ہوم << آزمائش لازم ہے - ابو محمد مصعب

آزمائش لازم ہے - ابو محمد مصعب

ابومصعب قرآن پڑھنے یا سننے پر معلوم پڑتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک امتحان و آزمائش سےگزر رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی کو امتحان کی اس کیفیت کا ادراک و احساس ہے اور کسی کو نہیں، مگر یہ طے ہے کہ ہم میں سے ہر ایک بہرحال امتحان ہال میں کوئی نہ کوئی پرچہ ہاتھوں میں تھامے بیٹھا ہے اور اپنے پرچے کے جوابات تحریر کر رہا ہے۔
اس نرالے امتحان کی کچھ خصوصیات ہیں:
اول: یہ کہ اس میں ہر ایک کو ایک جیسا سوالنامہ دینے کے بجائے مخلتف پرچے دیے گئے ہیں۔
دوم: یہ کہ دورانیہ بھی سب کے لیے یکساں نہیں بلکہ ہر ایک کو مختلف مہلتیں ملی ہیں۔
سوم: یہ کہ یہ امتحان کسی ایک جگہ بیٹھ کر دینے کے بجائے ہر وقت چل رہا ہے، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، حتٰی کہ سوتے ہوئے بھی ہر امیدوار اپنے پرچے کے جوابات دے رہا ہے۔
چہارم: یہ کہ مہلت یا وقت ختم ہونے کے قریب ہو تو کسی قسم کا اعلان نہیں کیا جاتا بلکہ اچانک ہی پرچہ چھین لیا جاتا ہے۔
پنجم: یہ کہ اس امتحان ہال میں سب امیدوار ہی ایک دوسرے کے لیے آزمائش ہیں اور ہمہ وقت ایک سوال بن کر دوسرے کے سامنے موجود ہیں۔ مرد عورت کے لیے، عورت مرد کے لیے، بڑا چھوٹے کے لیے اور چھوٹا بڑے کے لیے، شوہر بیوی کے لیے اور بیوی شوہر کے لیے، باپ بیٹے کے لیے اور بیٹا باپ کے لیے، بیٹی والدین کے لیے اور والدین بیٹی کے لیے، بہن بھائی کے لیے اور بھائی بہن کے لیے، استاد شاگرد کے لیے اور شاگرد استاد کے لیے، مالک نوکر کے لیے اور نوکر مالک کے لیے، حاکم رعیت کے لیے اور رعیت حاکم کے لیے۔۔۔۔۔ غرض یہ یہ کہ ہر انسان دوسرے کے لیے ایک آزمائش اور امتحان ہے۔
ششم: یہ کہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، اس امتحان میں سے ہر ایک نےگزرنا ضرور ہے۔ کوئی اگر کچھ نہیں کر رہا یا کچھ نہیں لکھ رہا تب بھی وہ امتحان ہی دے رہا ہے۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ پرچے ہر ایک کو مختلف دیے گئے ہیں:
کسی کے پاس کثرت دولت کا پرچہ ہے تو کسی کے پاس تنگی داماں اور غربت کا۔
کسی کے پاس حسن و رعنائی کا پرچہ ہے تو کسی کے پاس قبح و بدصورتی کی۔
کسی کے پاس تنومند اور طاقتور جسم کا پرچہ ہے تو کسی کے پاس لاغر پن اور کمزوری کا۔
کوئی شادی کروا کر آزمایا جا رہا ہے تو کوئی مجرد اور غیرشادی شدہ رکھ کر۔
کوئی اپنے بیوی بچوں کے ذریعہ آزمایا جا رہا ہے تو کوئی بےاولاد اور بانجھ رکھ کر۔
کسی کو لامحدود فرصت اور فارغ البالی کا سوال درپیش ہے تو کسی کو بے انتہا مصروفیت کا جنجال۔
کسی کو کسی پر غلبہ اور تحکم دے کر آزمایا جا رہا ہے تو کسی کو کسی کا غلام، محکوم یا پھر محتاج رکھ کر۔
جس طرح کچھ دے کر آزمایا جاتا ہے اسی طرح کچھ چھین کر بھی آزمایا جا رہا۔ مثلا:
کسی سے نوکری چھین لی جاتی ہے، کسی سے اولاد واپس لے لی جاتی ہے، کسی کے مال میں گھاٹا ڈال دیا جاتا ہے، کسی کے جانوروں پر بجلی گرادی جاتی ہے، کسی کا جہاز ڈبو دیا جاتا ہے، کسی کو آبائی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کردیا جاتا ہے، کسی کی بینائی لے لی جاتی ہے، کسی سے صحت کی نعمت چھین لی جاتی ہے، کسی سے اس کی پسندیدہ گاڑی یا سواری واپس لے لی جاتی ہے۔
پھر، نیکی اور برائی کے مواقع دے کر بھی آزمایا جاتا ہے۔ جب برائی سولہ سنگھار کیے سامنے آ کھڑی ہو اور مال کی فراوانی باہوں میں باہیں ڈال کر بیلے ڈانس پر آماد ہو، جب رشوت، ملاوٹ اور چور بازاری میں ڈبکیاں لینے کا پورا پورا پورا موقعہ موجود ہو اور جب حق و باطل کی جنگ اپنے تمام تر امکانات، خطرات اور خدشات کے ساتھ سروں پر منڈلا رہی ہو تو اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کا بندہ جو پانچوں وقت ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ کا دعویٰ کرتا ہے، اپنے قول میں کس قدر سچا ہے۔
اسی لیے قرآن کہتا ہے:
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اِتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ”ہم ایمان لائے“ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ (عنکبوت: آیت:۲)
خلاصہ کلام یہ کہ ہم میں سے ہر ایک یہ دیکھے کہ اس کے ہاتھ میں کون سا پرچہ ہے اور وہ اس پرچے میں موجود سوالات کے کیا جوابات تحریر کر رہا ہے۔
یہ امتحان اتنا طاقور فیصلہ کن اور اہم ہے کہ اپنے امیدوارکو پھر چاہے وہ کتنا ہی بدصورت، غریب، مسکین یا محتاج کیوں نہ ہو، ککھ پتی سے لکھ پتی بنا دینے کی پوری قدرت، صلاحیت اور قوت رکھتا ہے، جس کے لیے صرف دو چیزیں درکار ہیں اور وہ ہیں تقویٰ اور اخلاص نیت۔

Comments

Click here to post a comment