ہوم << سطحی سوچ والے لوگ - ہمایوں مجاہد تارڑ

سطحی سوچ والے لوگ - ہمایوں مجاہد تارڑ

ہمایوں تارڑ درست کہا ”سوچ کا سطحی پن تکلیف دہ ہے“۔ بادی النظر میں یہی درست معلوم ہوتا ہے۔ تھوڑا اوپر اٹھ کر view لیں تو سوچ کا یہی سطحی پن اللہ کریم کی بڑی ہی قابلِ قدر نعمت دِکھے گی۔ فکری گہرائی یہ عندیہ بھی تو دیتی ہے کہ سب لوگ مساوی طور پر فکری گہرائی کے حامل ہوتے تو زندگی عذاب بن جاتی۔ سادہ سا فارمولا یہ ہے کہ جو شے جس مقدار میں ضرورت تھی، بس اتنی پیدا کی گئی۔ اور جو شے جتنی اہم تھی اتنی ہی وافر۔ جیسے ہوا، پانی، مٹّی، درخت، حیوانات وغیرہ۔ عقل بھی اسی اعتبار سے تقسیم ہوئی۔ پیغمبر اور دانشور لاکھوں میں اکّا دکّا۔ باقی زیادہ تر مجھ ایسا مزدور طبقہ جو بس فالو کرتا رہتا ہے۔ اپنی کوئی خاص رائے نہیں رکھتا۔ انور مسعود کا مصرعہ زبان پر لپکنے لگا:
” کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا“
یوں، یہ ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ فطرتِ حیات عقل کی زیادہ ضرورت نہیں رکھتی۔ اس کے بجائے کچھ دیگر خصوصیات ہیں جو زیادہ اہم ہیں۔ نہ ہوں تو فکری گہرائی کے حاملین بھی ناکام زندگیاں گزار کر، نجی سطح کے معاملات ہوں یا کمیونٹی، قومی حتٰی کہ بین الاقوامی سطح تک کے، کافی سے زیادہ بگاڑ کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ پاکستان دولخت کر ڈالتے ہیں۔ پڑھے لکھے، فکری گہرائی کے حامل لوگ۔
فکری گہرائی والے ملحد حضرات کی زندگیاں اکثر خود کشی پر منتج ہوتی ہیں۔ جاپان کی تیرہ کروڑ آبادی بارے عرفان صدیقی صاحب نے لکھا تھا کہ شاید 2020ء تک نو کروڑ رہ جائے گی۔ جاپانیوں کو ذرا سی مایوسی آن لے تو دل چھوڑ جاتے ہیں۔ ”باعزّت موت“ کو گلے لگانے یعنی خود کشی کرنے کو دوڑتے ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے ”عزت دار“ انٹیلیکچول بھی ہوتے ہیں۔ انتہائی پڑھے لکھے لوگ۔
ثابت ہوا کہ کامیاب زندگی کا فکری گہرائی سے لینا دینا کچھ زیادہ نہیں۔ نیز، زیادہ تر عقل کوئی ایسی شے ہے بھی نہیں جس پہ ناز کیا جائے۔ کاروانِ حیات کے یہ رنگا رنگ واقعات اس اٹل حقیقت پر مضبوطی سےگواہ ہیں۔ آپ نے دیکھا ہی ہوگا، بعض اوقات معمولی ذہن کے بندے کو بات زیادہ تر سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اسے چند ایک معاملات میں شرح ِصدر نصیب ہو جاتا ہے، اور وہ اس پہ کاربند ہو جاتا ہے۔ شاید سارا راز ”عملاً کاربند“ ہو جانے میں ہے۔ یعنی یہ عمل کی دنیا ہے۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایا کہ سب سے بڑا عالم وہ ہے جو بھلے تھوڑا جانتا ہو لیکن باعمل ہو۔ ایک معمولی ذہن کا بندہ، جو مستقل مزاج ہو، رجائیت پسند ہو، سخت عمل ہو، خوش اخلاق ہو، کارزارِ حیات میں زیادہ تر کامیاب ہے۔ مضحکہ خیز حد تک معمولی ذہانت اور سطحی معلومات رکھنے والے لوگ، اگرچہ focused لوگ، نرم خو، اپنی غیر ضروری اناؤں کے بکرے قربان کیے جاتے، کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے، رفتارِ حیات سے پوری طرح ہم آہنگ، مسکراتے، گنگناتے، مسلسل آگے بڑھتے دکھائی دیں گے۔
آپ اگر ان سے بات کر کے دیکھیں، تو عین ممکن ہے انہیں اپنی کینٹین، جنرل سٹور، یا پک انڈ ڈراپ کرنے والی وین سے زیادہ کچھ پتہ نہ ہوگا۔ سیاست اور مذہب پر ایسا کومنٹ دیں گے کہ آپ سر پیٹ کر رہ جائیں۔ مگر ان کی ذاتی زندگیوں میں کارکردگی کا گراف ورطہ ِحیرت میں ڈال دے گا۔ ماں باپ کی کیئر، بھائی بہنوں کی شادیاں، دوستوں اور رشتہ داروں سے ناطہ و تعلق کی دائم استواری، ان کی غمی خوشی میں کندھے سے کندھا ملائے ہوئے، ہوش مند کہ اپنی ترجیحات سے پوری طرح آگاہ، معمولی سےگیٹ اپ میں پاور ڈریسنگ کے تصورات سے بھی کوسوں دور، شیو بڑھے چہروں اور گرے ہیئر کےساتھ وہ کیسے کیسے معرکے سر کر چکے ہوں گے، فکری گہرائی کے حاملین شاید اس کا تصوّر بھی نہ کر سکیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں مشرق و مغرب کے فلسفوں تک رسائی رکھنے والے کسی دانشور کی فکری گہرائی، جو ضروری نہیں عوام الناس اور خواص کے لیے نفع بخش ثابت ہو رہی ہو، سوالیہ نشان بن کر رہ جاتی اور منصفانہ فیصلے کا تقاضا کرتی ہے کہ عقل مند کون؟ معمولی عقل والا جسے محض دو چار معاملات میں شرح صدر نصیب ہوگیا اور اس نے ایک آدھ حرمت قدر کی خاطر خود کوکمان پر چڑھا دیا، یا وہ جس کی فکری گہرائی تو خیرہ کن دکھتی تھی، مگر کسی خاص کام نہ آ سکی۔ دانشوری کے تقاضے پورے ہوئے، نہ دیگر ذمّہ داریاں ہی۔ اور وہ بس ”عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے“ کا ماڈل ہی بنے رہ گئے۔ سوچنا ہوگا، پوچھنا بنتا ہے کہ فکری گہرائی والے نے دوسروں کی زندگیوں میں کتنے چراغ روشن کیے۔
ہاں بعض اوقات ایسے نادانوں سے واسطہ پڑنا بھی ایک حقیقت ہے جو کسی درپیش معاملے میں سطحی سوچ کا پتھر رکھے، تکلیف دہ انداز میں رکاوٹ بنے نظر آئیں گے۔ شاید ایسے نادانوں بارے ہی، عقل مندوں اور داناؤں کے لیے حوصلہ و تشفی کا سامان کرتے ہوئے، علی المرتضی (ر) نے فرمایا تھا کہ:
”نادانوں کی بات پر صبر عقل کا صدقہ ہے۔“

ٹیگز