اے میرے ہمدم!
اپنی ان 576 میگا پکسلز آنکھوں سے اگر یہ تحریر پڑھ لی تو سُن انسان جب پیدا ہوتا ہے، تو عمر کے ساتھ محتلف اعضا بڑے ہوتے جاتے ہیں. ناک، کان، ہاتھ پیر سب بڑے ہوجاتے ہیں، مگر یہ آنکھیں ویسے ہی رہتی ہیں. پیدائش کی عمر سے ان کا جو سائز ہوتا ہے، بڑھاپے تک وہی رہتا ہے.
39 ملین نابینا افراد میں سے اگر تم نہیں ہو، بینا ہو، یہ پڑھ رہے ہو، تو سمجھ لو کہ تمھارے کارخانہ جسم کو باہر کا ردعمل و منظر یہی آنکھ مہیا کرتی ہے.
آنکھ ہو کہ کان، یہ ہماری خواہشات کو فوکس کرنا جانتے ہیں. جب ایک ہرے بھرے باغ میں دور سے ایک پھول کو دیکھتے ہو، تو باغ وہیں ہوتا ہے، پر آنکھ اس پھول کو مطلوب جان کر اسے پیش منظر اور باقی گلستان کو پس منظر کردیتی ہے.
جب کسی محفل میں سب بول رہے ہوں، اور کوئی یار ہمدم بات کر رہا ہو تو یہی عمل کان اس محفل کی آوازوں کے ساتھ کرتا ہے. ساری آوازیں کان سنتے بھی نظرانداز کردیتا ہے، اور اسی ایک آواز پر فوکس لے لیتا ہے.
انسانی زندگی جستجو و مقاصد کے حصول پر عبارت ہے. یہ یکسوئی کی متقاضی ہے. ہم پیدا ہوتے ہیں، شعور لیتے ہیں، تو جستجو پر ہوتے ہیں. تجسس کی طلب ہمیں متحرک رکھتی ہے. کیوں، کیسے، کہاں، کب؟ اسی پر فہم کی عمارت اٹھتی ہے. اس عمارت کی بنیادوں پر ہم خواب دیکھنا شروع کردیتے ہیں. یہ خواب ہمیں خواہشات و مقاصد دیتے ہیں.
یہ آنکھ بد نظری کا آلہ نہیں کہ اس کی بدنظری مقاصد کوگرد آلودہ کردیتی ہے. اس میں فوکس کرنے کی صلاحیت ہے. اس فوکس کا زاویہ کنٹرول کرنے کی دو قوتیں ہم اپنے اسی کارخانہ جسم میں رکھتے ہیں. خیر و شر کی تعمیر و تخریب کی. شر اور تخریب کے نظام کے پس منظر میں شیطان لعین ہے. خیر و تعمیر کا نظام ربِ رحمان و کریم کا ہے. یہ دُنیا امتحان گاہ ہے. بنانے والے نے شیطان کو بھی قوت دی، انسان کو بھی قوت دی. انسان کو فہم دیا، شیطان کو دھوکے کے سامان. انسان مقصد زندگی پر فوکس کرتا ہے، شیطان مکڑی کا جال بُن کر اس میں عکسوں کی کہکشاں سجا کر اس فوکس کو بگاڑنے کی کوشش.
اے میرے ہمدم! ان آنکھوں کی نشانی کو پرکھ کہ پیدا ہونے سے جانے تک یہ اپنی ہیئت و جسامت پر یکساں ہیں. تو اپنے مقصدِ خیات پر ہی انھیں مرکوز رکھ کہ تب یہ دھوکے کی کہکشاں پسِ منظر میں چلی جاتی ہے، اور مقصدِ حیات پیش منظر ہی رہتا ہے، کیونکہ بدنظری جمع ہو کر مقصدِ حیات کو گرد آلود کرتی ہے، اور ایک وقت آتا ہے کہ مقصد پس منظر ہو جاتا ہے، اور دھوکے کے جال میں اُلجھ کر بندہ شیطان کی راہ کا مسافر ہوجاتا ہے.
اے رحمان و رحیم رب کے بندے! جب تک سانس ہے، ربِ کریم نے تجھے ہر سانس کے ساتھ اپنا فوکس صاف کرنے کا اسمِ اعظم بھی دیا ہے. وہ استغفار ہے. جب بھی یہ اسم دہراتے ہو، مقصد حیات کے شیشے سے گرد صاف ہوجاتی ہے. دوبارہ نئے سرے سے جستجو کا در کھل جاتا ہے. تو سجدہ کر، توبہ کر، منا لے اپنے رب کو اور پالے اپنا مقصدِ زندگی، کہ یہ دُنیا تو بس ایک دھوکا ہی ہے.
تبصرہ لکھیے