ہوم << انصاف ہو، ضرور ہو - کامران ریاض اختر

انصاف ہو، ضرور ہو - کامران ریاض اختر

کامران ریاض اختر ڈان اخبار میں اعلیٰ سطحی اجلاس کے بارے میں چھپنے والی خبر کو کئی دن گزر چکے ہیں، لیکن معاملے پر بحث جاری ہے- حالیہ کور کمانڈرز میٹنگ کے بعد جاری ہونے والے بیان میں خبر ”فیڈ“ کرنے پر شدید تنقید کی گئی اور نتیجتاً سول ملٹری تعلقات کے بارے میں سوالات اٹھنا شروع ہو گئے. بظاہر تو یہ معاملہ نہ آزادی صحافت کا ہے نہ مسئلہ خبر کے درست یا غلط ہونے کا، جس بات پر تشویش ظاہر کی جاتی رہی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے اہم اجلاس کے شرکاء قومی اہمیت کے امور کے بارے میں ہونے والی گفتگو کے امین ہوتے ہیں. اگر واقعتاً اجلاس میں شریک کسی صاحب نے لا پرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دانستہ یا نادانستہ طور پر اس گفتگو کا ذکر کسی صحافی یا کسی دوسرے شخص کے ساتھ کر دیا ہے تو وہ امانت میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور یقینی طور پر ان کے خلاف انضباطی کاروائی ہونا چاہیے. بلکہ اگر یہ تعین ہوتا ہے کہ قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے تو تعزیرات پاکستان کے آفیشل سیکریٹس ایکٹ کو بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے.
یہاں تک تو بات اصولی ہے اور کسی کو بھی اس سے اختلاف نہیں ہو گا- لیکن جس بات پر اختلاف پیدا ہوتا ہے وہ اس خبر پر ظاہر کیا جانے والا ردعمل ہے. اس خبر پر پیدا ہونے والی یہ تشویش تو بالکل جائز ہے کہ اس سے دنیا بھر میں یہ تاثر گیا کہ گویا حکومت اور فوج کی پالیسیاں الگ الگ ہیں. یقیناً بھارت کے ساتھ موجودہ کشیدگی کے ماحول میں ایسا تاثر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرتا ہے. اسی لیے عسکری حلقوں کا اس پر شدید ردعمل قابل فہم ہے لیکن حکومت اور فوج کے اختلافات کا تاثر صرف اس ایک خبر سے تو نہیں پھیلا. میڈیا کی کئی شخصیات اور صحافی اپنے پروگراموں اور کالموں کے ذریعہ مسلسل اسی تاثر کو فروغ دے رہے ہیں. کسی بھی سرکاری میٹنگ میں فوجی شرکاء نے کیا کہا، کور کمانڈرز کی میٹنگ میں کن باتوں پر خفیہ بحث ہوتی رہی، ہر ایسی میٹنگ کے چند گھنٹے کے اندر مخصوص ٹی وی چینلوں پر یہ تمام تفصیلات کچھ صاحبان اس انداز میں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں گویا وہ خود اس میٹنگ میں موجود رہے ہوں. حد تو یہ ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان تنہائی میں ملاقات ہوتی ہے اور چند گھنٹوں بعد اس ملاقات کی بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو جاتی ہیں. یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے کہ آرمی چیف نے وزیر اعظم کو شٹ اپ کال دے دی. حیرانگی کی بات ہے کہ ایسی خبروں پر نہ تو عسکری حلقوں کی طرف سے انہیں من گھڑت کہہ کر تردید کی جاتی ہے، نہ ہی کسی کی طرف سے ایسی خبریں "فیڈ" کرنے پر کسی قسم کی کوئی تشویش ظاہر کی جاتی ہے. حتیٰ کہ افواج کا ادارہء تعلقات عامہ جو کہ دفاعی امور کے علاوہ، خارجی اور داخلی امور پر بھی ٹویٹ کے ذریعہ فوری رد عمل دیتا ہے، وہ بھی ایسی خبروں پر مہر بہ لب رہتا ہے. ایسے میں دنیا بھر میں فوج اور حکومت کے اختلافات کا تاثر جانا تو قدرتی ہے.
تمام سرکاری ادارے نظام مملکت کا اہم حصہ ہیں. فوج کے خلاف ناروا گفتگو ہو یا حکومت کے بارے میں نازیبا باتیں، دونوں سے پورے ملک کا وقار مجروح ہوتا ہے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچتا ہے - فوج کو نیچا دکھانے کے لئیے ڈان کو جھوٹی خبر فیڈ کی جائے یا حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے چند مخصوص صحافیوں کو غلط اطلاعات پہنچائی جائیں، دونوں یکساں طور پر قابل مذمت ہیں. ایسی حرکتیں پاکستان کے لیے شدید نقصان دہ ہیں جن سے کسی صورت میں بھی ایسا جھوٹا اور گمراہ کن تاثر پھیلتا ہو کہ جیسے خدانخواستہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت بچوں کی طرح ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہے.
اس موجودہ خبر کے مسئلہ کو حل کرنے کی بہتر حکمت عملی یہ ہوتی کہ کسی بھی فوری رد عمل سے گریز کیا جاتا- خبر کی حکومت کی طرف سے واضح الفاظ میں تردید کی جا چکی تھی جس کے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑ رہا تھا اور چند دن میں عالمی ذرائع ابلاغ بھی اس قصے کو بھول بھال جاتے. اس کے بعد ایسی باتیں صحافی تک پہنچانے والے کا پتہ لگا کر اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی تھی لیکن جس انداز میں اب صحافی کے خلاف کاروائی شروع ہوئی اسے خبر کی بالواسطہ تصدیق سمجھا گیا اور دنیا بھر میں پھر سے اس معاملے کو اچھالا جانے لگا. بہرحال اب جو ہونا تھا وہ ہو چکا، اب اہمیت اس بات کی ہے کہ معاملے کو حل کیسے کیا جائے. بہت ضروری ہے کہ عالمی سطح پر ایک واضح پیغام جائے کہ پاکستان کوئی بنانا ریپبلک نہیں بلکہ ایک مستحکم اور ذمہ دار ریاست ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہے اور کوئی شخص یا ادارہ قانون سے بالاتر نہیں. جو کوئی بھی قومی سلامتی سے متعلق کسی بھی اجلاس یا ملاقات کی تفاصیل میڈیا تک پہنچانے کا ذمہ دار ہو اس کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کی جائے- انصاف ہو. سب کے ساتھ ایک جیسا یکساں اور غیر جانبدارانہ انصاف