کبھی کسی نے ایسا اتفاق نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک ہی خطے کے ایک ہی شہر بلکہ ایک ہی تحصیل میں دو الگ الگ ریاستیں بنی ہوئی ہوں لیکن میں نے خود ایسا ہوتا ہوا دیکھا۔گلگت بلتستان کے دارالحکومت میں ایسا ہی ہوا. صبح گھر سے بازار جاتے ہوئے جہاں 15 منٹ کی مسافت تھی وہاں ایک گھنٹہ لگ گیا، وجہ جشن آزادی کے حوالے سے نکالی جانے والی ریلیاں تھیں جن میں ہر عمر کے لوگ، بوڑھے، بچے اور نوجوان سب شامل تھے۔ پاکستان سے ان کی محبت واقعی دیدنی تھی۔ موٹرسائیکلوں پر سوار سینکڑوں لوگ ہاتھوں میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرائے ہوئے تھے۔ ان ریلیوں کی خاص بات ان کا نظم و ضبط تھا کیوں کہ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ ریلیاں بےہنگم ہوتی ہیں، مگر یہ ریلیاں تو کمال کی تھیں۔ جب بازار پہنچا تو چند دوست ملے. ان کے اصرار پر گھومنے نکلے اور پھر جاتے ہوئے ایک ایسی جگہ سے گزرنے کا اتفاق ہوا جہاں یوم آزادی کے دن بھی کوئی جھنڈا تو دور کی بات جھنڈی بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ یہ جگہ بھی ڈسٹرکٹ گلگت میں بلکہ اس کا ایک محلہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ جگہ گلگت بازار سے پانچ منٹ کی مسافت پر بلکہ اس کو عین بازار میں ہی کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔ آج اس ایریا سے گزرنے والی آنکھ حیرت زدہ تھی کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ ایک طرف تو لوگ جوش و خروش سے یوم آزادی منا رہے ہیں مگر دوسری طرف بالکل شہر میں بازار کے ساتھ ہی کچھ لوگ اس دن سے روٹھے ہوئے ہیں۔
گلگت بلتستان میں بھی گزشتہ 69 سالوں سے ملک کے دیگر صوبہ جات اور بڑے شہروں کی طرح یوم آزادی پاکستان بڑے ہی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ لوگ پورے پاکستان کی طرح اپنے وطن کی لمبی عمر اور ترقی و تعمیر کے لیے دعاگو ہوتے ہیں۔ یہاں بھی یوم آزادی خود کو پاکستانی سمجھتے ہوئے منایا جاتا ہے اور اپنی پہچان پاکستان کے ساتھ ہونے پر فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگوں نے افواج پاکستان سے لے کر ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ اسی خطے کے لالک جان شہید کو نشان حیدر دیا گیا جو پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے، کے ٹو اور نانگا پربت یہیں واقع ہیں جس کے حوالے سے پاکستان پوری دنیا میں اپنی پہچان رکھتا ہے۔ قیمتی پتھروں کا ذخیرہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ اسی خطے میں پایا جاتا ہے۔ جس دریائے سندھ سے پورا پاکستان سیراب ہوتا ہے، وہ بھی اسی سرزمین بے آئین سے ہوتا ہوا گزرتا ہے۔ اس خطے کے لوگ پاکستان کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں جس کی مثال ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے سے ہمیں مل سکتی ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد قائداعظم کا پہلا خطاب اجتماعی طور پر ہائی سکول نمبر 1 کے گرائونڈ میں جمع ہوکر لوگوں نے سنا، چونکہ قائداعظم خطاب انگریزی میں کرتے تھے تو مجمع میں کسی کو بھی ان کے الفاظ سمجھ نہیں آرہے تھے، اس کے باوجود کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوئے۔ کہتے ہیں کہ اس وقت پورے گلگت میں صرف تین ریڈیو سیٹ ہوا کرتے تھے جن میں دو سرکاری نمائندوں اور ایک عام فرد کے پاس تھا جو اس علاقے کے نہایت معتبر شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ اسی ایک ریڈیو سے لوگ بابائے قوم کا خظاب سننے گرائونڈ میں پہنچ رہے تھے۔ اس کےلیے پورے شہر میں اس طرح اعلان کیے گئے جیسے آج کل بڑے بڑے اجتماعات سے پہلے اس میں شرکت کےلیے گلی گلی قریہ قریہ اعلانات کروائے جاتے ہیں۔ وہاں اتنی بڑی تعداد میں لوگ صرف اس لیے جمع ہوئے تاکہ دکھا سکیں کہ پاکستان اور قائداعظم ان کا بھی ہے، اور وہ قائداعظم اور پاکستان محبت و عقیدت کا تعلق رکھتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو پاکستان سے الحاق کو غلط ثابت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پاکستان ہم سے سب کچھ لے رہا ہے مگر ہمیں ابھی تک آئینی کوئی حیثیت نہیں دے رہا۔یہی بات اس خطے کے لوگوں کے دلوں میں دھرے دھرے اترتی جارہی ہے جسکی وجہ سے یہاں لوگوں میں پاکستان سے محبت کم ہوتی نظر آتہی ہے اس پڑھے لکھے طبقے کے سامنے کشمیر مسئلہ پیش کیا جائے تو بغیر سوچے سمجھے کشمیر سے خود کو الگ کرکے کسی اور دنیا سے ملانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔یہ بات ہمارے ذہنوں میں روز روشن کی طرح واضح ہونی چاہیے کہ جب تک کشمیر مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلتا گلگت بلتستان کو بھی کوئی آئینی حیثیت نہیں دیا جاسکتا کیونکہ تاریخ گواہ ہے گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ رہا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ گلگت بلتستان سے جس طرح دوسرے ممالک فائدہ اٹھانے کی کوششیں کر رہے ہیں اتنا ہماری حکومت کوشاں نہیں ہے۔گھر کی مرغی دال برابر کی مانند پاکستانی حکومت اس خطے کو نظر انداز کر رہی ہے ورنہ یہ سونے کی چڑیا بن سکتا ہے۔ صرف سیاحت کو ہی پروان چڑھایاجائے تو گلگت بلتستان سوئٹزرلینڈ کو پیچھے چھوڑ دے گا. یہاں پانی کے اتنے زیادہ ذخائر موجود ہیں، ان پر ڈیم بنا کر بجلی کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے. اس خطے میں پائی جانے والی جڑی بوٹیوں اور قیمتی پتھروں کو اگر انٹر نیشنل مارکیٹ میں متعارف کروایاجائے تو بین الاقوامی سطح پر خطے میں سرمایہ کاری کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ مگر یہ سب تبھی ممکن ہے جب خطے کی عوام میں پائی جانے والی احساس محرومی کا ازالہ کیا جائے کیونکہ جو بھی یہاں کی عوام میں مایوسی دیکھتا ہے وہ ان کے جذبات سے کھیلنے اور اپنی سیاست چمکانے میں لگ جاتا ہے اور اس وقت گلگت بلتستان میں کئی ایسے گروہ موجود ہیں جو اس خطے کی سادہ عوام کو غلط راستے پر چلنے کےلیے اکسا رہے ہیں. پاکستانی حکومت اس سرزمین بے آئین کو آئینی دھارے میں لانے کے لیے فوری عملی اقدامات کرے ۔
تبصرہ لکھیے