ہوم << تیزی سے گزرتی زندگی اور کرنے کا اصل کام - بشارت حمید

تیزی سے گزرتی زندگی اور کرنے کا اصل کام - بشارت حمید

پچھلے دنوں ایک تعلق والے ڈاکٹر صاحب کی بیوی کا انتقال ہوگیا وہ خود بھی عمر رسیدہ ہیں اور نماز روزے کے پابند ہیں۔ افسوس کے لیے ان کے پاس جانا ہوا تو کہنے لگے کہ ایسا کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن بیوی میرا ساتھ چھوڑ جائے گی۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہم اس کے بارے سوچیں یا نہ سوچیں ہر گزرتے لمحے اور ہر آنے والے سانس کے ساتھ ہم اپنے آخری انجام کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
انسان کی لاعلمی اور جہالت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت پیسے کے حصول کو دیتا ہے۔ اور ہوش سنبھالنے کے بعد مرتے دم تک اسی پیسے کو اکٹھا کرنے کے چکروں میں زندگی کا ایک بڑا حصہ صرف کر دیتا ہے۔ پیسہ کمانا کوئی برا کام نہیں لیکن ہر وقت اسکی دھن ذہن پر سوار کیے رہنا اور ہر وقت اسی کو حاصل کرنے میں لگے رہنا زندگی کا مقصد نہیں ہے۔
انسان اگر کبھی تنہائی میں بیٹھ کر اپنے آپ پر غور کرے کہ میری پیدائش سے پہلے دنیا میں میری کیا حیثیت اور مقام تھا۔ کتنے لوگ مجھے جانتے تھے۔ پھر میری پیدائش کے تمام مراحل سے خالق کائنات نے مجھے بخیر و خوبی گزارا اور میری ہر ضرورت کا بھرپور خیال رکھتے ہوئے سب کچھ جو میرے جسم کے وجود میں آنے کے لئے ضروری تھا عطا فرمایا۔ میں نہ اپنی مرضی سے اس دنیا میں اس ملک میں اس صوبے میں اس شہر میں اور اس گھر میں پیدا ہوا نہ اپنی مرضی سے یہ سب کچھ چھوڑ کرجاؤں گا۔
پھر جب پیدا ہوا تو اللہ تعالٰی نے میری ضرورت کی خوراک اور والدین کی توجہ اور محبت کا انتظام کیا۔ میں خود سے ہل نہیں سکتا تھا خود سے کچھ کھا پی نہیں سکتا تھا اپنے جسم سے نکلنے والے فضلے پر کنٹرول نہیں رکھ سکتا تھا تو اس نے ماں کی صورت میں میری تمام ضروریات کا بندوبست کیا۔
پھر بچپن آیا اور کچھ کچھ ہوش سنبھالنے لگا چیزوں اور افراد کی پہچان کرنے لگا کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ بولنے لگا گھر میں سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ پھر لڑکپن میں داخل ہوا سکول لائف شروع ہوئی کچھ کچھ شعور کی سطح بلند ہونے لگی۔ اچھے برے کی تمیز کرنے لگا۔ پھر منہ زور جوانی کا دور آیا تو اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھنے لگا۔ ہر دوسرا شخص ہیچ نظر آنے لگا۔ کسی کی کہی بات برداشت سے باہر ہونے لگی ہر نصیحت بری لگنے لگی۔ اپنی تعلیم پر اپنی عقل و دانش پر غرور کا شکار ہونے لگا۔
پھر عملی زندگی کا مرحلہ آیا تو اپنی کمائی کو اپنی قابلیت، قوت فیصلہ اور ذہانت کا نتیجہ سمجھنے لگا۔ خود کو ہر لحاظ سے دوسروں سے اعلیٰ و ارفع سمجھنے لگا۔ اسی زعم میں دوسروں کی حق تلفی کرنا بھی اپنا پیدائشی حق سمجھنے لگا۔ خود صاحب اولاد ہوا تو زندگی کے طور طریقے ہی بدل گئے۔ بچوں کے مستقبل کی فکر میں ہلکان رہنے لگا۔ ان کا مستقبل بنانے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت اکٹھی کرنے لگا۔
زندگی کی رنگینیوں اور دیگر مصروفیات میں اس قدر مشغول ہوا کہ اپنی ذات کو بھول گیا۔ اپنے اس دنیا میں آنے کے مقصد کو اور پھر آخرت کی زندگی کے لئے کچھ محنت کرنے کا خیال تک نہ آیا یہاں تک کہ بڑھاپے کی عمر میں جا پہنچا۔ جس اولاد کے لیے دولت کے انبار جمع کئے اسی اولاد کو اب اسکا وجود بھی بوجھ لگنے لگا حتیٰ کہ موت کا وقت آن پہنچا۔ لیکن افسوس کہ آخرت کے لیے کچھ جمع کرنے کا وقت ہی نہیں ملا کہ دنیا سے فرصت ہی نہیں تھی۔ ساری زندگی اپنا مقصد حیات پیسے کو بنائے رکھا اور اصل مقصد بندگی رب کبھی ذہن میں ہی نہیں آیا۔
دین سے بس نماز روزے کی حد تک واجبی سا تعلق رکھا۔ دنیاوی علوم میں اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کی ڈگریاں حاصل کیں لیکن آخرت میں کامیابی کے مینوئل قرآن مجید کو بس برکت حاصل کرنے کے لیے گھر کے کسی کونے کھدرے میں ڈالے رکھا۔ کبھی اس کو سمجھ کر پڑھنے کا خیال تک نہیں آیا۔ کیا اس کلام کا یہ حق بھی نہیں تھا کہ اسکی زبان سیکھ کر اسکو بھی سمجھا جاتا۔
یہ ہم میں سے تقریباً سب کا احوال زندگی ہے ہم دنیا میں اپنی زندگی میں قرآن مجید کو سمجھنا اپنی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رکھتے یہاں تک کہ موت سے جا ملتے ہیں۔
اگر گہرائی میں غور و فکر کریں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ انسان دراصل اکیلا ہے۔ اکیلے ہی اس دنیا میں آتا ہے اور اکیلا ہی چلا جاتا ہے۔ زندگی میں جتنی بھی تکالیف آتی ہیں جو خود اس کی ذات کو دکھ درد محسوس ہوتا ہے وہ کسی دوسرے کو محسوس ہو ہی نہیں سکتا خواہ وہ کتنا ہی قریبی اور مخلص ساتھی ہو۔ ساری زندگی انسان دوسروں کے لیے کماتا کماتا اپنے آپ کو بھلائے رکھتا ہے۔ لیکن پھر سب کچھ یہیں چھوڑ کر راہی ملک عدم ہو جاتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بہت پیاری حدیث ہے آپ نے فرمایا کہ انسان کا وہی کچھ ہے جو اس نے کھا پی لیا یا پہن کر پرانا کر دیا اور یا اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا۔ باقی سب کچھ تو وارثوں کا ہے۔ ادھر اس کی آنکھ بند ہوئی ادھر انہوں نے سب بانٹ لیا۔
دنیاکا مال و دولت اور سب رشتے ناطے جو انسان کو مشغول رکھتے ہیں حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ بقول علامہ اقبال :
یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم و گماں لا الہ الا اللہ
یہ سب ہماری سوچ کے بت ہیں انکی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ انسان کے دل لبھانے کی چیزیں ہیں اور انسان سب کچھ انہی کو سمجھ بیٹھتا ہے۔
ابھی ہمارے پاس وقت کی مہلت باقی ہے لیکن یہ تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے اس لئے اپنی آخرت کے لئے بھی انہی 24 گھنٹوں میں سے ہی وقت نکالنا پڑے گا ہمیں مالک کائنات کے آخری پیغام کو سمجھ کر اس کے مطابق اپنے معاملات چلانے کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہو گا تب ہی آخرت میں کامیابی کا حصول ممکن ہو سکے گا۔ اللہ تعالٰی ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین