ہوم << واقعہ کربلا، ایک ایفائے عہد - محمد ثاقب ساقی

واقعہ کربلا، ایک ایفائے عہد - محمد ثاقب ساقی

۹,۱۰محرم کی درمیانی شب دشتِ نینواہ ، مقتل گاہے اہل بیت اطہار کے ایک خیمے میں جگر گوشہ حیدرِ کرار، نواسۂ رسول ﷺ امام عالی مقام نے اپنے خاندان اور وفاداروں کو جمع کر کے مخاطب ہوۓ " یزید کی جنگ حسین سے ہے. وہ ملعون میری بیعت چاہتا ہے، اس کا تم سب سے کوئی لینا دینا نہیں.

میں حسین ابنِ علی تم سب سے راضی ہوں، تم سب آزاد ہو، جاؤ اپنی جانیں بچاؤ، میں دیا بند کیے دیتا ہوں، جو چلا گیا میں نہ اس سے آج رنجیدہ ہوں نہ میدان حشر میں" پھر امام نے دیا گل کر دیا. ماحول ساکت ہوگیا، ہو کا عالم تھا، سانسوں کی آواز بھی نہ تھی، چند ساعتوں کی توقف کے بعد امام نے دوبارہ دیا جلایا تو کیا دیکھتے ہیں کہ عشق اپنے پہلے امتحان میں سینہ تان کر کھڑا ہے، کوئی اپنی جگہ سے بالشت بھر بھی نہیں سرکہ تھا. زانوؤں میں سر دیے سب نے اپنا آپ امام کو پیش کر چکے تھے، وہ سب مشیت الہی سے آشنا ہو چکے تھے.

وہ سب جانتے تھے کہ اس خاندان کے ساتھ محبت نہیں مودّت کا حکم یوں ہی نہیں دیا گیا، آج ایفائے عہد کا دن تھا. پھر سب نے حیاتِ ظاہری کی وہ آخری رات رب کے حضور سجدوں، دعاؤں اور گڑگڑاتے ہوۓ گزاری. ان سب رب سے اپنے تن کی قربانی کی قبولیت اور پیش امتحان میں ثابت قدمی کی دعائیں مانگی. دس محرم معرکہ اہل حق و باطل کا دن، آج سورج کی سرخی بڑی غضبناک تھی، آگ برساتا لال سرخ سورج اس بات کا عندیہ دے رہا تھا کہ آج مقام کرب و بلا میں خون کی ہولی کھیلی جاۓ گی. آج خاندان رسول کا خون بہایا جانے والا تھا، پھر جنگ کا طبل بجا، حر آگے بڑھا .

امام کے سامنے آ کر اپنی تلوار امام کے قدموں میں رکھ دی، حر کے مقدر کا ستارہ چمک اٹھا، امام نے قبول فرمایا، اب حر یزیدی لشکر کا سپہ سالار نہیں بلکہ حسین لشکر کا جری بہادر تھا، حر میدان جنگ میں اترا، کئی یذیدی سر قلم کرنے کے بعد جام شہادت نوش کیا اور امر ہوگیا، جو بھی وفادارِ اہل بیت میدان میں جاتا بیسویں یزیدیوں کو واصل جہنم کر کے شہید ہوتا، اور کربلا کے شہیدوں کی فہرست میں اپنا نام لکھواتا. تاریخ کی کتابوں میں شہیدانِ کربلا کی ترتیب کی سکہ روایات موجود ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اصحاب حسین شہادت کے منصب پر فائز ہوتے گئے.

امام مسلم بن عقیل کے بیٹوں نے جب شہادت پائی تو امام نے فرمایا میرے چچا زاد بھائیوں اس موت پر صبر کرو ، ابو حتوف بن انصاری اپنے بھائی کے ساتھ دوران جنگ امام کے لشکر میں شامل ہو گئے اور جام شہادت نوش کیا. ظہر کے لگ بھگ امام عالی مقام کے بھائی حضرت عباس علمدار نے خیموں سے پیاس پیاس کی آواز آئی تو عباس نے امام سے اجازت لی ، مشک اٹھائی اور گھوڑے کو فرات کی جانب بھگا دیا، آپ کے پاس الم بھی تھا، عباس کی بہادری کو سلام کہ بازو کٹوا دیے مگر الم کو نہ گرنے دیا.

عباس کی شہادت کے بعد امام نے فرمایا اب میری کمر ٹوٹ گئی. اب امام کے لخت جگر شبیہ مصطفی علی اکبر کی باری آئی. امام نے اپنے نانا کا امامہ علی اکبر کے سر پر باندھا،بابا حیدر کرار کی ذولفقار علی اکبر ہاتھ میں دی اور میدان میں روانہ کر دیا، علی اکبر کئی یزیدی کے سر قلم کر کے واپس آۓ، پیاس کی شدت تھی. بابا نے حوض کوثر کا اشارہ دیا،علی اکبر دوبارہ میدان میں گئے ،اپنی جرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے. اب امام خیمے میں گئے، بی بی پاک شہربانو سے علی اصغر کو لیا اور میدان میں نکل آۓ، یذیدیوں سے ننھے علی اصغر کے لیے پانی مانگا، ( امام کا پانی مانگنا ایک مشیت تھی کہ کوئی حجت باقی نہ رہے ورنہ پانی کی کیا مجال کہ حسین پانی مانگے اور پانی نہ آۓ).

پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ایک تیر کمان سے نکلنا اور شیر خوار علی اصغر کی گردن کے آر پار ہوگیا، خون کا اک فوارا نکلا، امام نے علی اصغر کے خون کو اپنے چہرے پر مل لیا، پھر اس دن اس معرکہ کی آخری شہادت کا وقت آن پہنچا، امام بی بیوں کو خدا کے حوالے کر کے میدان میں نکلے، امام جدھر جاتے لاشوں کا ڈھیر لگا دیتے. امام کو بیسویں زخم آۓ، امام گھوڑے سے نیچے گرے شمر لین سر پر آن پہنچا، امام نے اس کی کمر سے قمیض پھاڑی اور دیکھا کہ اس کی کمر پر برص کی بیماری کی وجہ سے کیڑے پڑ چکے ہیں. تب امام نے فرمایا ہاں تو ہی میرا قاتل ہے جیسا کہ بابا نے مجھے فرمایا تھا ایک باؤلا کتا تیرے خون میں منہ مارے گا، امام نے سر سجدے میں رکھ دیا، شمعر نے سر تن سے جدا کر دیا، پھر اسی سر کو سب اونچا اٹھا کر دمشق یزید کے دربار کی طرف چل دئیے جس سر کو نیچا دکھانا چاہتے تھے.

واقعہ کربلا کو آپ جس زاویے سے بھی دیکھیں یہ ایفائے عہد کا سنگ میل نظر آۓ گا. اسماعیل علیہ السلام کی قربانی قبول ہوئی مینڈھا آ گیا. فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَ تَرَکۡنَا عَلَیۡہِ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ
تو اسے پورا ہونا تھا جو کہ اہل بیت نے پورا کیا،پھر رسول اللہ کے خواب کے ذریعے ام سلمہ کو پیشنگوئی کو سچ ثابت ہونا تھا، پھر امام علی کا جنگ صفین سے واپسی پر کربلا کی جگہ حسین کی مقتل گاہ کا اشارہ دینا، پھر شہیدان کربلا کا امام کے لیے جانیں نچھاور کرنا، تو واقعہ کربلا ایفائے عہد ہے، وفا کی داستان ہے. اہل وفا وفائیں نبھاتے نبھاتے اپنی جانیں پیش کر گئے.

شاہ است حسین و بادشاہ است حسین
دین است حسین و دین پناہ است حسین

سر دادن و نداد دست در دست یزید
واللہ کہ بنا لا الہ است حسین