خواتین پہ جبر کے ماخذ کیا ہیں؟ اور ہم کس طرح اِن کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ یہ سوالات ایک ایسے سماج میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں جہاں عورتیں دوہرے ظلم کا شکار ہیں؛ یعنی بطور ایک عورت بھی اور بطور محنت کش بھی. لیکن ہمیں اکثر یہ جتلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ معاملہ اب ماضی کا رجحان بن چکا ہے کیونکہ آج عورتوں کے لیے ملازمت کے مواقع بہت زیادہ ہیں اور عورتیں پہلے کی نسبت کافی آزاد ہو چکی ہیں. لیکن لوگوں کی اکثریت حقیقتِ احوال سے واقفیت رکھتی ہے کہ عورتوں کے لیے سماجی رشتے سکھ کا سبب نہیں ہیں. صرف برطانیہ ہی کی مثال لے لیں کہ جہاں خواتین کو مرد ملازمین کی نسبت 20 فیصد کم تنخواہ دی جاتی ہے اور ساتھ ہی ملازمت پیشہ خواتین سے صفائی اور بچوں کی دیکھ بھال جیسے گھریلو کاموں کی بھی توقع کی جاتی ہے.
بلاشبہ گذشتہ صدی کی نسبت خواتین نے اعلی تعلیم کے حصول، بہتر ملازمت کے حصول، اسقاطِ حمل اور طلاق کے حقوق جیسے معاملات میں کامیابی حاصل کی ہے. لیکن ہمیں یہ ادراک ہونا چاہیے کہ ابھی بھی عورت استحصال زدہ طبقہ ہے، مگر سرمایہ دارانہ نظام میں برپا تبدیلیوں کی وجہ سے استحصال کی نوعیت بھی بدل چکی ہے.
آئیے کام کی جگہوں پر خواتین کی صورتحال کے تجزیہ کو اولیت دیتے ہیں. 1850ء سے لے کر 1950ء تک معاشی طور پر فعال خواتین کی تعداد، اور آج کے عہد میں معاشی طور پر فعال خواتین کی تعداد میں 41 فیصد اضافہ دیکھا جا سکتا ہے. یہ اضافہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد سرمایہ دارانہ نظام میں بیش بہا ترقی اور نئی صنعتوں کی وجہ سے ہوا ہے. گزشتہ صدی کے دوسرے نصف میں ٹیکنالوجی اور سائنس کو ملنے والے تاریخی عروج نے خواتین کی بڑی تعداد کو معاشی طور پر فعال کر دیا. اِس کے ساتھ ساتھ تصویر کے دوسرے رُخ کو بھی دیکھنا ہوگا کہ مردوں کی نسبت خواتین کو 27 سے 30 فیصد کم اجرت / تنخواہ دی جاتی ہے. اور 70فیصد ملازمت پیشہ خواتین کی ملازمتیں”شدید خطرے“ (HIGH RISK) کا شکار ہیں. یعنی معاشی فعالیت کے فراڈ کے تحت عورتوں کے استحصال کی نوعیت تبدیل کرکے دھوکہ دہی کا سلسلہ جاری و ساری ہے.
اِسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِاثر ”جدیدیت“ کا ڈھونگ رچایا گیا. جدیدیت اور بالخصوص جدید ثقافت (MODERN CULTURE) کے نام پہ عورت کو ایک قابلِ خرید و فروخت شے (COMODITY) بنا دیا گیا ہے. لبرل ازم عورت کو ایک انسان کے بجائے ایک ”جنس“ طور پر لیتا ہے. یہ عورت کے استحصال کی ایک نئی شکل ہے. آرٹ، انٹرٹینمنٹ، فیشن اور گلیمر کے نام پہ عورت کے تقدس اور عورت کی عزت کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے عورت کو اشتہار بنا دیا ہے. آج عورت ایک طرف ماں اور بیوی کے روپ میں کبوتر والی زندگی جینے پہ مجبور ہے اور دوسری طرف جنسی کاروبار کے دھندے میں ملوث کر کے غیر انسانی سلوک کا سامنا کر رہی ہے. آج کے لبرل ایجنڈے کے تحت Uni Lad جیسے پروگرام جاری کرکے عورت کے وجود کو گالی بنا دیا گیا ہے. عورت کو جنسی کھلونا بنا کر عورت کو مذاق بنا دیا گیا. یہ عورت کے استحصال کی بالکل نئی قسم ہے.
میں مکمل یقین اور اعتماد سے کہتا ہوں کہ سوشلزم کے ذریعے کیپٹلزم کی طرف سے جاری عورتوں کے استحصال سمیت ہمہ قسمی جبر کا خاتمہ ہو گا. سرمایہ دارانہ سوچ اور نفسیات کے زیراثر بنی نوع انسان کو جنسی بنیادوں پر تفریق کے ڈربوں میں مقید کیا جا چکا ہے، جبکہ سوشلزم بنی نوع انسان کی جنسی تفریق کی نفی کرتا ہے. سرمایہ دارانہ سماج میں مرد کو یک زوجگی کے جبر کا سامنا نہیں ہے، لیکن جائیداد کی وراثت کے نام پہ عورت یک زوجگی کے جبر کا شکار ہے. جبکہ سوشلسٹ سماج میں نجی ملکیت کے خاتمے کے ذریعے سرمایہ داروں کی ”غلامی“ کے لیے درکار محنت کشوں کی نئی محنت کش نسل کی ضرورت کا خاتمہ کیا جائے گا، نتیجتاً ایک انفرادی خاندان (NUCLEAR FAMILY) کے جبر کا بھی خاتمہ ممکن ہو گا.
نجی ملکیت کے خاتمے کے ساتھ مالکان کے طبقے کا خاتمہ ہوگا. مالکانہ حقوق کے خاتمے کے ساتھ ساتھ مالکانہ نفسیات پہ قائم اخلاقیات، نفسیات اور قوانین کا خاتمہ کیا جائے گا جن کی بنیاد پہ تمام لوگوں کو جنسی تفریق کے بغیر کام اور ملازمت ملنے کی ضمانت ہو گی. اجرت اور حقوق میں جنسی بنیادوں پہ تفریق کا خاتمہ ہو گا. آج عورت کو اپنے بچوں کی مشکل نگہداشت کی وجہ سے یا تو ملازمت ترک کرنی پڑتی ہے یا پھر وہ سرے سے بچے پیدا کرنے سے گھبراتی ہے. لیکن سوشلسٹ سماج میں بچوں کی نگہداشت ایک ”سماجی منصوبہ“ ہوگا اور ساتھ ہی حمل، زچگی اور خاص عمر تک بچوں کی نگہداشت کے واسطے عورت کو ضروریات کی فراہمی کی ضمانت کے ساتھ تعطیل کا حق دستیاب ہوگا. اِس طرح بچوں کی نگہداشت اور ملازمت کے درمیان ایک آپشن چننے کے جبر کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا. چونکہ آج ملازمت کی جگہوں پہ مالکان (سرمایہ داران) کے پیشِ نظر صرف منافع ہوتا ہے، لہذا یہ مالکان خواتین ملازمین کو حمل، زچگی اور بچوں کی نگہداشت کے لیے تعطیل دینا گوارہ نہیں کرتے کیونکہ اس طرح اُن کی شرح منافع کم ہو جاتی ہے. لیکن سوشلسٹ سماج میں ایسے جبر کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا.
کسی بھی سماجی ڈھانچے میں خواتین کے استحصال کے ماخذ کی واضح شناخت کا سوال ایک اہمیت رکھتا ہے، مگر لبرل ازم کے تحت اس سوال کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا. خواتین کے استحصال اور طبقاتی سماج کی بُنت کے باہمی تجزیے سے اِس سوال کا جواب بہت سادہ اور واضح مل سکتا ہے. مذہبی دہشت گردی اور نسل پرستی کی طرح خواتین کے خلاف صنفی جبر کی جڑیں بھی طبقاتی نظام میں پیوست ہیں. ہم اِس تفہیم کے ذریعے خواتین کے استحصال کے خلاف ایک مربوط لائحہ عمل ترتیب دے سکتے ہیں. ابتدائی انسانی سماج میں عورت کو استحصال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا. اُس سماج میں تمام انسان اپنی ضروریات پوری کرتا تھا، لیکن زراعت اور جانوروں کے پالتو بنانے کے آغاز سے قدرِ زائد یعنی اپنی انفرادی ضرورت سے زائد پیداوار کا آغاز ہوا. انسانوں نے اُس زائد پیداوار کو اپنی تحویل میں لیکر دوسروں کا استحصال شروع کیا. نجی ملکیت کا آغاز ہوا. امیروں اور غریبوں کے طبقات کا آغاز ہوا. نجی ملکیت اور طبقاتی آغاز کے ساتھ ہی جبر، استحصال کا آغاز بھی ہوتا ہے.
طبقاتی نظام اور انسان دشمن جبر و استحصال کی تمام اقسام کا ایک ہی ماخذ ہے، یعنی نجی ملکیت. نسل پرستی، شدت پسندی، مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی اور عورتوں کے خلاف جبر کا ایک ہی قابلِ عمل حل ہے، یعنی سوشلزم. سرمایہ داروں نے انسانوں کو، غریبوں کو اور محنت کشوں کو تقسیم کرنے کے لیے نسلی امتیاز، مذہبی تفریق اور جنسی تفریق کا دھندہ شروع کر رکھا ہے. خواتین کو اپنے استحصال اور اپنے خلاف ہونے والے جبر کے خلاف جنگ کو طبقاتی جنگ کے ساتھ جوڑنا ہوگا. خواتین کو ایک سوشلسٹ سماج کے قیام کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف باقی طبقات کے ساتھ مل کر ایک عالمگیر جنگ لڑنی ہوگی.
تبصرہ لکھیے