یومِ عاشور اور واقعۂ کربلا اسلامی تاریخ کا وہ ناقابلِ فراموش باب ہے جو نہ صرف ایمان و ایقان کا مظہر ہے بلکہ ہر دور کے مظلوموں، حق پرستوں، اور باطل کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کے لیے ایک کامل رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔
10 محرم الحرام 61 ہجری کو پیش آنے والا یہ واقعہ جہاں حضرت امام حسینؓ اور ان کے جاں نثار ساتھیوں کی عظیم قربانیوں کا امین ہے، وہیں یہ ظلم و جبر کے خلاف حق گوئی، صبر، استقامت، اور دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کا اعلیٰ ترین معیار بھی طے کرتا ہے۔ آج جب ہم 21، ویں صدی کے عالمی منظرنامے پر نظر ڈالتے ہیں تو کربلا کا پیغام ایک نئی معنویت اور گہرائی کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے، بالخصوص ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے مسلمان مختلف قسم کے سیاسی، مذہبی، اور معاشی بحرانوں سے دوچار ہیں۔
کربلا کو محض ایک تاریخی واقعہ یا سانحہ قرار دینا اس کی حقیقت سے انکار کے مترادف ہے۔ یہ درحقیقت ایک نظریہ، ایک ضمیر کی بیداری، اور ایک ابدی تحریک ہے جس کی جڑیں نہ صرف مذہب میں بلکہ انسانی اقدار اور عالمی اخلاقی نظام میں پیوست ہیں۔ حضرت امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے دراصل ایک ایسی حکمرانی کو مسترد کیا جو دینِ اسلام کی تعلیمات سے متصادم تھی۔ یہ انکار دراصل اس بات کا اعلان تھا کہ قیادت کا معیار صرف طاقت، نسب یا سیاسی چالاکی نہیں بلکہ تقویٰ، صداقت، اور عدل ہونا چاہیے۔ یہی وہ بنیادی پیغام ہے جسے آج ہم بھلا چکے ہیں۔
موجودہ حالات میں امتِ مسلمہ جس فکری انتشار، اخلاقی انحطاط، اور قیادت کے بحران کا شکار ہے، اس کا حل کربلا کے فلسفے میں پوشیدہ ہے۔ فلسطین میں اسرائیلی ظلم و بربریت ہو، یا کشمیر میں بھارتی ریاستی جبر، یمن و شام کی خانہ جنگی ہو یا افغانستان اور برما میں مسلم نسل کشی ہر جگہ حق کو کچلنے، ظلم کو دوام دینے، اور کمزور کو خاموش کر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان مظلوموں کی حالت دیکھ کر کربلا کا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے، جہاں ایک چھوٹے سے قافلے نے طاقتور ترین سلطنت کے سامنے نہ صرف انکار کیا بلکہ قربانی کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئی۔
آج یزید کا نام اگرچہ تاریخ کا حصہ ہے، مگر اس کی فکر، اس کا نظام، اور اس کی طرزِ حکمرانی آج بھی مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ آمریت، کرپشن، سیکولر جبر، مذہبی استحصال، اور سامراجی طاقتیں دراصل اسی یزیدی فکر کا تسلسل ہیں۔ امام حسینؓ کا پیغام ہے کہ اگر ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کی جائے تو وہ ظلم، نظام بن جاتا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو آج امت کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔کربلا ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم امام حسینؓ کے مقصد اور مشن کو سمجھیں۔ امامؓ نے خود فرمایا: ’’میں امتِ محمدیہ کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں‘‘۔ یہ ایک انقلابی فکر ہے، ایک روحانی عہد ہے جو ہمیں ظلم کے خلاف، حق کے ساتھ، اور دین کی اصل روح کی بحالی کے لیے سرگرم عمل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔
امتِ مسلمہ کو آج جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں سب سے اہم فکری زوال، تعلیم کی کمی، اور دین سے دوری ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو کربلا کی روح سے روشناس کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا، تعلیم، مساجد، اور دینی حلقوں کے ذریعے حسینیت کو ایک زندہ پیغام کے طور پر پیش کرنا چاہیے تاکہ ہم صرف ماضی کی داستانیں دہرا کر نہ رہ جائیں بلکہ ایک باعمل، باکردار، اور باوقار قوم کی صورت میں ابھریں۔
امام حسینؓ کی شہادت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حق پر قائم رہنے کے لیے جان دینا پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہیے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر وہی غیرت، اخلاص، قربانی، اور ایثار پیدا کریں جو امام حسینؓ نے کربلا میں پیش کیا۔ معاشرتی سطح پر ہمیں ظلم، ناانصافی، بددیانتی، اور فرقہ واریت جیسے امراض کے خلاف اجتماعی مزاحمت کی فضا پیدا کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے گھروں، اداروں، مساجد، اور تعلیمی مراکز کو ایسے نظریاتی قلعے بنانا ہوگا جو حسینؓ کی فکر کے محافظ ہوں۔
یومِ عاشور کا اصل پیغام یہ ہے کہ ہمیں اپنے ایمان، کردار، اور عمل سے حسینیت کو زندہ رکھنا ہے۔ امام حسینؓ کی قربانی دین کو بچانے کے لیے تھی، اور اگر آج ہم دین کو دنیاوی مفادات کے لیے قربان کر دیں، تو یہ امام حسینؓ کی قربانی سے غداری ہوگی۔ ہمیں سچائی، دیانت، عدل، مساوات، اور شجاعت کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہوگا۔اگر ہم واقعی امام حسینؓ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں، تو ہمیں اپنی سیاست، اپنی معیشت، اپنے عدالتی نظام، اور اپنے سماجی ڈھانچے کو اس محبت کے تقاضوں کے مطابق بدلنا ہوگا۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم حسینؓ کے پیروکار ہیں نہ صرف زبان سے بلکہ عمل سے، نیت سے، اور سچائی سے۔
کربلا محض ایک یادگار نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے اعمال، اپنے عقائد، اور اپنے سماجی رویوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم نے اس آئینے میں اپنا چہرہ نہیں دیکھا، تو ہم صرف ماتم کر کے، نعرے لگا کر، اور جلسے کر کے حسینیت کے علمبردار نہیں بن سکتے۔کربلا کا فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ تاریخ وہی یاد رکھتی ہے جو اصولوں پر جیتا ہے۔ امام حسینؓ نے وقت کے ظالم کے خلاف کھڑے ہو کر یہ ثابت کیا کہ سچ کبھی مٹتا نہیں، اور جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے، وہ تنہا بھی لشکر بن جاتا ہے۔
یومِ عاشور ہمیں صرف سوگ کا موقع نہیں دیتا، بلکہ یہ دن ہمیں جگاتا ہے، جھنجھوڑتا ہے، اور نئی جدوجہد کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ یہی حسینیت ہے جو ہر ظالم کے خلاف کھڑی ہوتی ہے، ہر مظلوم کے ساتھ چلتی ہے، اور ہر انسان کو اس کی حرمت، آزادی، اور وقار کا شعور دیتی ہے۔اگر ہم آج بھی خاموش رہے، اگر ہم نے ظلم کو دیکھ کر آنکھیں بند رکھیں، اگر ہم نے سچائی سے منہ موڑا تو ہم کربلا کے وارث نہیں رہیں گے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو وہ سبق دینا ہوگا جو امام حسینؓ نے اپنے کردار سے سکھایا۔
یاد رکھیے، یہ دنیا دارالامتحان ہے دارالجزاء نہیں ، حسینؓ دنیائے فانی سے کوچ کے بعد بھی زندہ ہیں، اور یزید بظاہر جیت کر بھی مردہ۔ یہ فرق سمجھنے کے لیے نہ تاریخ دان ہونا ضروری ہے، نہ خطیب صرف ایک سچا مسلمان ہونا کافی ہے، جو جانتا ہے کہ زندگی جینا ہے تو اصولوں پر، چاہے میدانِ کربلا ہی کیوں نہ ہو۔
تبصرہ لکھیے