پانچ جولائی 1977ء پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب قوم کے پہلے منتخب وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو ایک منصوبہ بندی کے تحت برطرف کیا گیا اور ملک پر مارشل لاء مسلط کر دیا گیا۔ یہ نہ صرف ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کا عمل تھا بلکہ اس دن سے پاکستان میں آمریت، انتہا پسندی، دہشتگردی، امریکی مفادات کی تکمیل اور سیاسی عدم استحکام کے ایک طویل اور خونی سفر کا آغاز ہوا۔
جنرل ضیاء کا اقتدار پر قبضہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا، جس کے پیچھے افغانستان کی مجوزہ جنگ، پاکستان کا ایٹمی پروگرام، اور خطے میں امریکی بالادستی جیسے عوامل کارفرما تھے۔ اندرون ملک ضیاء الحق کو اس کھیل میں مہرے کے طور پر چنا گیا۔ بیرونی قوتوں کی سازشیں تھیں اور اندرونی کردار وہ سیاسی و مذہبی عناصر تھے جنہوں نے بھٹو حکومت کے خلاف ''انتخابی دھاندلی'' کے نام پر ایک احتجاجی تحریک کو اس نہج تک پہنچا دیا کہ فوج کو مداخلت کا موقع ملا۔بھٹو کے دیرینہ ساتھی رفیع رضا اپنی کتا ب ’ذوالفقار علی بھٹو اینڈ پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ بھٹو دو تہائی اکثریت حاصل کر کے کئی اصلاحات لانا چاہتے تھے اور اسی لیے انہوں نے 1976 سے انتخابات کی تیاری شروع کر دی تھی۔
اسی تیاری کے بعد انہوں نے 1977 میں قبل از وقت الیکشن منعقد کرائے تھے۔سات مارچ 1977 کو قومی اسمبلی کے الیکشن منعقد ہوئے تو اس میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 200 عام نشستوں میں سے 155 نشستیں جیت لیں جب کہ اس کے مدِ مقابل پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) صرف 36 نشستیں حاصل کر سکا۔ذوالفقار علی بھٹو کو 1977 کے انتخابات میں غیر معمولی کامیابی ملی تاہم انتخابی عمل پر اپوزیشن کے احتجاج نے ایک سیاسی بحران کو جنم دیا۔
ٹالبوٹ لکھتے ہیں بھٹو کا مخالف ووٹ بینک منقسم تھا۔ تاہم جب بھٹو نے 1977 میں قبل از وقت انتخاب کرانے کا اعلان کیا تو اپوزیشن کی نو جماعتیں پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) بنا کر ان کے خلاف انتخابی میدان میں اتر آئیں۔اس اتحاد میں مسلم لیگ، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام، تحریکِ استقلال، جماعتِ اسلامی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان جمہوری پارٹی، خاکسار تحریک اور کل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس شامل تھیں۔ ٹالبوٹ کے مطابق آپس میں نظریاتی طور پر اختلاف رکھنے کے باوجود بھٹو دور میں محدود ہوتے سیاسی امکانات نے ان جماعتوں کو ایک جگہ جمع کر دیا تھا۔
پانچ جولائی کا مارشل لاء اس بات کا بین ثبوت ہے ذوالفقار علی بھٹو کو صرف سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ ایک عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے راستے سے ہٹایا گیا۔ ان کی پھانسی، پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر مظالم اور پھر افغانستان کی جنگ یہ سب ایک مربوط منصوبہ بندی کا حصہ تھے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انسانی حقوق،ہیومن رائٹ واچ، ایشیا واچ، نیویارک پوسٹ، دی سن، بی بی سی ڈان۔ دی ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق 1978 سے لے کر 1985 تک 35000 سے 40000 افرادکو قید کیا گیا۔ 2077 افراد کو کوڑے مارے گے۔175 افراد کو پھانسی دی گے۔ مظاہروں کے دوران 800 سے 900 افراد کو مارا گیا۔
تاریخ سکتہ کی حالت میں تھی دنیا سیاست میں کسی سیاسی پارٹی نے جمہوریت کے لیے اتنی قربانیاں نہیں دی ہیں جتنی پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور پارٹی کی اعلی قیادت نے دی۔مولانا کوثر نیازی جو بھٹو کابینہ میں وزیر مذہبی امور تھے، اپنی کتاب ''اور لائن کٹ گئی'' میں تفصیل سے ان حالات پر روشنی ڈالتے ہیں جو مارشل لاء سے پہلے پاکستان میں جنم لے چکے تھے۔ کتاب کے بائیس ابواب میں نہ صرف بھٹو صاحب کی شخصیت، حکمت عملی، مذاکرات کی سنجیدگی، اور اپوزیشن سے رابطوں پر روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ جنرل ضیاء کے عزائم اور امریکی ایجنڈے کی جھلک بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات حتمی مرحلے میں تھے معاہدہ ممکن تھا، لیکن اچانک ''لائن کٹ گئی''، جنرل ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
اسی تناظر میں حامد میر کی کتاب ''بھٹو کی سیاسی پیشگوئیاں '' بھی ضیاء دور کے تناظر میں ایک اہم حوالہ ہے۔ بھٹو کو اندازہ ہو چکا تھا کہ ان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کیا کچھ تیار ہو چکا ہے۔ افغان جنگ کی آڑ میں امریکہ خطے میں مستقل قدم جمانا چاہتا تھا۔ ضیاء الحق اس منصوبے میں پیش پیش تھا۔ اسی لیے نہ صرف جمہوریت کو روند دیا گیا بلکہ بعد میں پاکستان کو انتہا پسندی اور دہشتگردی کے دلدل میں دھکیل دیا گیا۔کتاب ''ورکنگ وِد ضیاء'' میں ضیاء الحق کے ایک قریبی ساتھی جنرل کے ایم عارف نے اعتراف کیا ہے کہ ضیاء کا اصل مقصد صرف انتخابات نہیں بلکہ طویل اقتدار اور امریکی ایجنڈے کی تکمیل تھی۔ انتخابات کا وعدہ صرف دھوکہ تھا۔ ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالتے ہی فوری طور پر یہ عندیہ دیا کہ وہ ''اسلامی نظام'' کے نفاذ کے ذریعے ملک کو سنواریں گے لیکن عملی طور پر وہ امریکی مفادات کے سب سے بڑے نگہبان بنے۔
افغان جہاد کے نام پر لاکھوں افغان مہاجرین کو پاکستان میں داخل ہونے دیا گیا، جہاد کے نام پر مدارس کو ہتھیاروں سے بھر دیا گیا، ایک مخصوص فکر کو فروغ دیا گیا اور یوں پاکستانی معاشرہ فرقہ واریت، عدم برداشت اور اسلحہ کلچر کی نذر ہوتا چلا گیا۔ آج جو پاکستان دہشتگردی، بدامنی اور مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے، اس کا بیج ضیاء دور میں بویا گیا۔سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ضیاء الحق کے بعد آنے والی سیاست نے بھی ضیاء کے بیانیے کو آگے بڑھایا۔ اگر نواز شریف، جو ضیاء کی سیاسی وراثت کے سب سے بڑے وارث بن کر ابھرے پانچ جولائی کے اقدام کی حمایت نہ کرتے، اگر وہ ضیاء کی پالیسیوں کو اپنی سیاست کی بنیاد نہ بناتے تو شاید پاکستان 12 اکتوبر 1999 جیسے دن سے بھی بچ جاتا اور بے نظیر بھٹو شہید بھی نہ ہوتیں۔
آج ہم جمہوری تسلسل کے جس نازک مقام پر کھڑے ہیں، وہاں تک پہنچنے کی ایک کڑی پانچ جولائی 1977 بھی ہے۔جمہوریت ایک دن میں نہ بنتی ہے اور نہ برباد ہوتی ہے۔ لیکن آمریت کے ایک دن کے فیصلے دہائیوں تک قوموں کو اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں۔ آج بھی ضیاء کے اثرات پاکستانی سیاست اور سماج میں زندہ ہیں۔ عدلیہ کی کمزوری، پارلیمان کی بے توقیری، صحافت پر قدغنیں، اور اسٹیبلشمنٹ کا بالا دست کردار یہ سب ضیاء دور کی باقیات ہیں۔ اگر آج بھی ہم نے پانچ جولائی جیسے دنوں کی مذمت نہ کی، اگر آمریت کے ایجنڈے کو سیاسی یا مذہبی رنگ دے کر قبول کیا جاتا رہا تو جمہوریت محض ایک خواب ہی رہے گی۔
پانچ جولائی کو تاریخ کے سبق کے طور پر پڑھنے کی ضرورت ہے نہ کہ ایک فخر کے عنوان کے طور پر۔ اس دن نے ہمیں ایک بار پھر یہ یاد دلایا کہ جمہوریت کے تحفظ کے لیے محض انتخابات کافی نہیں، بلکہ جمہوری اقدار، آزاد عدلیہ، خودمختار پارلیمان اور سچ بولنے والی صحافت ضروری ہیں۔وقت آ چکا ہے کہ قوم پانچ جولائی کو صرف تاریخ کا ایک دن نہ سمجھے بلکہ اسے قومی خوداحتسابی کے دن کے طور پر منائے، تاکہ ہم دوبارہ کسی ضیاء، کسی مارشل لاء، اور کسی سازشی شب خون کے نرغے میں نہ آئیں۔
پانچ جولائی 1977 کا سبق یہی ہے کہ سیاست میں نظریات کو واپس لایا جائے، برداشت کے کلچر کو فروغ دیں، پانچ جولائی کی یاد دہانی ہمیں بار بار یہ سبق دیتی ہے کہ جب سیاستدان ذاتی مفادات کے لیے آمروں کے در پر جھک جائیں، تو قوموں کا مستقبل گروی رکھ دیا جاتا ہے۔ جمہوریت کو خون سے سینچا جاتا ہے، قربانیوں سے بچایا جاتا ہے، مگر ضیاء جیسے آمروں کے ادوار نہ صرف سیاسی اداروں کو تباہ کرتے ہیں بلکہ سماجی و معاشی ڈھانچوں کو بھی کھوکھلا کر جاتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی خوبیاں اور خامیاں اپنی جگہ، مگر ان کا انجام اور بعد کے حالات یہ واضح کرتے ہیں کہ اصل جرم بھٹو کا عوامی طاقت پر یقین اور پاکستان کو خودمختار ریاست بنانے کا عزم تھا۔
ان کا ایٹمی پروگرام، اسلامی بلاک کی تشکیل کی کوششیں اور امریکی دباؤ کو نظر انداز کرنا وہ عوامل تھے جن کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی۔آج ہمیں نہ صرف پانچ جولائی کو یاد رکھنا ہے بلکہ اس سے سبق بھی سیکھنا ہے۔ اس دن کو صرف ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے طور پر نہیں، بلکہ جمہوریت کے قتل کے دن کے طور پر یاد رکھنا ہوگا۔ جب تک ہم اپنی تاریخ کی سچائیوں کو تسلیم نہیں کرتے، تب تک ہم جمہوری استحکام، ادارہ جاتی توازن، اور قومی خودمختاری کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے۔
تبصرہ لکھیے