ہوم << ٹوئٹر یاترا - مولوی روکڑا

ٹوئٹر یاترا - مولوی روکڑا

غنودگی طاری ہوئی تو خود کو ٹوئٹر پر پایا. کیا دیکھتا ہوں کہ تحریک انصاف کے ٹرینڈ میکر ہر روز کسی نئے ٹرینڈ کے ساتھ کسی نہ کسی کی عزت نیلام کر رہے ہیں، پھر سوچا کاش الیکشن بھی ٹوئٹر پر ہوتے تو جناب عمران خان صاحب آج دھاندلی دھاندلی تو نہ کر رہے ہوتے. اس میں شک تو کوئی نہیں کہ اس الیکشن میں دھاندلی ہوئی، لیکن کیا کرے ہمارا ملک کا نظام دھاندلی کے بنا چل ہی نہیں سکتا، اس لیے خان صاحب کوشش تو اچھی کر رہے ہیں، لیکن ان کے ساتھ جو چمچے ہیں وہ بھی تو دھاندلی زدہ ہی ہیں.
خیر پھر کیا دیکھتا ہوں کہ مسلم لیگ کے نون میم عمران خان کی ذاتی زندگی سے لے کر ریحام خان کے ماضی تک کو نندی پور پراجیکٹ کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں، اسی وجہ سے سیاست ڈاٹ کام پر بھی پاپندی لگا دی گئی. مسلم لیگ نون نے پنجاب کو اگر کچھ نہ دیا تو شہباز شریف جیسا خادم ضرور دیا، لمبے بوٹ ہوں یا پھر فوری نوٹس کی پھرتیاں اس میں جناب پیش پیش رہتے ہیں. لیکن عملی طور آج تک خادم اعلی نے جتنے بھی نوٹس لیے ان کا کوئی رزلٹ نہیں نکلا. پنجاب پولیس کی غنڈہ گردی تو پنجاب کی شان ہے اس کے خلاف آواز اٹھانا گناہ کبیرہ ہے، یہی وجہ ہے ماڈل ٹاؤن کے لوگوں کو وہ سبق سیکھایا کہ طاہر القادری صاحب اپنا کفن ساتھ ہی لے گئے اور رانا ثنا اللہ کا کچھ نہ بگڑا! مریم نواز کو ٹوئٹر پر دیکھ بہت خوشی ہوئی لیکن آج تک ان کے ایک بھی ٹویٹ کی سمجھ نہیں آئی. مسلم لیگ کی تجربہ کار ٹیم بھی ٹوئٹر پر موجود ہے، ان میں سب سے محترم ہمارے عابد شیر علی صاحب ہیں جو ٹویٹ کا آغاز تلاوت کے ساتھ کرتے ہیں، نیک پرہیزگار اتنے ہیں کہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے، اور نہ ہی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، لیکن اگر ان سے کوئی جھوٹے بجلی کے بحران پر ٹویٹ کرنے کی جسارت کر لے تو یہ کہاوت صادق آتی ہےکہ آ بیل مجھے مار. مسلم لیگ نون نے عوام کے لیے کچھ اگر نہیں بھی کیا تو کوئی بات نہیں لیکن اشتہاری سکیمیں جتنی مسلم لیگ کے دور میں نکلی اتنی ہی جلدی یہ سکیمیں اپنے اختام کو بھی پہنچی ہیں، یعنی چت بھی ان کی ہے پٹ بھی ان کی ہے جیت ان کی ہے مات میری، بہرحال مسلم لیگ نون نے پاکستان کو ایسا صدر پاکستان دیا جو صدارت کے عہدے پر ایک زندہ لاش کی مانند ہیں، جس کی ایک تصویر لاکھوں کی بنی، لیکن صدر صاحب کا نہ تو سایہ محسوس ہوتا اور نہ دھوپ، اور پرویز رشید صاحب کو عمران خان کی کانفرنس کے بعد کانفرنس کرنے کی فرصت ہی کہا، اگر دن میں عمران خان پچاس بار پریس کانفرنس کرے گا، تو پرویز رشید صاحب اکیاون بار تو ضرور کریں گے چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے . پرویز رشید صاحب واحد وزیر اطلاعات ہیں جو انڈین فلموں کی امپورٹ کے لیے exempt permit دیتے ہیں ورنہ پاکستان کے امپورٹ کے قانون میں انڈین فلموں کی امپورٹ پر مکمل ممانعت ہے .
تھوڑا آگے جان ہوا تو نعروں کی گونج کی وجہ سے غنودگی میں خلل محسوس کیا، پیچھے مڑ کر دیکھا تو پتا چلا کہ بھٹو زندہ ہے، تو یہ گڑھی خدا بخش میں کون دفن ہے جو بار بار زندہ ہو جاتا ہے. پانچ سال اس نعرے سے حکومت بھی کی لیکن روٹی ملی نہ کپڑا، اور جو مکان تھا اس پر قبضہ ہی ملا. سندھ جتنا قدیم ہے، اتنا ہی قدیم پیپلزپارٹی نے سندھ کو وزیراعلی سندھ دیا، اور تبدیلی آئی بھی تو شاہ کے بدلے شاہ ہی دیا. وزیرداخلہ کے کیا کہنے، جب سے انور سیال صاحب وزیر داخلہ سندھ بنے تب سے موصوف نظر ہی نہیں آتے، بس ایک دفعہ فریال تالپور صاحبہ کا پرس اٹھائے کچھ تصویریں دیکھی تھی. مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ جناب دیکھتے کیسے ہیں. کیا پتا اب کچھ ڈھنگ کے کپڑے پہنتے ہوں. دوسری طرف فریال تالپور صاحبہ منظرعام سے ایسے غائب ہوئیں کہ اب تو عوام کو بھول گیا ہوگا کہ وہ قومی اسمبلی کی منتخب رکن ہیں. شرجیل میمن صاحب کے ٹوئٹر پر صرف بھٹو خاندان کی تعریفوں کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا، ہاں کچھ دن پہلے شرجیل میمن صاحب شادی ہال توڑ رہے تھے، پھر ایسے غائب ہوئے جیسے اربوں کے نقصان کی وجہ سے درویشی اختیار کر لی ہو . ہائے رے ستم بلاول نے پارٹی سنبھالی تو بار بار اجراء سیاست کا جلسہ کرنا پڑھا ، پھر وہ نہ پرویز ہوئےنہ پروین !
یہ سلسلہ جاری تھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار ٹوئٹر پر نظر آ گئے، پھر کیا تھا، میں نے سوچ لیا آج وہ دیوار دیکھ ہی لوں جس کے ساتھ مہاجروں کو لگایا جا رہا ہے، دیوار چین کا تو سنا دیوار مہاجر کا نہیں. تیسری جنریشن چل پڑی ہے اور متحدہ قومی موومنٹ ابھی تک مہاجر ہی ہے. دوسری طرف جماعت کے بانی جناب الطاف حسین بھائی اٹھارہ سال سے خود کو خود جلاوطن کرنے والےبرطانوی شہری بھی ہوگئے. بابر غوری صاحب سچے مہاجر تھے جو صولت مرزا کے بیانات کے بعد ایسی ہجرت کی کہ دوبارہ نظر نہ آئے. بہرحال ایم کیو ایم نے کراچی کو چائنا کٹنگ، بوری انویشن اور پرچیوں والے کھیل سے متعارف کروایا جس سے سیاسی اور مذہبی جماعتوں سمیت سب مستفید ہوئے.
ٹوئٹر پر سب سے زیادہ اکاؤنٹ میں نے جناب مولانا فضل الرحمان صاحب کے دیکھے، گستاخی کرتے ہوئے پوچھ لیا کہ ایسا کیوں؟ بس یہ گستاخی کرنے کی دیر تھی کہ جواب آیا، اے یہودی ایجنٹ! یہ اکاؤنٹ نہیں کرسی ہے جو بوقت ضرورت کسی بھی جماعت سے تحفظات دور ہونے کے بعد جمہوریت کی خاطر اس کے مل بیٹھ کر اس ہی کرسی پر ہم نظر آئیں گے. تھوڑا آگے جماعتی کارکن نظر آئے. جلسے جلوس بڑے لیکن ووٹ کوئی نہیں، پھر بھی پتا نہیں کیوں سیاست میں ہیں. سوچا کہ اے این پی کا چکر لگا لوں، پھر سوچا رہنے دو، یہاں سرخ ٹوپی اور کالا باغ ڈیم کو دفن کرنے کے سوا رکھا ہی کیا ہے.