ہوم << لڑکیاں رشتے کا بلاوجہ انتظار کیوں کرتی ہیں؟ طاہرہ عالم

لڑکیاں رشتے کا بلاوجہ انتظار کیوں کرتی ہیں؟ طاہرہ عالم

طاہرہ عالم بیٹیوں کی شادی، اور ان کے لیے کسی اچھے رشتے کا انتظار والدین اور گھر والوں کےلیے روح فرسا معاملہ ہوتا ہے. بیٹیاں کبھی بھی زحمت نہیں ہوتیں لیکن نجانے کیوں جب بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں توان کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا بلکہ گھر والے بہت ہی برے انداز میں منہ بسور کے کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بیٹی پیدا ہوئی ہے، اللہ خیر کرے! اور اللہ پاک خیر ہی کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیٹیاں ماں باپ کی آنکھوں کا نور بن جاتی ہیں، ان کے دکھوں کو اپنا دکھ اور ان کی خوشیوں کو اپنی زندگی سمجھنے لگتی ہیں۔ کب بچپن کو خدا حافظ کہہ دیتی ہیں اور والدین کو احساس ہی نہیں ہوتا۔ وقت جیسے پر لگا کے اڑجا تا ہے، اور پھر والدین کو ان کا گھر بسانے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے. کیونکہ ہمارے یہاں یہ ایک رسم ہے کہ لڑ کی والے بیٹیوں کا رشتہ لے کر نہیں جاتے تو چار و ناچار بس انتظار ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے کہ کوئی اچھا رشتہ خود ہی چل کر آئے.
عزیز و اقارب اور ملنے جلنے والے دوست احباب کے کان میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ ہماری بچی کے لیے کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈیں۔ اچھا رشتہ ہر ماں باپ کا خواب ہوتا ہے مگر ہر خواب کو کہاں تعبیر ملتی ہے، ہر خواب کہاں شرمندہ تعبیر ہوتا ہے. ایک اندازے کے مطابق ہر گھر میں کم از کم دو بچیاں اچھے رشتوں کے انتظار میں زندگی کی حسین بہاریں برباد کر رہی ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اچھا رشتہ کیا کوئی’’ کمپنی‘‘بنا کر بھیجے گی۔ اگر ہم اپنے گھر، ارد گرد اور رشتے داروں میں نظر ڈالیں تو ہمیں لڑکوں کی تعداد کم اور اوپر سے فارغ پھرتے نظر آتے ہیں، جب ہم اپنے لڑکوں کی پرورش کی ذمہ داری کو صحیح طریقے سے انجام نہیں دے رہے تو معاشرہ کہاں سے اچھے رشتے مہیا کرے گا؟ اگر کسی خاندان میں چار بیٹے ہیں تو تین کے پاس ڈھنگ کی نوکری نہیں اور اگر کوئی کسی ادارے کے ساتھ منسلک ہے تو تنخواہ اتنی کم کہ بےچاروں کا اپنا گزارا مشکل ہے تو ایسے میں بیوی کا بوجھ کیسے اٹھائیں گے. بس یہی سوچ گھر والوں کو رشتے ڈھونڈنے سے روکتی ہے. دوسری جانب لڑکی والے ایسے کم آمدنی والے لڑکے سے رشتہ جوڑنا نہیں چاہتے، ان والدین کے خیال میں بیٹی خوش نہیں رہے گی اور اس کے شوہر کو بھی پالنا پڑے گا.
آج کل اچھے رشتے کی بنیاد دولت کی ریل پیل ہی کو سمجھا جانے لگا ہے. بےجوڑشادیاں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے. اگر لڑکا 45 سال کا ہے مگر گاڑی، بنگلہ، بینک بیلنس اور اپنا کاروبار رکھتا ہے تو اسے بہت آسانی سے20 سال یا اس سے بھی کم عمر لڑکی کا رشتہ مل جاتا ہے، اس طرح وہ لڑکیاں جو پہلے ہی عمر کا بیشتر حصہ گزار چکی ہوتی ہیں ایک بار پھر پیچھے بہت پیچھے دھکیل دی جاتی ہیں۔ اگر کسی کو وقت پہ کوئی اچھا رشتہ مل بھی جا تا ہے تب بھی تاخیر ضر وری ہے کیونکہ نمود و نمائش کے لیے بروقت رقم موجود نہیں ہوتی۔ لڑ کی والے اچھا خاصا جہیز کا انتظا م کر رہے ہو تے ہیں تو لڑ کے والے بری بنانے کے چکر میں لگ جاتے ہیں۔ بیس ہزار کے عوض ملنے والے شا دی ہال ایک لاکھ سے بھی تجاوز کرگئے ہیں۔ یہ دکھاوا بھی شادی جیسے مقدس فریضے کو مکمل کرنے میں بہت بڑی رکاو ٹ بنتا جا رہا ہے۔ جہیز اب مانگا نہیں جاتا کیونکہ ہمیں عادی بنا دیا گیا ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ جہیز میں کیا کیا دینا ہے۔ اپنی ناک کو کیسے بچانا یا اونچا کرنا ہے۔
چھوٹی عمر کی لڑ کیوں کی شادی زیادہ عمر والے مردوں کے ساتھ ہونا ایک عام سی بات ہے لیکن اگر کوئی لڑ کی لڑ کے سے عمر میں بڑی ہو تو اللہ معا ف کرے، گھر والے کیا اور باہر والے کیا، سب طعنے مار کر ناک میں دم کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات رشتہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ فریضہ بھی سیاست کی نظر ہوگیا ہے۔ کبھی لڑکی نہیں پسند تو کبھی گھر والے اور دوسری جانب بھی معاملات اس سے مختلف نہیں ہوتے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو لڑکے اور لڑ کیاں، آدمی اور خاتون کی فہرست میں شامل ہو تے چلے جا ئیں گے، بےجوڑ شادیاں ہوتی ر ہیں گی، اور نتیجے میں طلاق عام ہوتی جائےگی، اور معاشرہ ایسے بچوں کا گڑ ھ بن جائے گا جو ماں باپ کے بغیر ’’نا نکے‘‘ یا پھر’’ دادکے‘‘ میں عدم تحفظ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ان تمام باتوں کی جڑ صرف وقت پر شادی نہ ہونا اور بلاوجہ اچھے رشتوں کی تلاش ہے۔ جب کوئی صنعت اس طرح کی پروڈکس بنا ہی نہیں رہی تو مارکیٹ میں مہیا کیسے ہوگی؟ وقت پہ شادی کا مطلب کیا ہونا چاہیے، عمر کا کوئی تعین تو ہے نہیں اور پھر مقدر کی بھی بات ہوتی ہے لیکن کیا یہ درست ہے جو اکثر دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ لڑکے کی مائیں اور بہنیں مختلف لڑکیوں کو دیکھنے جاتی ہیں، دعوت اڑاتی ہیں اور پھر آخر میں یہ کہہ دیتی ہیں کہ ہم بعد میں آپ کو بتاتے ہیں. اس طرح درجنوں لڑکیوں کے معصوم دلوں سے کھیلتی ہیں، اور یہ بات بھول جاتی ہیں کہ وہ خود بھی بیٹیاں رکھتی ہیں۔ بعد میں نتیجہ یہ سنایا جاتا ہے کہ استخارہ میں منع ہوگیا ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکی والے اس بنا پہ بھی رشتوں سے منع کر دیتے ہیں کہ لڑکے کا اپنا گھر تک تو ہے نہیں، آدھی سیلری تو کرائے کے مکان میں ہی ختم ہوجائے گی۔
رشتہ طے کرتے وقت دونوں طرف مادی اشیا کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ والدین اگر اپنے مطالبات کو درمیانے درجے میں لے آئیں اور تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں کے مستقبل کے فیصلے وقت پر کرلیں اور اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ خود ان کا بیٹا یا بیٹی کتنے لائق ہیں؟ اور دوسروں کی نظر میں کتنے بہترین ہوسکتے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں اپنے گریبان میں جھانک لیں تو دوسروں کی برائی یا کمی آپ کو کمی نہیں لگے گی، کوئی اچھا فیصلہ کر پائیں گے ، اور کسی لڑکی یا لڑکے کو بلاوجہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔