ہوم << واہ رے بے بسی - رانا محمد اقبال

واہ رے بے بسی - رانا محمد اقبال

رانا اقبال کبھی کبھی چند الفاظ یا رویے انسان کی طبیعت پر اتنے گراں گزرتے ہیں کہ انہیں برداشت کرنا اور بھلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن حل ہر مسلئے کا ہوتا ہے اور بعض اوقات مثبت نتائج کےلیے کافی وقت درکارہوتا ہے، بس صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑے رکھنا چاہیے۔
سارا دن اپنے کمرہ میں گہما گہمی رہی لیکن جب ایک سینئیر دوست کی کال موصول ہوئی تو عشا کے بعد ان کی طرف جانے کا پروگرام بنایا۔ وہ اپنے بڑے بچے کے رویہ کی وجہ سے کافی پریشان تھے جوابھی آٹھویں جماعت میں ہے اور گزرشتہ روز تین گھنٹے جیل کی ہوا کھا کر آیا ہے، اور بڑی منت سماجت کے بعد اسے چھڑوا کر لایا گیا۔ ان کی اپنے بیٹے کے لیے فکر مندی اور بے بسی بھی چہرے پر عیاں تھی کہ شاید وہ کیفیت میں سمجھ تو سکتا تھا لیکن وہ درد محسوس نہیں کر سکتا تھا۔ کافی ڈسکشن کے بعد اس بچے کا مزاج دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ یہ ٹھوکر کھا کر سیکھنے والوں میں سے ہے سو اسے صرف اس وقت ہاتھ دیا جائے جب وہ تنہا محسوس کرنے لگے، جب اسے کسی سہارے کی ضرورت محسوس ہو اور وہ اپنے تجربات سے سبق حاصل کر رہا ہو، بچے کے تمام معاملات پر گہری نظر رکھی جائے اورحالات و واقعات اور سماجی معاملات میں منفی نتیجہ کی صورت میں اسے لٹ ڈاؤن نہ ہونے دیا جائے، یقینا ایسا بچہ جو ہر معاملے کو چیلنج کے طور پر فیس کرتا ہو یہ پرواہ کیے بغیر کہ وہ صحیح ہے یا غلط وہ ان رٹہ لگانے والے بچوں سے کہیں بہتر ثابت ہوتا ہے جو مشاہدہ، تحقیق و تخلیق اور پریکٹیکلی نتائج کی لگن اور جستجو نہیں رکھتے ہیں جبکہ ان کے بیٹے میں یہ جستجو اور لگن تو کوٹ کوٹ کر بھری پڑی ہے، سو یہ ایک خوش آئند بات ہے، البتہ سختی صرف پڑھائی کے لیے کی جائے اور وہ اس قدر ضرور ہونی چاہیے کہ وہ پڑھائی سے فرار حاصل نہ کر سکے۔ اس دوران وہ بچہ لیپ ٹاپ لے کرگائیڈنس کی غرض سے مہمان خانہ میں آگیا کہ موضوع فلسطین پر مضمون کی صورت میں ایک اسائنمنٹ تیار کر رہا ہے اور گوگل پر اسے اس کے مطلب کا مواد حاصل نہیں ہو پا رہا، سو اُنہیں امید کی کرن نظر آئی اور ان کے پریشانی کے آثار کچھ کم ہوئے، سر خود ایک پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے انسان ہیں، ہائی پروفائل جاب کر رہے ہیں۔ لیکن بعض اوقات انسان زندگی کی دوڑ میں بہت سے ایسے ضروری معاملات کو بھی اگنور کردیتا ہے جو آنے والے وقت میں ناسور بن جاتے ہیں اور ان سے چھٹکارا بھی نہیں پایا جا سکتا، بچے کی والدہ بھی پروفیسر ہیں، حافظ قران بھی ہیں اور ایک سلجھی ہوئی اور معاملہ فہم خاتون ہیں لیکن جب بچوں کو وقت دینا بہت ضروری تھا تب والدین اپنی اپنی پروفیسنل لائف پر فوکس کرتے رہے اور وقت ہاتھ سے نکل گیا کہ اب بڑے بچے کے لیے سمجھنا، سمجھانا، سننا اور عمل کرنا تو ناگزیر ہو چکا ہے، اور اب یہ چیزیں اسے مزید متنفر کرنے کے مترادف ہو چکی ہیں۔
ان سب معاملات پر تفصیلا گفتگو کے بعد کچھ دیر پہلے واپسی کی نیت کی اور اٹھ کر گاڑی کے پاس پہنچا، ابھی ڈور کُھولا ہی تھا کہ گاڑی کے وائپر الٹے ہوئے دیکھے۔ سیدھا کرنے لگا کہ اسی اثناء میں ایک کم ظرف کی آواز کانوں میں پڑی کہ اپنی گاڑی لے کر یہاں سے نکل جاؤ۔
الفاظ اتنے تلخ شاید نہ بھی لگتے کہ جتنا تلخ رویہ محسوس ہوا تھا، سارے موڈ کی ایسی تیسی کر کے رکھ دی، کبھی کبھی سوچتا تھا یہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر عرب میں ہی کیوں مبعوث ہوئے، لیکن بعض اوقات جواب وقت کے ہاتھوں ملتے ہیں اور تب وہ نا قابل برداشت ہوتے ہیں۔ میں جواب دینے سے گریز کرتا رہا لیکن اس شخص کے رویہ میں بلکل بدلاؤ نہ آیا۔ کاش دو چار دھر آیا ہوتا تو دل کو سکون رہتا لیکن ان سینئیر دوست کی رہائش کے باہر تماشا لگانا بھی ان کے لیے باعث پریشانی ہوتا اور میرے لیے باعث شرمندگی، اور پھر ہمارے اور اس کے درمیان فرق ہی کیا رہتا کہ میں بھی جاہلانہ رویہ اختیار کر لیتا جبکہ ایسے ہی معاملات پر سوچ وبچار کے بعد تو میں ایک مثبت نظریہ اور مطمئن دل کے ساتھ واپس آ رہا تھا۔ اب یہ سب باتیں صرف دل کو سمجھانے کے غرض سے کہہ لی جائیں تو بےجا نہ ہوگا کہ آپ جواب دینے کی حیثیت بھی رکھتے ہوں اور وقت کی نزاکت اور کسی لحاظ کی وجہ سے مجبور ہوں اور خاموشی اختیار کر لیں۔
لیکن یہ احساس اب شدت کے ساتھ ہوا ہے کہ بےبسی اسی کو کہتے ہیں کہ جب آپ کچھ کرنے سے قاصر ہوں لیکن دل کو سمجھانے خاطر سو بہانے تلاش کرنے لگیں اور اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کی ناکام کوشش کرتے رہیں۔

ٹیگز