ہوم << کیا جوائنٹ فیملی سسٹم اسلام کے خلاف ہے؟ محمد زاہد صدیق مغل

کیا جوائنٹ فیملی سسٹم اسلام کے خلاف ہے؟ محمد زاہد صدیق مغل

زاہد مغل بعض معاملات کے بارے میں ہمارے یہاں یہ عجیب طرز استدلال پایا جاتا ہے کہ انہیں غیر اسلامی ثابت کرنے کے لیے بس انہیں ”ہندوانہ“ کہہ دیا جائے، یوں گویا دلیل کا حق ادا ہوگیا۔ اور یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیا جائے کہ ”یوں صحابہ کے دور میں نہ ہوتا تھا“ جبکہ یہ بات کسی عمل کے خلاف اسلام ہونے کی سرے سے کوئی دلیل ہی نہیں۔ اس طرز استدلال کی ایک تازہ مثال دلیل پر شائع ہونے والی ایک حالیہ تحریر ہے جس کے مطابق مشترکہ خاندانی نظام غیر اسلامی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ ہندوانہ ہے، مگر تحریر میں یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا گیا کہ یہ کن معنی میں ہندوانہ ہے؟ کیا اس کے ہندوانہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کا معاشرتی نظام ویداؤں یا بھگوت گیتا میں درج ہے؟ یا یہ ان معنی میں ہندوانہ ہے کہ یہ صرف ہندوستان میں پایا جاتا ہے؟ نیز کیا یہ انہی معنی میں ہندوانہ ہے جن معنی میں ذات پات کا نظام ہندوانہ ہے؟ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے مشترکہ خاندان کے اس ہندوانہ نظام کو تو عام طور پر قبول کیا مگر برھمن و شودر جیسی اونچی نیچی ذات کے ہندوانہ نظام کو قبول نہ کیا؟
اس مقام پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس معاشرتی نظام کے غیر اسلامی ہونے کی دلیل کیا ہے؟ تحریر میں اس ضمن میں واحد دلیل یہ دی گئی ہے کہ ”صحابہ کے دور میں ایسی معاشرت نہ تھی“۔ پہلی بات تو یہ کہ صحابہ کے دور میں کسی امر کا موجود نہ ہونا اس کے غیر اسلامی ہونے کی کوئی دلیل ہے ہی نہیں، یہ دلیل نہیں ایک غلط العام تصور ہے۔ پھر یہ دلیل پیش کرتے وقت یہ فرض کرلیا جاتا ہےگویا حاضر و موجود ”سول سوسائٹی“ (اغراض پر مبنی جدید مارکیٹ معاشرت)، جو ہمیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور جس میں ہم صبح سے لے کر رات تک سانس لیتے ہیں، یہ تو ماشاء اللہ عین خیر القرون کی سنت اور پوری اسلامی تاریخ کا تسلسل ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کو تہس نہس کرکے ہمارے معاشروں پر غالب آتی یہ جدید معاشرت بھی تو یورپ و امریکہ سے نکلی ہوئی ”جدیدیانہ“ ہے، تو اس کا کیا؟
اب اگر بات موازنے کی ہی ہے تو یہ بات شرح صدر کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام اگرچہ آئیڈیل نہیں (جو کہ درحقیقت کوئی بھی ورکنگ نظام نہیں ہوتا لہذا اس میں ہمیشہ اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے) مگر اسلامی اقدار (محبت، صلہ رحمی، حفظ مراتب، ادب و احترام، ایک دوسرے کا خیال و ایثار، پڑوس و میل جول وغیرھم) کے تحفظ اور فرد کی ان اسلامی اقدار کے مطابق تربیت کا ایک نسبتا بہتر طریقہ معاشرت ہے (نیز اس کے بہت سے معاشی فوائد بھی ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں)۔ اس کے مقابلے میں جدید مارکیٹ سوسائٹی کا ان اسلامی اقدار کے پھیلاؤ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ انہیں نیست و نابود کرنے کا انتظام ہے۔ چنانچہ اسلامی تاریخ میں علماء نے بلاوجہ ہی اس طرز معاشرت کو قبول نہیں کیے رکھا۔ معاملات کو متنوع پہلوؤں سے سمجھے بنا علماء پر سست روی کا الزام دھرنا بس ایک فیشن ہے ۔

Comments

Click here to post a comment