ہوم << جاپان میں دین اسلام کی تاریخ-محمد عرفان صدیقی

جاپان میں دین اسلام کی تاریخ-محمد عرفان صدیقی

muhammad-irfan-siddiqui
جاپان کا سرکاری مذہب تو بدھ مت ہی ہے لیکن جاپانی عوام کے لئے مذہب بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور یہاں کے لوگ انسانیت کو ہی اپنا مذہب قرار دینا پسندکرتے ہیں بہ نسبت اپنے آپ کو بدھ مت کہلانے کے ، جاپان دنیا کا پر امن ملک ہونے کے ساتھ ساتھ تمام مذاہب کے احترام کے حوالے سے بھی شہرت رکھتا ہے، جاپان میںمسلمانوں کی مجموعی تعدا د ایک اندازے کے مطابق ستر سے أسی ہزار کے لگ بھگ ہے جس میں جاپانی افراد کی تعداد دس ہزار کے قریب ہے باقی ستر ہزار مسلمانوں کا تعلق دنیا بھر سے یہاں آکر بسنے والوں میں سے ہے ، اس طرح مسلمان جاپان میں چھوٹی سی اقلیت کی شکل میں موجود ہیں تاہم مسلمانوں کو جاپان میں پوری طرح مذہبی آزادی حاصل ہے ،جاپان میں سو سے زیادہ مساجد قائم ہوچکی ہیں جہاں پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے ،جبکہ جاپان میں کئی امام بارگاہیں بھی قائم ہوچکی ہیں جہاں مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔نو اور دس محرم کو جلوس بھی نکلتاہے ۔
جاپان میں دین اسلام کی آمد کے حوالے سے کئی دعوے موجود ہیں تاہم چند مستند دعوئوں پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جاپان میں دین اسلام کی آمد گیارہویں صدی عیسوی سے ہوئی ،کچھ مستند تاریخی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ گیارہویں صدی عیسویں میں ایک مسلم نقشہ ساز جس کا نام محمود کاشغر تھا نے ایک سفر کے بعد جو نقشہ تیار کیا اس میں جاپان کو دکھایا گیا ہے اور اس کی تفصیلات میں اس نے واضح طور پرجاپان کو وک وک کے نام سے ظاہر کیا جس میں تحریر تھا کہ یہ سرزمین بے انتہا وسائل سے مالا مال ہے یہاں سونے کے ذخائر ہیں، جبکہ یہاں کے لوگ اپنے پالتو جانوروں کو سونے کی زنجیر سے باندھتے ہیں اور ان کے گلے میں بھی سونے کا پٹہ لگاتے ہیں ،وک وک یعنی جاپان میں بہترین کپڑا تیار کیا جاتا ہے جبکہ یہاں قیمتی لکڑی کی بھی بہتات ہے غرض جاپان کے حوالے سے کافی تفصیلات اس ریکارڈ کا حصہ ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے مسلمانوں کی جاپان آمد گیارہویں صدی میں ہوچکی تھی ، ُپرتگال کی تاریخ کے حوالے سے تاریخ داں لکھتے ہیں کہ پرتگال کے بحری تجارتی جہازوں کے ذریعے عرب مبلغوں نے پندرہویں صدی عیسویں میں دین اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں جاپان کا سفرکیا تھا ۔
جاپان کی جدیدتاریخ کے مطابق اٹھارہویں صدی عیسوی میں انڈونیشیا کے افراد جو برطانیہ اور ہالینڈ کے بحری جہازوں پر ملازمت کرتے تھے انھوں نے جاپان میں رہائش اختیار کی، جبکہ 1870میں حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کے حالات زندگی اور دین اسلام کی بنیادی تعلیمات پر مبنی کتاب کا جاپانی زبان میں ترجمہ کیا گیا جس سے جاپان میں دین اسلام کو پھیلانے میں مددملی ،تاہم جاپانی عوام نے دین اسلام کو بطور تاریخ اور عرب ثقافت کے طور پر جاننے میں دلچسپی ظاہر کی ، مذہب کی تبدیلی بہت زیادہ نہیں دیکھی گئی ،جاپان کا پہلا مسلمان شہری جو مسلمان ہوا اور حج کی سعادت حاصل کی اس کا نام کوتارو یامائوکا تھا جس نے 1909میں بھارت کے شہر ممبئی میں روسی مسلمان شہری سے متاثر ہوکر دین اسلام قبول کیاجس کا اسلامی نام عمر یامائوکا رکھا گیا ،عمر یامائوکا نے ہی 1910میں ٹوکیو میں مسجد کی بنیاد رکھی جو 1938ء میں مکمل ہوئی ، ایک اور جاپانی شہری جس نے اسلام قبول کیا اس کا نام بنپاچیرو اریگا تھا یہ بھی اٹھارہویں صدی میں تجارت کی غرض سے بھارت گیا اور وہیں مقامی مسلمانوں سے متاثر ہوکر دین اسلام میں داخل ہوا اور اس کا نام احمد اریگا رکھا گیا ،بھارت میں ہی اگلا مسلمان ہونے والا جاپانی شہری بیس سالہ یامادا تائوجیرو تھا جس نے 1892 میں اسلام قبول کیا اور اس کا اسلامی نام عبدل خلیل رکھا گیا اور اس نے اسی سال حج کا فریضہ ادا کیا ،چند جاپانیوں کے مسلمان ہونے کے باوجود جاپان میں اسلام اس تیزی سے متعارف نہ ہوسکا جس کا خیال کیا جارہا تھا تاہم انیسویں صدی کے شروع میں وسطی ایشیا سے بڑی تعداد میں مسلمان شہری جاپان میں پناہ گزین ہوئے جنھیں جاپانی حکومت نے کھلے دل کے ساتھ پناہ دی اور جاپان کے مختلف شہروں میں بسنے میں ان کی مدد بھی کی ، تقریباََ ان چھ سو مسلمانوں نے جاپان میں دین اسلام کے فروغ کے لئے کام کیا اور بڑی تعداد میں جاپانی شہریوں نے دین اسلام میں داخل ہونا شروع کردیا ، اسی دوران جاپان کی قدیم ترین عبادت گاہ کوبے مسجد بھی تعمیر کی گئی جو 1938میں مکمل ہوئی ۔
جاپان میں دین اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے جاپان مسلم لیگ کاقیام 1930میں عمل میں آیا جسے جاپانی زبان میں دائی نیہون کائی کو کیوکائی بھی کہاجاتا ہے یہ تنظیم پہلی آفیشل اسلامی جماعت کے طورپر وجود میں آئی ،اس تنظیم کے قیام سے جاپانی عوام میں دین اسلام کو جاننے کا شوق پیدا ہوا اور اسی تنظیم کی جانب سے جاپانی زبان میں سو سے زائد کتابیں اور جرنل شائع کیے گئے جس میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کو جاپانی زبان میں بیان کیا گیا تھا ،اس ہی تنظیم کی جانب سے دنیا کے کئی اہم اسلامی اسکالرز اور عالم اسلام کی سیاسی قیادت کو جاپان کے دورے پر بلوایا گیا اور جاپان کو دین اسلام کے قریب کرنے کے لئے اہم فیصلے کیے گئے ،جاپان کی اہم شخصیت شومے اوکاوا جنھیں دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی افواج نے جنگی جرائم کا اولین ملزم قرار دیا تھا انھوں نے نہ صرف دین اسلام قبول کیا بلکہ جیل میں ہی قرآن مجید کا جاپانی زبان میں ترجمہ بھی کیا ،شومے اوکاوا کو خواب میں حضور اکرم ﷺ کی زیارت حاصل ہونے کی بھی سعادت حاصل ہوئی تاہم بعد میں انھیں معافی دے دی گئی اور انھو ںنے خاموشی سے دین اسلام کی تبلیغ جاری رکھی اور 1955میں ان کا انتقال ہوا۔

Comments

Click here to post a comment