ہوم << مغربی کرکٹ ٹیمیں ایشیا میں کیوں ناکام ہو رہی ہیں؟ عمر فاروق

مغربی کرکٹ ٹیمیں ایشیا میں کیوں ناکام ہو رہی ہیں؟ عمر فاروق

عمر فاروقٹیسٹ کرکٹ میں آسٹریلیا کی سری لنکا کے ہاتھوں ہوئی یادگار شکست کے بعد نیوزی لینڈ بھی انڈیا سے وائٹ واش کروانے کے لیے تیار ہے. آسٹریلیا کو ایشین کنڈیشنز میں کوئی ٹیسٹ میچ جیتے ہوئے بھی 5 سال بیت چکے اور اس نے 2008ء سے لے کر 2016ء تک کھیلے گئے 18 ٹیسٹ میچز میں سے صرف 1 جیتا، 13 ہارے اور 4 ڈرا کیے ہیں جبکہ پچھلے مسلسل 9 ٹیسٹ میچز میں شکست کا ذائقہ چکھا ہے. کم و بیش یہی حال انگلینڈ اور ساؤتھ افریقہ وغیرہ کا بھی ہے.
کیا ایشین کنڈیشنز اتنی ہی خطرناک ہوچکی ہیں کہ یہ ٹیمیں سروائیو ہی نہیں کرپاتیں؟ جب اس بات کا موازنہ ایشین پلیئرز کی اپنی کارکردگی سے کیا جاتا ہے تو اس کے بالکل مختلف صورتحال نظر آتی ہے. فاسٹ باؤلرز ریورس سوئنگ سے جبکہ سپنرز اپنے سپن کے جال میں دوسرے بلے بازوں کو ایسا پھانستے ہیں کہ پھر ان سے سوائے پچز کے بارے میں کمپلین کرنے کے کوئی بات نہیں بن پاتی. جبکہ انھی پچز پر ایشین بیٹسمین رنز کے انبار لگا رہے ہیں، اور ایک ایک سیریز میں ریکارڈ سنچریاں بھی بنا رہے ہیں.
مہمان یعنی مغربی ٹیموں کی بیٹنگ کی اگر بات کی جائے تو ان کے بلے باز اپنی اننگز کی شروعات فاسٹ باؤلنگ کے خلاف کرنے کے عادی ہوتے ہیں، اور لیکن جب ایشین کنڈیشنز میں سپنرز کے خلاف شروعات کرنی پڑے تو ان کے لیے اپنی وکٹ بچانا ہی مشکل تر ہوجاتا، کیونکہ سپنر کے خلاف کھیلنے کے لیے قدموں کا استعمال اور گیند کی لینتھ کا سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے. کیونکہ انہیں اس چیز کی اتنی پریکٹس نہیں ہوتی تو اس صورتحال سے نکلنے کے لیے وہ سلاگنگ کرتے یا کراس کھیلتے ہوئے سویپ شاٹ کا سہارا لیتے ہیں، اور آسان شکار ثابت ہوتے ہیں. انڈین آف بریکر ایشون تیز ترین 200 وکٹیں اور پاکستانی سپنر یاسر شاہ ابتدائی چند ٹیسٹ میچز میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا ریکارڈ ایسے ہی بلے بازوں کے خلاف کھیل کر بنا چکے ہیں جبکہ سری لنکن رنگنا ہیراتھ کی کارکردگی بھی مثالی ہے.
آسٹریلیا نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے برسبین میں سپیشل ٹرننگ وکٹ کا انتظام کیا اور اپنے پلیئرز کو اس پر کھلانے اور پریکٹس کروانے کا سلسلہ شروع کیا لیکن ان کے پلیئرز ابھی بھی ایڈجسٹ نہیں کر پا رہے کیونکہ میچ سچویشن کے پریشر میں کھیلنا اور پریکٹس وکٹس پہ کھیلنا، جہاں آئوٹ ہونے کا ڈر نہ ہو، ایک بالکل مختلف چیز ہے. اسی طرح کوالٹی سپنرز کے نہ ہونے کی وجہ سے باؤلنگ مشینز کا بےتحاشا استعمال بھی شروع کیا گیا جو کہ ابھی تک مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام ہے.
مغربی ٹیمیں اپنے ٹوورز میں کوچنگ کنسلٹنٹ کے نام سے اسی ٹیم کے متعلق علم رکھنے والے مقامی افراد کو بھی مختصر عرصے کے لیے ہائیر کرنے لگی ہیں. ان میں مہیلا جےوردھنے، ثقلین مشتاق اور مرلی دھرن وغیرہ کے نام قابل زکر ہیں. یہ پلیئرز چونکہ پروفیشنلز ہوتے ہیں اس لیے اپنی ڈیوٹی تو سرانجام دیتے ہیں لیکن جدید کوچنگ ٹیکنیکس یا سائیکلوجیکل حوالے سے یہ طریقے بھی کسی نہ کسی حد تک اپنا کردار ادا کر رہے ہیں.
ٹورنگ ٹیمز کی باؤلنگ کا جہاں تک تعلق ہے تو سب سے بڑی کمزوری جو ان ٹیمز میں نظر آتی ہے، وہ ٹیسٹ کوالٹی سپنرز کی ہے جو اپنی ٹیمز کے لیے بالکل وہی کارکردگی سرانجام دے سکیں جو ایشین سپنرز اپنی ٹیمز کے لیے سرانجام دیتے ہیں. معین علی یا عادل رشید اکیلے میچ جتوانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے. اسی طرح ناتھن لائن آسٹریلیا کو کبھی بھی ایشیا میں فتح نہیں دلوا سکے. فاسٹ باؤلنگ کے معاملے میں بھی سوائے مچل سٹارک، جیمز اینڈرسن اور ڈیل سٹین کے کوئی ایک بھی بالر میچ وننگ کارکردگی دکھانے کے قابل نظر نہیں آتا. اکیلے فاسٹ بالر کے لیے ٹیم کو ایشین کنڈیشنز میں جتوانا اگر ممکن ہوتا تو سٹارک کی موجودگی میں آسٹریلیا اور اینڈرسن کی موجودگی میں انگلینڈ شکست سے دوچار نہ ہوتے.
ایشین ٹیمز کی جہاں تک بات کریں تو پچھلے کچھ عرصے میں خاص کر پاکستان اور انڈیا کی کارکردگی آسٹریلیا اور انگلینڈ وغیرہ میں اتنی بری نہیں رہی جتنی بری کارکردگی وہ ٹیمیں ایشین کنڈیشنز میں دکھاتی ہیں. حال ہی میں پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف سیریز انگلینڈ میں ڈرا کی بلکہ ساؤتھ افریقہ میں پہلی بار ون ڈے سیریز بھی اپنے نام کی. مغربی ٹیموں کی ایسی پرفارمنسز ایشین شائقین کے لیے تو بہت خوش آئند ہیں لیکن اپنی ہوم کنڈیشنز کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی حد مقرر کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا جا رہا ہے.

Comments

Click here to post a comment