ایدھی کے اسلام کے حوالے سے جو بحث سوشل میڈیا پر چل نکلی ہے۔ اس سے مجھے تولگاکہ ایدھی کی موت بھی کہیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش ہی نہ ہو۔خیر، میرا خیال ہے کہ یہ ہمارے بعض پاکستانی بھائیوں کی اسلام کے بارے حساسیت کامظہر ہے۔ بہرحال اس حوالے سے چند گزارشات اور کچھ اسلامی حوالے ذہن میں آئے ہیں ۔ آئیے ان پر نظر ڈالتے ہیں:
1۔ایدھی کے ابا مسلمان تھے ۔ مجیب الرحمٰن شامی صاحب
ایدھی ایک مسلمان تھا،اس کی داڑھی اور اسلامی نام عبدالستار ہونے کے علاوہ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے اپنے کالم میں لکھاکہ ان کے اجداد کئی برس پہلے ہندو سے مسلمان ہوگئے تھے اور اسی باعث برادی سے مسلمان ہونے والے ان کے باپ داد نے اپنے نام کے ساتھ ’مومن لکھنا ‘ شروع کر دیا تھا۔ جو بعد میں ہوتے ہوتے میمن ہوگیا۔ آج کراچی میں آباد اسی برادری کو میمن برادری کہا جاتاہے۔
2۔ایدھی خود بھی اللہ کو مانتا تھا۔ ارشاد عارف صاحب
ایدھی خود بھی اللہ کو مانتا تھا۔ اس کی زندگی کے علاوہ اس کا ثبوت ایک ثقہ صحافی جناب ارشاد عارف کے کالم سے بھی مل جاتاہے۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ کسی نے ایدھی سے نوبل انعام کے حوالے سے بات کی تو اس نے جواب میں فرمایا ، میں نے یہ کام نوبل انعام کے لئے نہیں ، اللہ کی رضا کے لئے کیا ہے۔ میرا اللہ راضی ہو جائے یہی میرے لئے نوبل انعام ہے۔
3۔ایدھی قادیانی ،نہیں نمازی تھا۔رعایت اللہ فاروقی صاحب
ایک فورم پر سوال اٹھایا گیا کہ کیا کسی نے اسے نماز پڑھتے دیکھا؟ اس کا چشم دیدجواب ایک مزید مذہبی ثقہ صحافی جناب رعایت اللہ فاروقی صاحب نے بڑی وضاحت کے ساتھ دیا۔ انھوں نے کراچی میں ختم نبوت کے دفتر کی ایک قدرے آبادی سے ہٹ کے واقع مسجد میں ایدھی صاحب کو باجماعت اور کبھی لیٹ ہونے کی صورت میں اکیلے نماز پڑھتے متعدد بار دیکھا۔انھوں نے ایدھی صاحب کو متعدد علماکے جنازوں میں بھی دیکھا۔انھوں نے واضح کیا کہ ایدھی صاحب مسلمانوں کے حنفی مکتبِ فکرکے مطابق نماز اد اکرتے تھے۔ (واضح رہے آخری اطلاعات کے مطابق یہ مکتبِ فکربھی نہ آغا خانی ہے اور نہ قادیانی۔یہاں تک کہ وہابی یا شیعہ تک نہیں!یہ صرف حنفی ہے۔)
4۔ایدھی کی داڑھی ۔آصف محمود صاحب اور آپ سب صاحبان
ایدھی نے داڑھی رکھی تھی (جیساکہ آپ کو تصویر میں بھی نظر آتی ہے۔ویسے داڑھی سکھ بھی رکھتے ہیں مگر ان کے سکھ ہونے کے بارے میں میرے پاس کوئی اطلاع نہیں ۔آپ کے پاس ہو تو شیئر کیجئے گا۔)اسی بنا پر جیسا کہ معروف اینکر ، کالمسٹ اور مصنف آصف محمود صاحب نے اپنے کالم میں لکھاکہ وہ اسی داڑھی کی بنا پر خود کو چھوٹا موٹا مولوی سمجھتے تھے۔انھوں نے چھوڑ جانے اور سونا لیکر فرار ہونے والی بیوی کے بارے میں فرمایاکہ اس نے ایک مولوی ہی سے شادی کرناتھی ،تو مولوی تو میں بھی تھا۔(مزیدواضح رہے کہ ایدھی کو کئی بار مختلف ائیر پورٹس پر روکا گیا۔ جس کی وجہ خود ایدھی صاحب نے اپنی داڑھی کو قرار دیا۔ایدھی نے کم ازکم زندگی میں تو اس کے باوجود داڑھی نہیں کٹوائی ۔ قبر کی کی کوئی بریکنگ نیوز آپ کے پاس ہو تو از راہِ کرم اس قومی امانت کو جلد طشت از بام کیجئے گا۔ )
اب رہی یہ بات کہ ایدھی نے مختلف موقعوں پر انٹرویوز میں کچھ ایسی باتیں کیں جن سے اسلام کے بارے میں بعض حساس یا دوسروں سے زیادہ بہتر مسلمانوں کو لگا کہ معاملہ مشکوک ہے تو اس سلسلے میں چند مزید گزارشات ہیں۔ (گزارشات در گزارشات!)
پہلی بات۔ ایدھی ایک ان پڑھ آدمی تھے ۔ دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے ۔وہ بس ایک عملی کارکن تھے او ردین کے بارے واجبی معلومات رکھنے والے تھے۔
دوسری بات۔ ایدھی ایک جولی اور مذاق کے عادی شخص تھے ۔ جیساکہ آصف محمود صاحب کا کالم اس بات کی گواہی دیتاہے۔یہ کالم یہی دلیل پر ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔
تیسری بات۔ ایدھی صاحب اپنے مشن سے اتنے کمٹڈ تھے کہ انھیں سوائے اس مشن کے کچھ اورصاف نظر نہ آتاتھا۔ خدمت میں ان کی منزل تصوف کی زبان میں ’فنا فی الشیخ ‘والی تھی ۔(سلفی احباب ناراض نہ ہوں ۔وہ اسے کسی اور اصطلاح میں ترجمہ کر کے پڑھ لیں۔)
آخری بات۔ اب آپ اس سیاق میں دیکھئے ۔(بلکہ آپ کو تو خیر یہ نہیں دیکھنا چاہئے ۔ یہ دراصل کسی حساس اور اعلیٰ مقام والے عالم کے کرنے کا کام ہے۔ آپ کوتو صرف دوسروں کو مسلمان کرنے تک محدود رکھنا چاہئے۔) ایک واجبی تعلیم رکھنے والا ، ایک مذاق پسند آدمی اور ایک خدمت میں جنون کے درجے تک پہنچا ہوااللہ رسول کو ماننے والا شخص اگر کوئی بات کرتاہے تو اسے اسی سیاق میں کیوں نہ دیکھاجائے ۔ویسے بھی ایک مو من کومثبت اور حسن ظن والے زاویۂ نگاہ ہی کو ترجیح دینی چاہئے ۔ جہا ں تک بھی تاویل ہو سکے۔ اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے اور مسلمان علماء و ائمہ نے کسی بھی شخص کے کچھ بنیادی اسلامی اور انسانی حقوق ابھی تک غصب ہونے سے بچا رکھے ہیں۔ اللہ انھیں جزا دے۔مثلا ایسا کچھ کہنے والے سے اس کے الفاظ کی وضاحت لی جائے گی اور الفاظ کے پسِ پردہ نیت پوچھی جائے گی،یہاں تک کہ اگر کوئی اپنے صریح لفظوں کے بارے بھی کہہ دے کہ میرا ان سے وہ مطلب نہیں تواس ضمن میں اس کی بات قبول کی جائے گی۔
سوشل میڈیا پر بعض جیالہ صفت احباب کی طرف سے ایدھی کی چند مشہورخلاف اسلام کاروائیاں یہ بیان ہورہی ہیں:
وہ نماز نہیں پڑھتاتھا۔ وہ خدمت کو ہی سب کچھ سمجھتا تھا۔ اس نے حج نہیں کیا تھا۔ اس نے آنکھیں عطیہ کر دیں ۔ا س نے اپنے ہی کپڑوں میں دفن ہونا پسند کیا۔ اس نے قبر پہلے سے کھدوا رکھی تھی۔ وہ غیر مسلموں کا بھی علاج کرتاتھا۔وہ قادیانی تھا۔وغیرہ وغیرہ۔
جن چیزوں کی تصریح ہوگئی۔ ان کے علاوہ کے بارے میں مسلمانوں کوحسنِ ظن رکھنا چاہئے ۔ مثلاً حج صاحبِ استطاعت پر فرض ہے۔ دو جوڑے کپڑے اور کبھی نہ تنخواہ لینے والے کو اس سے مستثنی ٰ سمجھا جا سکتاہے۔ جہاں تک خدمت کو ترجیح دینے کی بات ہے،تو کسی کام میں کھب اور کھپ گئے شخص پر کبھی ایسا وقت بھی آجاتاہے کہ وہ ’رانجھا رانجھا کردی میں آپے رانجھا‘ ہوئی کی کیفیت میں پہنچ جاتاہے۔اس کیفیت میں مبتلا ہونے اور شعائر اسلام کا انکار کرنے میں زمیں آسمان کا فرق ہے۔ یہاں اس کے خیالات کی و اعمال کی بات نظریاتی یا اعتقادی سے زیادہ عملی اور انفرادی ہوجاتی ہے۔ممکن ہے آپ کو یاد ہو جب جہاد کا موسم چل رہاتھا تو جوش میں آکے بعض مقرر یہاں تک کہہ دیتے تھے کہ دینی مدارس نے ہمیں کیا دیا ہے؟ ان کے سلوگن ہوتے تھے کہ مرے ہاتھوں سے کتابیں گر جاتی ہیں۔ (حالانکہ ان میں دینی کتابیں ہو سکتی تھیں۔)وغیرہ وغیرہ ۔تو جیسے انھیں برداشت کیا ویسے ایدھی صاحب کو بھی تھوڑی سی گنجائش دے دیجئے۔ جب کہ زندگی میں آپ نے صراحت مانگی نہیں ،اور اب وہ آپ کے بجائے اللہ کے سپرد ہیں۔اپنی قبر کی جگہ سیدہ عائشہؓ نے بھی خاص کر رکھی تھی جو بعد میں سیدنا عمرؓ پر ایثار کر دی۔ کفن سیدنا ابو بکرؓ نے بھی اپنے استعمال کی پرانی چادروں میں لینے کی وصیت کی تھی۔سیدہ عائشہ نے کچھ کہاتو فرمایا،نئے کپڑوں کی زندوں کو زیادہ ضرورت ہے۔آنکھوں کو عطیہ کرنے کے حوالے سے فقہا باہم مختلف رائے رکھتے ہیں ۔ کچھ خلاف ہیں تو کچھ حق میں ۔ جب ایسی صورت ہو تو فتوی ٰ نہیں لگایا جاتا۔پسندیدہ فتوے کو مان لیا جاتاہے۔(جاری ہے)
ماشاءاللہ۔ یوسف بھائی بہت اچھے طریقے سے خود ساختہ ابہام کی بہترین طریقے سے وضاحت کر دی۔ جزاک اللہ۔اللہ ذورِ قلم میں مزید اضافہ فرمائے۔آمین