ہوم << مسلم مفکرین کی اخلاقی تعلیمات اور عملی جدوجہد کے اثرات- ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

مسلم مفکرین کی اخلاقی تعلیمات اور عملی جدوجہد کے اثرات- ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

اسلامی تاریخ کا مطالعہ اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ مسلم مفکرین نے نہ صرف فکری میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں بلکہ ان کی اخلاقی تعلیمات اور عملی جدوجہد نے مسلم سماج کے ارتقاء، تہذیب و تمدن کی ترقی، اور انسانیت کی فلاح میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

یہ مفکرین محض فلسفی یا نظریہ ساز نہیں تھے بلکہ وہ ایسے قائد و راہنما تھے جنہوں نے اپنے کردار، گفتار اور عمل سے ان تعلیمات کو زندہ کیا جو قرآن و سنت کا جوہر ہیں۔ ان کی فکری میراث آج بھی ایک زندہ اور متحرک اثاثہ ہے، جس سے مسلم دنیا راہنمائی حاصل کر سکتی ہے۔ اگر ہم ابتدائی مسلم مفکرین کی بات کریں تو امام غزالیؒ کی شخصیت مثالی نظر آتی ہے، جنہوں نے صرف عقلی و فکری مباحث پر قلم نہیں اٹھایا بلکہ روحانیت، اخلاقیات، سچائی، نیت کی پاکیزگی اور خلوص کو اسلامی فکر کا مرکز قرار دیا۔ ان کی مشہور تصنیف احیاء العلوم میں اخلاقی تطہیر اور روحانی ارتقاء پر زور دیا گیا، جو آج بھی ہر دور کے انسان کے لیے چراغِ راہ ہے۔ غزالیؒ کا یہ نظریہ کہ علم تب تک بے اثر ہے جب تک وہ انسان کے کردار و عمل کو نہ بدلے، جدید دور کے تعلیمی نظام کے لیے ایک گہرا چیلنج ہے۔

دوسری طرف ابن خلدونؒ جیسے عظیم مفکر نے جہاں تاریخ، سماجیات اور عمرانیات میں انقلابی فکر پیش کی، وہیں ان کی تحریروں میں بھی ایک مضبوط اخلاقی بنیاد موجود ہے۔ ان کے نزدیک تہذیبوں کا عروج و زوال صرف مادی عوامل پر نہیں بلکہ اخلاقی انحطاط یا بلندی پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ جب معاشرے کے مقتدر طبقات خودغرضی، تعیش، بدعنوانی اور اخلاقی کمزوری کا شکار ہو جائیں تو تمدن زوال کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔

مسلم مفکرین کی جدوجہد صرف علمی سطح پر محدود نہیں تھی بلکہ ان کی زندگیاں عملی میدان میں بھی سرگرم تھیں۔ امام ابو حنیفہؒ نے جب حکومتی جبر کے خلاف کھڑے ہو کر حق گوئی کی سزا قید و بند کی صورت میں برداشت کی، تو یہ ان کی اخلاقی بصیرت اور عملی استقامت کا واضح مظہر تھا۔ ایسے ہی امام احمد بن حنبلؒ نے خلقِ قرآن کے مسئلے میں دربارِ عباسیہ کے شدید دباؤ کے باوجود اپنے عقیدے اور سچائی پر ثابت قدم رہ کر امت کو حریتِ فکر کا سبق دیا۔

برصغیر کے مفکرین کی مثال لیں تو شاہ ولی اللہ دہلویؒ ایک درخشاں مثال کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان کی تعلیمات نہ صرف عقیدے، فقہ، معیشت اور سیاست پر محیط تھیں بلکہ ان کی اخلاقی فکر میں اعتدال، عدل، مساوات اور اخلاص جیسے اصول مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کا تصورِ تجدید محض فکری نکتہ نظر نہیں بلکہ ایک عملی جدوجہد تھی، جس میں انہوں نے قرآن و سنت کو محورِ زندگی بنانے کی دعوت دی۔ شاہ ولی اللہ کی فکر نے بعد کے کئی اصلاحی تحریکات کو جِلا بخشی، جن میں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ نمایاں ہیں۔

اسی تسلسل میں علامہ اقبالؒ کی شخصیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، جنہوں نے فلسفہ، شعر اور سیاست کو ایک اخلاقی بنیاد فراہم کی۔ ان کا تصور خودی، دراصل اخلاقی خودشناسی اور روحانی ارتقاء کی وہ تعبیر ہے جو فرد کو خدا سے جوڑتی ہے اور معاشرے کو عدل، حریت اور اخوت کے اصولوں پر قائم کرتی ہے۔ اقبالؒ کے نزدیک علم، طاقت اور سیاست کا حقیقی مصرف وہی ہے جو اخلاقی اقدار کے تابع ہو۔ ان کی عملی جدوجہد مسلم دنیا کو ایک نئی زندگی، نیا شعور اور نیا نظریہ فراہم کرنے کی سعی تھی، جو آج بھی ناقابلِ فراموش ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم مفکرین کی تعلیمات نے محض مسلمانوں کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ دیگر اقوام و تہذیبیں بھی ان کے افکار سے متاثر ہوئیں۔ قرونِ وسطیٰ میں جب یورپ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، تو ابن رشد، ابن سینا، رازی اور فارابی جیسے مسلم مفکرین کی کتابیں لاطینی زبان میں ترجمہ ہو کر مغربی جامعات میں پڑھائی جاتی تھیں۔ ان کی فکری گہرائی، سائنسی اصولوں پر مبنی تجزیہ اور اخلاقی بنیاد پر استدلال نے یورپ کے فکری ارتقاء میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ یہ مسلم مفکرین کے اخلاقی شعور اور سچائی کی تلاش کا ہی اثر تھا کہ علم و تحقیق کو دین سے ہم آہنگ کر کے پیش کیا گیا۔

بدقسمتی سے آج کا مسلم معاشرہ ان درخشاں روایات سے کٹتا جا رہا ہے۔ جدید تعلیم و ٹیکنالوجی کی چکاچوند میں ہم نے ان مفکرین کی اخلاقی تعلیمات اور عملی جدوجہد کو محض تاریخ کے اوراق میں بند کر دیا ہے۔ نتیجتاً ہمارے معاشروں میں انتشار، بداخلاقی، کرپشن، اور فکری جمود بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر ہم آج بھی مسلم مفکرین کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کریں، تو ایک ایسا فکری و اخلاقی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے جو معاشروں کو ترقی، امن اور عدل کی طرف لے جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم مفکرین کی فکر کو ازسرِ نو زندہ کیا جائے، ان کی تعلیمات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے، ان کے اخلاقی اصولوں کو فرد اور ریاست کی سطح پر اپنایا جائے، اور ان کے عملی نمونوں کو نوجوان نسل کے سامنے پیش کیا جائے۔ کیونکہ صرف وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنی فکری میراث سے جڑی رہتی ہیں، جو اپنے نظریاتی سرمائے کو فراموش نہیں کرتیں اور جو سچائی، دیانت، انصاف اور اخلاص جیسے اصولوں کو اپنی زندگی کا محور بناتی ہیں۔

پس، مسلم مفکرین کا پیغام آج بھی ایک زندہ حقیقت ہے۔ ان کا فکری اثاثہ، ان کی اخلاقی بصیرت، اور ان کی عملی استقامت، ہمارے لیے ایک مشعلِ راہ ہے بشرطیکہ ہم اسے اپنانے کا حوصلہ پیدا کریں۔ یہی وہ سرمایہ ہے جو مسلم دنیا کو ایک نئے دور کی طرف لے جا سکتا ہے، جہاں علم، کردار، اور عمل کا حسین امتزاج انسانیت کی حقیقی فلاح کا ضامن بن سکے۔