ہوم << بچے کےلیے کیا ضروری ہے؟ ماں یا اسکول؟ صائمہ بتول

بچے کےلیے کیا ضروری ہے؟ ماں یا اسکول؟ صائمہ بتول

وہ صرف میرے دوست ہی نہیں رہنما اور محسن بھی تھے. زندگی جب بھی اپنے کسی روپ میں مجھے پریشان کرتی، میں مسائل کی گٹھڑی باندھ کر ان کے پاس پہنچ جاتی، وہ گٹھڑی کھولتے، اس کے پریشان حال دھاگوں کو چند لمحوں میں سلجھا کر مسکراتے ہوئے میری طرف بڑھا دیتے اور میں حیرت اور خوشی کی تصویر بنی ان کے روشن چہرے کو تکنے لگتی. پھر آج تو مجھے زندگی کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا تھا، اس سلسلے میں رہنمائی لیتی تو ان کے سوا کس سے۔ لہذا بیٹے کو ساتھ لیے ان کے سامنے جا پہنچی. وہ ہمیشہ کی طرح شفیق مسکراہٹ اور طمانیت سےبھرپور چہرے کے ساتھ میرے سامنے موجود تھے. میں سراپا سوال بنی ان کے سامنے کھڑی سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی کہ اپنی بات کہاں سےشروع کروں؟ انھوں نے پریشانی بھانپتے ہوئے احمد کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، لگتا ہے تم احمد کی وجہ سے پریشان ہو، اور میں محض سر ہلا کر رہ گئی، استفسار پر میں الجھے ہوئے لہجے میں بولی، احمد تین سال کا ہوگیا ہے، اور میں یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ اسے کس سکول میں بھیجا جائے.
چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ بولے، میرے خیال سے احمد کو ابھی کسی سکول کی ضرورت نہیں، اسے صرف تمہاری توجہ کی ضرورت ہے۔ سکول اسے چند حروف یا الفاظ رٹوا سکتا ہے لیکن اس کی شخصیت کو وہ مضبوط بنیاد فراہم نہیں کر سکتا جس پر کل اس کے مستقبل کی عمارت کھڑی ہو، یہ بنیاد صرف تم فراہم کر سکتی ہو۔ ان کی بات نے میری الجھن میں اضافہ کر دیا۔ شخصیت کی بنیاد کیا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟ اتنے میں وہ بولے، دیکھو! جس طرح کسی عمارت کی مضبوطی اور دیرپا ہونے کا تعلق اس کی بنیاد کی مضبوطی پر ہے، اسی طرح انسانی شخصیت کی کامیابی کا اسی فیصد تعلق اس اساسی رویے پر ہے جو اس کو سات برس کی عمر سے قبل سکھایا جاتا ہے۔ جو مائیں کسی طرح سات عادتیں سات برس کی عمر کو پہنچنے سے قبل بچوں کو سکھا پاتی ہیں، وہ گویا اپنے بچے کے مستقبل کی کامیابی کو یقینی بنا دیتی ہیں.
بےصبری سے میں نے پوچھا، کون سی سات چیزیں؟ وہ مسکراتے ہوئے بولے، ہر کامیاب شخصیت میں پہلی عادت جس کا بچپن میں پختہ ہونا ضروری ہے، وہ ہے ارتکاز توجہ، کسی ایک کام پر تا دیر اپنی توجہ مرکوز کیے رکھنا، یکسو ہونا انسان کو اس کام کا ماہر بنا دیتا ہے، دوسری چیز ہے کام سے پیار، کامیابی کی دنیا میں کاہل، کام چور اور سست انسان کے لیے کوئی جگہ نہیں، یہاں صرف وہی لوگ اپنی جگہ بنا سکتے ہیں جنہیں کام کرنا فارغ رہنے سے زیادہ عزیز ہو۔ تیسری چیز ہے کام سے حاصل ہونے والی لذت، دنیا کے ہر فنکار کے لیے سب سے بڑا انعام وہ خوشی ہے جو اسے اپنے کام سے حاصل ہوتی ہے، لہذا ضروری ہے کہ بچے کے رویے میں آغاز ہی سے کام سے لطف اٹھانا شامل کیا جائے. چوتھی چیز خود انحصاری ہے، اپنا کام خود کرنا، اپنا فیصلہ خود کرنا، اپنا بوجھ خود اٹھانے کی سکت ہونا، دنیا کی سب سے بڑی دولت اور سب سے بڑی آزادی ہے۔ پانچویں چیز ہے ترتیب، ترتیب قانون قدرت ہے، قدرت کی ہر چیز اور ہر کام ترتیب کا مرہون منت ہے، ترتیب کے بغیر کامیابی کا تصور ادھورا ہے. چھٹی چیزہے حقیقت سے محبت، حقیقت پسندی حقیقی حالات و مسائل سے آگاہی کامیابی کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں. ساتویں اور آخری چیز ہے اطاعت گزاری، جب تک انسان اصول و ضوابط کی اطاعت قبول نہیں کرتا، کامیابی دور کہیں دھند کے دبیز پردوں میں چھپی رہتی ہے.
لیکن میں یہ سب خوبیاں اپنے بچے میں کس طرح پیدا کر سکتی ہوں؟ الجھے لہجے میں، میں نے سوال کیا، یہ سب تو بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اپنے مخصوص اطمینان بخش لہجے میں وہ دوبارہ گویا ہوئے، یہ سب زیادہ مشکل نہیں، بس تمہیں اپنی زندگی میں چند چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لانی ہوں گی، یہ سب سیکھنے کے لیے بچے کو تین چیزوں کی ضرورت ہے، جگہ، خاموشی، اور چند سادہ اشیا، مثلاً مٹی، ریت، پانی، رنگین پنسلیں، کا غذ، اور سادہ کھلونے وغیرہ۔ تم اپنےگھر میں کوئی ایساگوشہ عافیت بناؤ، جہاں یہ چند گھنٹے اپنی مرضی سےگزار سکے، وہ تصویر بنانے، اس میں رنگ بھرے، جو چاہیے بنائے اور جیسے چاہیے بنائے، ریت، مٹی کے گھروندے بنائے، سادہ کھلونوں سے کھیلے، اپنی دنیا میں مگن رہے، بس یہ دھِیان رہے کہ ٹی وی یا موبائل فون کی آواز اس کے کام سے کام توجہ نہ ہٹا پائے۔ تم اس کی سرگرمیوں میں شرکت کر سکتی ہو مگر دوست بن کر، ان کی بات میری سمجھ میں آ گئی، اور میں اپنے بچے کے سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے، ہمیشہ کی طرح اس بار بھِی اپنی الجھن کو سلجھا کر وہاں سے چل دی.

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment