ہوم << سیکولرازم اور فرقہ واریت کا حل: معاملہ کیا ہے؟ محمد زاہد صدیق مغل

سیکولرازم اور فرقہ واریت کا حل: معاملہ کیا ہے؟ محمد زاہد صدیق مغل

زاہد مغل ہمارے یہاں کے سیکولرازم پسند حضرات اکثر اوقات مذہبی طبقات کو فرقہ واریت پھیلانے والے قرار دے کر اپنے تئیں خود کو تمام فرقوں سے بلند تر اور انکے مابین ایک "مصلح" کے مقام پر فائز سمجھتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنا چاھئے کہ مسلم معاشروں میں سیکولرازم کو فروغ دینا بذات خود فرقہ واریت کو فروغ دینے کی ایک صورت ہے۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ فرقہ واریت کی یہ سب سے واضح اور اکمل ترین صورت ہے ان معنی میں کہ سیکولرازم اسلامی تاریخ و علمیت میں ایک ایسی "مستقل نظریاتی پوزیشن" گھسانے کی کوشش سے عبارت ہے جس کا ہمارے یہاں کا کوئی بھی روایتی کلامی گروہ قائل نہیں۔ چنانچہ سیکولرازم کی تبلیغ درحقیقت مصالحت نہیں بلکہ مسلم معاشروں کو تقسیم کرکے فرقہ واریت پھیلانے سے عبارت ہے۔
اس موقع پر سیکولرازم کے حامی خاصی مہارت کے ساتھ یہ دعوی کرتے ہیں کہ دیکھئے اس نظام کے اندر تمام مذاہب اور فرقوں کی حیثیت مساوی ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہاں فرقہ واریت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ تو سمجھئے گویا سیکولرازم کا اہل مذہب بلکہ خود مذہب ہی پر "احسان عظیم" ہوا کہ وہ ان کے درمیان "مستقل مصالحت" کروا ڈالتا ہے۔ لیکن ان سے پوچھئے کہ سیکولرازم میں تمام مذاہب کے مساوی ہونے کا معنی کیا یہ ہوتا ہے کہ اجتماعی معاملات میں پالیسی اور قانون سازی میں تمام مذاہب کی کتب (مثلا قرآن، بائیبل، ویدا) کو مشترکہ و مساوی طور پر ماخذ قانون میں "شامل" کر لیا جاتا ہے؟ یا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہاں تمام مذاہب کے ماخذات قانون کو قانون و پالیسی سازی کے عمل سے مساوی طور پر "بے دخل" کردیا جاتا ہے؟ ظاہر اول الذکر بات خلاف واقعہ بھی ہے اور خلاف امکان بھی۔ تو اگر معاملہ دوسری نوعیت کا ہے جو کہ واقعی ہے تو اس میں مصالحتی کیسی؟ یہ مصالحت نہیں "بے دخلی" ہے۔ اسکی مثال یوں ہے کہ دو شخص ایک قطعہ ارضی پر حق ملکیت پر تنازع کررہے ہیں، ایسے میں ایک تیسرا شخص آکر کہے کہ یہ قطع تم دونوں کا نہیں میرا ہے، لو تمہارا قضیہ حل ہوا اب خوش ہوجاؤ، اور وہ دونوں خوش ہوجائیں۔ پھر وہ تیسرا شخص منصف بن کر اس پر قبضہ کرلے اور احسان جتلاتا پھرے کہ دیکھو اب تم دونوں مساوی ہو! مساوی کس چیز میں؟ حق ملکیت سے بے دخلی میں نہ کہ شمولیت میں۔
سیکولر نظریہ حیات کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے (اور جس کی تفصیلی علمی بنیادوں کی وضاحت کی جاسکتی ہیں) کہ مذہب کی اس بے دخلی کے استحکام کے لئے لازم ہے کہ فرد مذہب کی لایعنیت پر راضی ہو۔ سیکولر نظم مذہبی آزادی دینے کے لئے اسی طرح تیار ہوتا ہے جس طرح یہ درختوں کے پتے گننے یا بدکاری کرنے کا حق دینے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ یہ مذہبی آزادی اس لئے نہیں دیتا کہ یہ مذہب کو "قابل قدر" گردانتا ہے بلکہ اس لئے دیتا ہے کیونکہ یہ مذہب کے انتخاب کو اسی طرح لغو گردانتا ہے جس طرح درختوں کے پتے گننے کو یا جس طرح چائے یا کافی کے انتخاب کو۔ ذاتی انتخابات و اخلاقیات کی اس لایعنیت کو سنجیدگی و متانت کے ساتھ قبول کرنے کویہ اعلی اخلاقی قدر گردنتا ہے (جسے "ٹولیرنس" کہا جاتا ہے)۔ چنانچہ سیکولر نظام مذہبی تنازعات مذاہب کی اہمیت "برقرار رکھتے ہوئے" انہیں "حل" نہیں کرتا بلکہ مذہب کو لایعنی بنا کر انہیں "تحلیل" کردیتا ہے۔