ہوم << جوائنٹ فیملی سسٹم ، قابل غور پہلو - فرہاد علی

جوائنٹ فیملی سسٹم ، قابل غور پہلو - فرہاد علی

فرہاد علی ہمارے ہاں یہ روش عام ہے کہ ہم کسی معاشرتی قدر کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو ایک پہلو سامنے رہتا ہے اور دوسرا اوجھل ہوجاتا ہے۔ جیسے جوائنٹ فیملی سسٹم اور منگنی، سردست جوائنٹ فیملی سسٹم کا معاملہ لیجیے۔ دلیل پر دو تحریریں نظر نواز ہوئیں۔ ایک حیا مریم صاحبہ کی اور دوسری زاہد مغل صاحب کی۔
حیا مریم صاحبہ نے اس کو عہد صحابہ میں نہ ہونے اور ہندوانہ رسم ہونے کی وجہ سے غیر اسلامی کہا۔ اس کا ہندووں سے تعلق جوڑنا محل نظر ہے جیسا کہ زاہد مغل صاحب نے کہا۔ دوسرے نکتہ کی طرف آتے ہیں۔ کیا کسی چیز کے اسلامی ہونے نہ ہونے کا معیار صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ عہد صحابہ میں پایا جائے یا نہ پایا جائے؟ اس طرح دیکھا جائے تو صحابہؓ کے عہد میں ان کی بود وباش، طرز حیات، عورتوں کی ذمہ داریوں، رسوم و رواج غرض بہت ساری چیزیں دور حاضر سے مختلف نظر آتی ہیں تو ان کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ لطف کی بات یہ ہے کہ جو لوگ صحابہ ؓ کے ایک عمل کو اپنے من پسند نظریات کے لیے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں وہی لوگ اسلامی طرز سیاست یعنی خلافت، حدود و تعزیرات، گستاخی رسول اور جہاد جیسے اساسی معاملات میں صحابہ کے عمل کو بیک جنبش قلم ٹھکرا دیتے ہیں بلکہ صحابہؓ کے توسط سے پہنچنے والے حدیث کے ذخیرے تک کو دریا برد کر دیتے ہیں ۔
جوائنٹ فیملی سسٹم اور اس جیسے بے شمار معاملات میں دو باتیں مد نظر رکھنی چاہییں۔ ایک ہیں اسلام کے اٹل اور دائمی احکامات جو ہر زمانہ اور ہر حال میں واجب الاتباع ہیں۔ دوسرا ہے اسلام کا ایک خاص مزاج، جو پورے اور کامل اسلامی معاشرے کے قیام اور اسلامی تہذیب و تمدن اور اقدار کے فروغ میں معاون ہے بلکہ اسی کا دوسرا نام ہے۔ اسلام کا مزاج بھی مطلوب ہے مگر یہ اٹل احکامات کی طرح ابدی نہیں بلکہ وقتی مصالح اور مکمل اسلامی معاشرے کے قیام تک اس کو چھوڑا جا سکتا ہے۔ زیر نظر مسئلہ بھی اسی مزاج اور اٹل احکامات کو گڈمڈ کرنے سے پیدا ہوا ہے۔
اس مقام پر میں حیا مریم صاحبہ سے اتفاق کرتا ہوں کہ جوائنٹ فیملی سسٹم اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔ اسی لیے یہ سسٹم بعض مضمرات کا حامل بھی ہے اور بعض مواقع پر اسلامی احکامات کی بجا آوری میں رکاوٹ بھی۔ مگر اس کی حیثیت ابدی احکامات والی نہیں ہے اس لیے بڑے بھائی، بڑی بہو کی مجبوری اور ہندوانہ کہہ کو اس کو غیراسلامی بھی نہیں کہا جاسکتا۔ درحقیقت یہی وہ پہلو ہے جس کو نظر انداز کیا گیا۔
دراصل ثقافت اور دین کو ایک چیز سمجھنے اور ان میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے ایسے مغالطے ہر روز سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس باریک مگر غیر معمولی فرق کے لحاظ سے بہت سارے اعتراض خودبخود رفع ہوجاتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment