ہوم << تم امیر کیسے ہو گئے؟ - سید ثمر احمد

تم امیر کیسے ہو گئے؟ - سید ثمر احمد

سید ثمر احمد تم امیر کیسے ہو گئے؟ اس نے جواب دیا، میں جب نوکری کرتا تھا تو یہ خیال آتا کہ میں کیسے امیر ہو سکتا ہوں۔ میں نے اپنے سیٹھ کو دیکھنا شروع کیا ۔اس کی عادتوں کا مطالعہ کرنا شروع کیا اور ان پہ عمل کرنے لگا۔ یوں میں آہستہ آہستہ امیر ہوگیا۔ مجھ پہ کھلا کہ امیر لوگ اس لیے امیر ہوتے ہیں کہ ان کی عادتیں امیروں والی ہوتی ہیں۔ اور غریب لوگ اس لیے غریب ہوتے ہیں کہ ان کی عادتیں غریبوں والی ہوتی ہیں۔ میں نے لسٹ بنائی کہ امیر لوگوں کی عادتیں کیا کیا ہوتی ہیں جس سے وہ امیر ہو تے ہیں ۔ غریب لوگوں کی عادتیں کیا کیا ہوتی ہیں جس سے وہ غریب ہوتے ہیں۔ مجھ پہ کامیابی کا راز کھلنا شروع ہوگیا۔
میںامیر غریب کی بات نہیں کرتا ۔ میں ان عادتوں کو بڑے اور چھوٹے ، عظیم اور پست لوگوں کی عادتیں کہتا ہوں۔ اس شخص کے کہے سے اصولی اختلاف رکھتے ہوئے کامیابی کے ایک راز سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ کامیابی پلیٹ میں رکھ کے پیش نہیں کی جاتی۔ اس کا اپنا فلسفہ ہے۔ اپنی نفسیات ہیں۔ اپنے ضوابط ہیں۔ آئیں بڑی زندگیوں کے تعاقب میں چلتے ہیں۔ روشنیوں کے فوارے میں نہاتے ہیں اور اندھیرے سے نجات حاصل کرتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز اپنی بیوی کے ہمراہ جرمنی کے نجی دورے پر تھے۔ ایک ٹرین میں سفر جاری تھا۔ ان دونوں کے علاوہ اس اپارٹمنٹ میں چند اور لوگ بھی موجود تھے۔ کچھ دیر بعد وہ سب لوگ بھی چلے گئے اور یہ دونوں اکیلے رہ گئے۔ ٹرین مختلف اسٹیشنز پہ رکتی رہی ۔ لوگ اندر جھانکتے ، مطلوبہ جگہ نہ پا کر آگے گزر جاتے۔ کافی دیر بعد شاہد عزیز اپنے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں گئے۔ دیکھا وہ سب لوگ جو کتنے وقت پہلے ان کے پاس سے اٹھ کے جاچکے تھے وہاں بیٹھے ہیں۔ یہ سب لوگ بھی اور وہ جو ہر اسٹیشن پہ جھانکتے اور گزر جاتے ، یہ سمجھتے رہے کہ یہ نیا شادی شدہ جوڑا ہے ۔ ہنی مون منانے آیا ہے۔ ان دونوں کو تنہائی دینی چاہیے۔ایک ایک کر کے وہ سب ان کے پاس سے اٹھ گئے ۔صاحبو، بڑے لوگ بڑی باتوں کے باعث بنتے ہیں۔ جو ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے پوری سوسائٹی میں تحفظ اور تہذیب کی روح سرایت کر جاتی ہے۔
یہی شاہد عزیز اپنے کسی آرمی کورس میں شرکت کے لیے امریکہ میں موجود تھے ۔ امتحانی پرچہ دینے بیٹھے ۔ کوئی ممتحن نہ تھااور کوئی نقل بھی نہیں لگا رہاتھا۔ جس کو آتا نہیں تھا وہ بھی خود کرنے کی کوشش کرتا۔ انہوں نے تجسس میں استفسار کیا تو کسی نے کہا کہ اگر میں نقل چلائوں اور پکڑا بھی نہ جائوں ۔ تو بھی کم از کم جس سے نقل لگا رہا ہوں اسے تو خبر ہے ہی کہ میں ایک خیانت دار ہوں۔ میری شخصیت اس کے سامنے تو ناقابلِ اعتبار ہو جائے گی۔ مغرب کی غلط باتوں سے بھی مرعوب لوگ کم از کم اس مثال کو سر جھٹک کے ، دقیانوسی کِہ کے اپنی جان نہیں چھڑا سکتے۔ دیرپا اور بنیادی ترقی سوچ کی گہری تبدیلی کے ساتھ ہی ممکن ہوتی ہیں۔
ہمارے محترم غلام صابر کائری پچھلے دنوں جاپان کے دورے سے واپس آئے ۔ ہم نے ان سے وہا ں کے مشاہدات کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے ۔ ہم ایک سڑک پہ کچھ کھاتے ہوئے پیدل جا رہے تھے۔ چیز ختم ہونے کے بعد عادت کے مطابق ہمارے دوست نے کاغذ پھینک دیا۔ دو لڑکیاں سڑک کی دوسری طرف چلی جار ہی تھیں۔ انہوں نے روڈ کراس کی ۔ کاغذ اٹھایا اور ڈسٹ بِن کر دیا۔ یہ معمولی نظر آنے والی بات معمولی نہیں۔ بڑے لوگ اپنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی حفاظت کی بنا پر ہی عظمت کا درجہ حاصل کرتے ہیں۔
کامران رفیع ایک کورس کے لیے امریکہ گئے۔ بتانے لگے کہ ہم لنچ کے بعد ایک سڑک پار کر رہے تھے۔ جب ہم ہوٹل سے نکلے تو ہم نے دور سے ایک کار آتے دیکھی۔ وہ گاڑی آہستہ ہونا شروع ہوئی ۔ ہم اس موڑ تک پہنچے تو گاڑی رک گئی اور ڈرائیور نے ہمیں گزرنے کا اشارہ دیا۔ یہ ہماری زندگی کا خوبصورت تجربہ تھا۔ انسان کو اہمیت دینا اور اخلاقی معیار قائم کرنا۔کوئی وجہ ہوتی ہے جو معاشرے کھڑے رہا کرتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔
عید الاضحی کے قریب انگلینڈ سے اساتذہ کا ایک وفد پاکستان کے دورے پہ آیا۔اپنا کام ختم کرنے کے بعد لاہور دیکھنے کے لیے آئے۔ دوست نے میرا نمبر دے دیا کہ خود ایک سیاح ہوں اچھی سیر کروادوں گا۔ان کے عمل میں ایک چیز نوٹ کی کہ یہ لوگ منصوبہ بندی بہت کرتے ہیں۔ لاہور آنے کے لیے بھی ایک گھنٹہ سب نے مل کر پلان ترتیب دیا۔ یہی درست ہے کہ اصل چیز صحیح منصوبہ ہوتی ہے۔ بعد میں تو صرف اس پہ عمل کرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ غلط جنگل کی صفائی کرتے رہیں گے تو آپ کی محنتیں رائگاں چلی جائیں گی۔
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ میں ایک صاحب غالباََ جولیس نام کے ٹیچرز ٹریننگ کروانے آئے۔دوست ملنے گئے تو کچھ دیر کے لیے غائب ہوگئے۔ واپس آئے تو ہاتھ میں آئس کریم تھی۔ ملازم موجود تھے۔ لیکن ایک بیرونِ ملک سے آیا ہوا خود اپنا کام کرتا رہا۔ VIP کلچر کا اسیر رہنا بیمار ذہنوں کی علامت ہے۔ترقی یافتہ دنیا ان فضولیات سے پاک ہے۔
عامر شہزاد ہمارے منیجر رہے ہیں۔ ایک انمول اور شفیق انسان۔ ان کی کہی بات حکم کا درجہ رکھتی ۔وہ حکم نہیں جس کو کرنے کو دل آمادہ نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ جس کو کرنے کو دل خود کہتا ہے۔وہ ایک نہایت کامیاب منتظم اور قائد تھے۔ ہم نے انہیں کبھی بداخلاقی ، روکھے پن اور توہین آمیز رویے سے گفتگو کرتے نہیں سنا۔ بس کہتے اور لوگ جْت جاتے۔ ہر شخص عزت ِنفس کو محفوظ سمجھتا۔ اپنے حوصلہ اور احترام میں اضافہ محسوس کرتا۔ ایک تناور درخت کی طرح ان کو سایہ فگن پاتا۔ سختی ،دھونس اور اکڑ سے لوگوں کی گردنوں پر سوار ہونے والے جانیں کہ احترام کسے کہتے ہیں اور کام کیسے کروایا جاتا ہے۔ انسان کے مرتبے کا پتہ چلتا ہے جیسا سلوک وہ اپنے ماتحتوں سے روا رکھتا ہے۔
میں حیرت سے اس تصویر کو دیکھ رہا تھا ۔ورلڈ بینک کا صدر پھٹی ہوئی جراب پہنے ہوئے تھا۔ اسے کسی قسم کا احساسِ کمتری نہ تھا۔ وہ پر اعتماد تھا اور خوشگوار بھی۔ مجھ پہ حقیقت کھلی کہ انسانوں کو کاغذ اور لوہے کے ٹکڑوں پہ جانچنے والے بلند پایہ لوگ نہیں ہوسکتے ۔ یہ احساسِ کمتری کے مارے لوگ ہیں۔ جو گھروں میں رکھے سامان پہ تبصرے کرتے نہیں تھکتے۔ جن کے سامنے اشیا ہی خدا ہوتی ہیں اور انسان جانور سے بھی بد تر۔
صوفی محمد اکرم ہمارے بزرگ ہیں۔ لوگ ان پہ اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ چند گھنٹوں میں لاکھوں روپے اکھٹے کرلینا ان کے لیے معمولی بات ہے۔ خدا نے ان کے اخلاص میں برکت دی ہے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ لوگ اتنی آسانی سے آپ کو پیسے کیسے دے دیتے ہیں۔ کہنے لگے یہ تو اللہ کے کام ہیں۔ میں بس یہ کرتا ہوں جو کچھ بھی تھوڑا بہت میرے گھر میں آتا ہے اسے ان لوگوں کے گھروں میں بھی بھجواتا ہوں۔ یہ ان کروڑپتیوں کے لیے تو معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کا بھیجا ہوا تحفہ ہمیں محبت دیتا ہے۔ان کی غمی خوشی میں شریک ہوجاتا ہوں۔ بس یہ مکمل بات ہے۔ واضح ہو کہ یہ انسانی فضائل ہیں جو دل موہ لیتے ہیں۔
انکل نسیم بیگ ایک بزرگ اور انٹرنیشنل سول بیوروکریٹ گزرے ہیں۔ڈاکٹر حمید اللہ جیسی شخصیت سے بھی تعلق تھا۔ ڈاکٹر صاحب اس دور میں مجدد ِ علوم ِ سیرت کہلاتے ہیں۔ ان کے ہاتھ پر قریباََ 39000افراد نے اسلام قبول کیا۔ ان کی موت پہ فرانس کی گورنمنٹ نے تعزیت نامہ جاری کیا کہ ڈاکٹر صاحب فرانس کے سیکولر تشخص کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھے لیکن اس کے باوجود وہ ہمارا اثاثہ تھے ۔بتاتے تھے کہ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب نے میرے گھر آنا تھا۔میں مقررہ وقت پہ اپنے فلیٹ سے باہر نکلا۔دیکھا کہ سامنے والے بینچ پہ ڈاکٹر صاحب تشریف فرما ہیں ۔ مجھے بہت شرم آئی۔ پوچھا، آپ کب سے یہاں موجود ہیں۔ سادگی سے جواب دیا آدھ گھنٹے پہلے آگیا تھا۔سوچا کہ آپ مصروف شخص ہیں۔ وقت تو ابھی نہیں ہوا ۔ آپ کسی اور ضروری کام میں مصروف ہوں گے۔اس لیے یہاں بیٹھ کے وقت گزاری کررہا تھا۔ نسیم بیگ کہتے ہیں میری پیشانی عرق ِندامت سے آلود ہوگئی۔ اس دن کے بعد سے جب بھی ڈاکٹر صاحب نے میری طرف آنا ہوتا ۔ میں آدھ گھنٹے پہلے باہر نکل کر ان کا انتظا ر کیا کرتا۔ کیا پراسرار خدا کے بندے ہیں۔
حاتم اصم علیہ رحمتہ ہمارے بڑے بزرگوں میں سے گزرے ہیں۔ایک خاتون ان سے مسئلہ دریافت کرنے آئی۔ اس دوران اس کی ریح خارج ہوگئی۔ وہ بے چاری شرمندہ ہوئی۔ ان حضرت نے یہ دیکھ کر کہ خاتون شرمندہ ہوگی ایسے ظاہر کیا جیسے انہیں اونچا سنائی دیتا ہے۔ وہ خاتون شرمندگی سے بچ گئی اور مطمئن ہو گئی۔ اس کے بعد سے انہوں ہمیشہ کے لیے یہ عادت بنا لی کہ کل کو اسے خبر ہو تو شرمندہ نہ ہو۔ اسی باعث اصم یعنی بہرے مشہور ہوئے۔
ہمیں بڑے پن کی ضرورت ہے ۔اور قحط الرجال سے نکلنے کی تدبیر ہم نے سجھانے کی کوشش کی ہے۔ آئیں چھوٹا پن ترک کریں ۔ فائدہ مند انسان بن جائیں۔ خوبصورت اور پائدار ترقی کا حصول اسی سے مشروط ہے۔

Comments

Click here to post a comment