا. اپنے پہلے 21 ٹیسٹ میچز میں وہ 106 کی ناقابل یقین اوسط تک پہنچ چکے تھے. سیریز شروع ہونے سے پہلے سر ڈان بریڈ مین صرف 19 میچز میں 12 سنچریاں سکور کرچکے تھے. یاد رہے کہ یونس خان جیسے بڑے بلے باز بھی اتنی سنچریاں 50 کے قریب میچز میں بنا سکے ہیں. انگلینڈ کے ذہن میں تین سال پہلے کی ہار کی یادیں تازہ تھیں جب آسٹریلیا کی ٹیم نے انگلینڈ کو انگلینڈ میں 2-1 سے شکست دی تھی اس وقت یہ عام سی بات تھی کہ لیگ سائیڈ پر فیلڈ لگا کر منفی باؤلنگ کی جائے مگر اس سیریز میں پہلی دفعہ انگریز کی روایتی مکاری اور سازش سامنے آئی، جب باقاعدہ کھلاڑیوں کے جسم کو نشانہ بنانے کی سکیم سامنے آئی. اس انگلینڈ ٹیم میں ہیرالڈ لارووڈ جیسے تیز باؤلر موجود تھے. ذہن میں رہے کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کھیل میں ابھی ہیلمٹ اور اس طرح کی دوسری حفاظتی چیزیں متعارف نہیں ہوئی تھیں اور جو حفاظتی سامان موجود تھا، وہ بھی آج کے مقابلے میں بہت کم معیار کا تھا. بعد میں ہیرالڈ لارووڈ کو کرکٹ کا دہشت گرد بھی کہا گیا، اور یہ ان کی آخری ٹیسٹ سیریز ثابت ہوئی. بہت سارے لوگوں کے نزدیک انھیں قربانی کا بکرا بنایا گیا.
ویسے تو پوری سیریز ہی میں انگلینڈ نے یہ کام جاری رکھا مگر ایڈیلیڈ میں کھیلا جانے والا سیریز کا تیسرا ٹیسٹ سب سے متنازعہ رہا، خاص کر میچ کے دوسرے دن حالات اس وقت پریشان کن ہوگئے جب لارووڈ کی ایک تیز گیند آسٹریلوی کپتان بل ووڈفل کے سینے پر لگی اور بلا ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا، ووڈفل درد کی شدت سے دوہرے ہوتے ہوئے زمین پر گر پڑے ،گراونڈ اس وقت 51 ہزار تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا. (اس وقت کا ریکارڈ کراؤڈ) تماشائی اضطراب سے بے قابو ہو رہے تھے، انگلش کپتان نے اس وقت سفاکی کی انتہا کر دی جب انہوں نے باؤلر لارووڈ کو یہ کہتے ہوئے شاباش دی ”ویل باولڈ ہارووڈ“، ڈان بریڈ مین اس وقت نان سٹرائیکر تھے، انہوں نے بعد میں بتایا کہ میں اس سے زیادہ خوفزدہ شاید کبھی نہیں ہوا. اگلے اوور میں جب لارووڈ دوبارہ باؤلنگ کرنے آئے تو فیلڈ نارمل تھی لیکن جیسے ہی وہ بال پھینکنے کے لیے بھاگے تو جارڈن نے انہیں رستے میں ہی روک دیا اور فیلڈ کو دوبارہ باڈی لائن کے حساب سے لگا دیا۔
یہ اب سیدھا سادھا حملہ کرنے والی بات تھی کراؤڈ اس حرکت پر آپے سے باہر ہونے لگا، تماشائیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری طور پر پولیس کی بہت بڑی نفری طلب کرنا پڑی، حالات ایسے ہوگئے کہ باؤنڈری لائن پر کھڑا ایک انگلش فیلڈر لیگ ایمپائر جارج ہیل کے پاس آیا اور انہیں کہا کہ اگر یہ تماشائی جنگلے سے کود کر اندر آگئے تو دفاع کے لیے ایک وکٹ میں اکھاڑ لوں گا. ایمپائر نے جواب دیا، میں تینوں اکھاڑنے کی سوچ رہا ہوں. حالات خراب تھے. کرکٹ آسٹریلیا نے ایم سی سی (کرکٹ قوانین بنانے والے ادارہ ) کو تار بھیجی کہ انگلینڈ کھیل کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے. آسٹریلین کپتان کے یہ الفاظ اگلے دن تمام اخبارات کی شہہ سرخی بنے، جب انہوں نے ایم سی سی کے نمائندے مسٹر وارنر کو کہا کہ ”میں تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا“. میڈیا کی تمام تر توجہ اب کھیل سے زیادہ باڈی لائن تکنیک پر مرکوز ہو چکی تھی اس پر بہت لے دے ہوئی.
کھیل کا تیسرا دن مزید پریشانیاں لے کر آیا جب لارووڈ کا ایک باؤنسر آسٹریلین وکٹ کیپر کے سر پر لگا اور وہ زمین پر گر گئے. اس وقت ایڈیلیڈ کے کمشنر پولیس کی پیش بندی کام آئی جنہوں نے گراؤنڈ سے باہر موجود پولیس کو فوری طور پر کراؤڈ کو قابو کرنے کا حکم دیا. آسٹریلوی کپتان پویلین سے بھاگتے ہوئے اپنے ساتھی کی مدد کو پہنچے. کراؤڈ بےحد جذباتی ہو چکا تھا. وکٹ کیپر اولڈ فیلڈ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی. دونوں ٹیموں کے درمیان حالات اتنے زیادہ خراب ہو چکے تھے کہ ایک بار پانی کے وقفے میں آسٹریلوی کھلاڑی باراک نے اونچی آواز میں کہہ دیا کہ جارڈن کو پانی نہیں دینا بلکہ اسے پیاس سے تڑپا تڑپا کر مارنا چاہیے. جارڈن بعد میں متحدہ ہندوستان کے خلاف سیریز تک کپتان رہے جولائی 1933ء میں جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم انگلینڈ کے دورے پر آئی تو انگلینڈ کو کرنی کی بھرنی پڑی اور ویسٹ انڈیز کے تیز ترین باؤلرز لیری کانسٹنٹائن اور مارٹن دیل نے بھی یہی حربے انگلینڈ کے خلاف آزمائے. باڈی لائن سیریز کی وجہ سے ایم سی سی کو کھیل کے قوانین میں تبدیلی کرنی پڑی اور نیا قانون بنانا پڑا جس کے تحت اب لیگ سائیڈ پر بی ہائنڈ دی سکوائر دو سے زیادہ فیلڈر کھڑے نہیں کیے جاسکتے.
اس سیریز میں انگلینڈ نے 4-1 سے فتح حاصل کی. لارووڈ سب سے کامیاب باؤلر تھے. اس سیریز میں انگلینڈ کی ٹیم اگر یہ منفی کھیل نہ بھی پیش کرتی تب بھی وہ انگلینڈ کے عظیم ترین کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم تھی اور جیتنے کی پوری صلاحیت رکھتی تھی. اس انگلش ٹیم میں ہربرٹ سٹکلف لیس ایمس اور ولی ہیمنڈ جیسے بڑے بلے باز موجود تھے. آسٹریلوی ٹیم میں بھی سر ڈان بریڈ. بل پونسفورڈ اور کلیری گریمٹ جیسے عظیم کھلاڑی موجود تھے. کلیری گریمنٹ 36 ٹیسٹ میچز میں 200 وکٹیں لینے والے باؤلر ہیں. یہ تیز ترین 200 ٹیسٹ وکٹوں کا ریکارڈ 1936 میں بنا تھا اور آج 80 سال بعد بھی نہیں ٹوٹ سکا مگر افسوس اتنے بڑے کھلاڑیوں کی موجودگی کے باوجود بھی یہ سیریز باڈی لائن تنازع کی وجہ سے مشہور ہے.
نوٹ : اس تحریر کے لیے وزڈن آرکائیوز اور کرک انفو سے مدد لی گئی ہے
تبصرہ لکھیے