سنٹرل افریقی ممالک میں سرحدی دیہات میں بچوں کے ختنے کی ایک معروف رسم ہے جو فرنچ زبان کے لفظ ”کوچم“ (coutume) سے جانی جاتی ہے. عیسائیت کے مذہبی تہواروں یا سالانہ میلوں ٹھیلوں سے کہیں بڑھ کر خوش خروش اس کوچم کی اہمیت کا مظہر ہے. کوچم میں قریب قریب دیہات کی سبھی خواتین، بچے اور مرد روایتی جنگلی لباس پہنے چہرے پہ آڑھی ترچھی لکیریں لگائے اور سروں میں پرندوں کے پر ٹکائے ڈانس کرتے ہوئے شرکت کرتے ہیں. امیدواروں کا پہلے اعلان کر دیا جاتا ہے، انہیں دلہوں کی طرح تیار کیا جاتا ہے، خوب آؤ بھگت ہوتی ہے. والدین کے ذمے بہت سی شراب اور اگلے کئی دنوں تک کھانے کا بندوبست ہوتا ہے.
مقررہ دن ان پندرہ سے بیس سال کی عمر کے نوجوانوں جن کا ختنہ کرنا ہوتا ہے، کو بہت زیادہ شراب پلائی جاتی ہے، ڈھول کی تھاپ پر گھنٹوں ڈانس کیا اور کروایا جاتا ہے، دوستوں کی ٹولیاں انہیں باری باری کندھوں پر اٹھا کر ادھر سے ادھر سیر کرواتی ہیں. کثرت مے نوشی اور مسلسل جگراتے اور دھمالوں کی تھکن سے چور یہ لڑکے بالکل بھی اس جہاں میں نہیں ہوتے بلکہ شاید استغراق کی بلندیوں کو چھو رہے ہوتے ہیں کہ جب پادری کمال مہارت سے اپنے فن کا مظاہرہ کر دیتا ہے اور ان کی چڑی آسمان پہ اڑ جاتی ہے. اسی دوران انھیں کندھوں پہ اٹھا کر ناچ گانا اور بھاگ دوڑ شروع کر دی جاتی ہے کہ تکلیف اور خون بہنا سب ثانوی ہو جاتا ہے. جب تک اس امیدوار کو ہوش آتا ہے تب تک زخم مندمل ہونے والا ہو چکا ہوتا ہے اور لوگ گھروں کو لوٹ چکے ہوتے ہیں جبکہ چھوٹا سا گاؤں دوبارہ اپنی ویرانی اور افلاس کی جنت نظیر بن چکا ہوتا ہے.
یہ رسم جب بھی دیکھتا ہوں تو میرا ذہن تخیل کی سواری کرتے ہوئے فورا ہمارے کرتے دھرتوں کے چہرے ذہن میں بنانے لگتا ہے. میری آنکھیں مجھے ڈی ایس این جی پہ لگے کیمرے کی طرح سارے منظر اپنی مرضی کے دکھانے لگتی ہیں، مجھے شہرت کے نشے دھت ہمارے لیڈر اپنی اپنی خواہش میں ناچتے دکھائی دیتے ہیں. کیمرے کو توپ بنائے کمرشل بنیا انہیں بھر بھر کے شہرت جام پلاتا نظر آتا ہے اور یہ ہیجان کی آگ سے ساری دنیا کو جلا کر روشن کر دینا چاہتے ہیں.
چند سالوں تک کاروباری شعبدہ باز ایک کٹھ پتلی کو نجات دہندہ بنا کر عوام کے کندھوں پہ سوار کرتے ہیں اور انہیں ترقی اور خوشحالی کے جھوٹے جام و سبو سے مست رکھتے ہیں، پھر آہستہ آہستہ جب نشہ اترنے لگتا ہے تو یکایک اس نابغہ کی چڑیا آسمان پر اڑ چکی ہوتی ہے، عوام اپنے پیٹ کی فکر میں ادھر ادھر ہو جاتی ہے اور نابغے گمنامی کے اندھیروں میں اترنے لگتے ہیں، تب تک نئے امیدوار اور نئی رسم کا مقدس وقت آ چکا ہوتا ہے اور رسم تو کبھی چھوڑی نہیں جا سکتی، یہ چلتی رہے گی. آخر کچھ تو کرنا ہی ہے زندگی کو دھوکہ دینے کی خاطر، سو دے رہے ہیں.
تبصرہ لکھیے