جس ہاتھ میں وہ تسبیح پکڑے اللہ کا ذکر کر رہا تھا، اس کا وہ ہاتھ اس کی پیٹھ پر موجود تھا اور وہ بڑے انہماک سے ٹہلتے ہوئے ذکر میں مشغول تھا۔ اچانک ایک مولانا کی وضع والے شخص نے اسے اس طرح تسبیح پڑھتے دیکھ لیا۔ اس نے شور مچا دیا کہ دیکھو یہ تسبیح کو پیٹھ پیچھے رکھ کر اس کی توہین کر رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ شور زیادہ ہونے پر معاملہ بڑھتا اور سادہ لوح عوام بنا سوچے سمجھے اسے اپنی عدالت لگا کر فیصلہ اور سزا سنا کر اس پر عمل درآمد کرتی کہ مسجد کے ادب و احترام کے پیش نظر انھیں خاموش کرا دیا گیا۔ تسبیح والا شخص سہمے ہوئے ایک جانب بیٹھ گیا۔ بظاہر یہ چھوٹا سا واقعہ ہے، لیکن رونما ہو جانے کی صورت میں کس قدر بھیانک نتائج اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
انڈیا کی ریاست ہماچل پردیش کے دارالحکومت شملہ میں ایک بندر نے چیڑھ کے خوبصورت جنگل میں آنے والے سیاحوں پر کرنسی نوٹوں کی بارش کر دی۔ جنگل میں آنے والے سیاح ایک گھنٹے تک نوٹ اکٹھے کرتے رہے۔ اطلاعات کے مطابق دس ہزار روپے مالیت کی یہ بھارتی کرنسی ایک قریبی گھر سے چرائی گئی تھی۔ یہ بندر کھانے کی تلاش میں ایک گھر میں داخل ہوا، تاہم اسے کھانے کو تو کچھ نہ ملا تو وہ یہ کرنسی چرا کر لے گیا۔ بندر اپنے ہاتھ میں نوٹ پکڑ کر پہلے تو ایک ٹین کی چھت پر بیٹھا رہا پھر کچھ دیر بعد اس نے ایک ایک کر کے نوٹ لوگوں کی جانب پھینکنا شروع کر دیے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت کی اس ریاست میں تین لاکھ بندر ہیں. یہ جگہ ایک عرصے سے ان کے لیے جنت کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہندوؤں میں بندر کو مقدس (ہنومان) خیال کیا جاتا ہے اور وہ ان کی پرورش بڑے اہتمام سے کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران بندروں کے انسانوں کے ساتھ تنازعات میں تیزی آئی ہے اور وہ انسانوں پر حملے اور انھیں جانی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہماچل پردیش میں حکام نے بندروں کو ایک مصیبت قرار دیا ہے۔ سڑکوں پر گھومنا، شہریوں کو تنگ کرنا، سامان چرانا اور گھروں میں گھس کر چیزوں کی توڑ پھوڑ کرنا، غرضیکہ بندروں نے لوگوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ بندروں کی حد سے بڑھتی شرارتوں کے بعد ریاستی حکومت نے مرکزی حکومت سے بندروں کے خلاف ایکشن لینے کی اپیل کی جس کے بعد بندروں کو موذی جانور قرار دے دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں اب بندروں کو مارنے کی مہم چلائی جائے گی۔ کراچی کی سیاست بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کا شکار ہے۔ ایک ہنومان کی اندھی پیروی میں قلیل تعداد نے پورے کراچی کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کسی کی جان مال محفوظ نہیں ہے۔ چوری، ڈکیتی، غنڈہ گردی، بھتہ خوری اور قتل غرض ہر طرح سے شہریوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ ان موذیوں کی صفائی کا شائد اب وقت آ چکا ہے۔ عین ممکن ہے کہ جن ہاتھوں نے ان کی آبیاری کی ہے، انھیں ہی ان کا قلع قمع کرنے کا شرف حاصل ہو۔
ملک میں جب تک تعلیم کا حصول تمام لوگوں کے لیے آسان نہیں ہوگا، لوگوں میں شعور بیدار نہیں ہوگا اور جب تک نوجوان طبقہ برسر روزگار نہیں ہو گا اس وقت تک بےروزگار نوجوان اسی طرح کے لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے رہیں گے اور اسی طرح کے واقعات جنم لیتے رہیں گے۔ تعلیم اور روزگار مہیا کرنا یقیناً ریاست کی ذمہ داری ہے، جسے پورا کرنا بہرحال اسی کا کام ہے۔ جب ریاست اپنی اس ذمہ داری کو پوری طرح سے انجام نہیں دے پا رہی تو نوجوان طبقے کو آگے بڑھ کر اس معاملے میں ریاست کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ پڑھے لکھے افراد کو اپنے اردگرد دیکھنا ہو گا کہ کتنے بچے ایسے ہیں جو معاشی حالات کی وجہ سے اسکول نہیں جا پا رہے، وقت نکال کر اپنے علاقے کی سطح پر انھیں کسی جگہ پڑھانے کا انتظام کریں۔ یقین کیجیے اس طرح کی کوشش، محنت اور پڑھائی کے نتیجے میں ہی ایسے ایسے گوہر نایاب سامنے آتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ نوجوانوں میں کچھ ایسے افراد جو معاشی طور پر تھوڑا بہتر ہوں انھیں اپنے جیسے نوجوانوں کے لیے آگے بڑھ کر ان کے روزگار کے لیے کوشش کرنی ہو گی۔ مخیر حضرات کو آگے آ کر ان نوجوانوں کے لیے سود سے پاک چھوٹے چھوٹے قرضوں کا انتظام کرنا ہو گا۔ جس سے یہ لوگ کسی بھی قسم کی گھریلو انڈسٹری قائم کر کے یا چھوٹا موٹا کاروبار کر کے اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔ ہنر سکھانے کے لیے تعلیم یافتہ افراد کو ایسے اداروں میں داخلہ دلوایا جائے جہاں سے فراغت کے بعد یہ نوجوان معاشرے کے لیے بہتر شہری ثابت ہو سکیں۔
مذہب کے نام پر کسی پر بھی کسی بھی قسم کی توہین کا الزام لگا کر شہریوں کو جو سرعام سزا دے دی جاتی ہے، یہ بہت خطرناک صورت حال ہے۔ اس میں نام نہاد علماء حضرات جو کردار ادا کر رہے ہیں، اس کا سدباب ہونا چاہیے۔ ملکی سطح پر جمعے کے اجتماعات کا انعقاد کیا جائے۔ ریاست کی جانب سے جمعے کا خطبہ تفویض کیا جائے اور اس کی روشنی میں واعظ حضرات کے ذریعے سے اردو میں لوگوں کی اصلاح کی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ عوام میں قانون کے احترام کا شعور اجاگر کیا جائے۔ انھیں بتایا جائے کہ قانون کو کسی قسم کی صورت حال میں بھی اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔ جو کام قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہے، وہ انھی کو کرنا ہے۔ عوام کا کام قانون کی پاسداری کرتے ہوئے غلط افعال کی نشاندہی کرنا ہے نہ کہ اپنی ہی عدالت لگا کر فیصلہ صادر فرما کر سزا دے دینا۔ یہ جو غلط رجحان چل پڑا ہے، یہ امن عامہ کے لیے بہت خطرناک ہے، اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی تو عین ممکن ہے کہ یہ آگ ہمارے اپنے گھروں تک بھی پہنچ جائے۔
تبصرہ لکھیے