یوسف نے جب خیمے کے پردے ہٹائے تو اس کا دل ایک لمحے کے لیے رک گیا۔زمیں پر اس کی بیٹی زہرہ پڑی تھی، آنکھیں آدھی کھلی تھیں اور چہرے پر ایک ایسی بے بسی تھی جو شاید ہی کسی باپ نے دیکھی ہو۔ اس کے جسم پر خون جمی مٹی سے مل کر عجیب سی پرچھائیں بنا رہا تھا۔
یوسف نے گرتے قدموں سے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا۔
“زہرہ!میری بچی…”
زہرہ نے ہلکی سی کراہ کے ساتھ سر گھمایا۔ اس کے لبوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ آئی جو فوراً کرب میں بدل گئی۔
"ابا! آپ ٹھیک ہیں؟"
یہ سوال سن کر یوسف کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔خود موت کی دہلیز پر پڑی تھی اور فکر ابا کی تھی۔اس نے اپنی قمیص کے دامن سے بیٹی کا چہرہ صاف کرنے کی کوشش کی مگر دامن بھی خون اور گرد میں بھیگا ہوا تھا۔یوسف نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ خیمے میں پڑے چند اور زخمی لوگ کراہ رہے تھے۔ ڈاکٹروں کی جگہ چند نوجوان رضا کار تھے جو دوڑتے ہوئے کسی کو ڈرپ لگا رہے تھے، کسی کو پٹی باندھ رہے تھے۔ دوائیں کم تھیں، درد زیادہ۔
ایک نوجوان آیا اور یوسف کے ہاتھ میں ڈرپ پکڑا کر بولا:
“اسے اونچا رکھنا، تاکہ دوا اترتی رہے۔”
یوسف نے دونوں ہاتھوں سے ڈرپ پکڑ لی۔اس کا اپنا بازو بھی زخمی تھا۔ ایک گہرا زخم کلائی کے پاس کھلا تھا، جہاں سے خون رس رہا تھا، مگر اس وقت اسے اس زخم کی پرواہ نہ تھی۔بیٹی کی سانس اکھڑ رہی تھی۔
"ابا… اندھیرا… سا ہو رہا ہے…"
"نہیں میری جان آنکھیں بند مت کرنا"
اس کی آواز کانپ گئی۔یوسف نے ڈرپ کو اور اونچا کیا۔اس کی پیشانی پر سے تازہ خون کی بوندیں بیٹی کے چہرے پر گرتی رہیں۔باہر گولیوں کی گونج اور دھماکوں کا شور مسلسل بڑھ رہا تھا۔ خیمہ ہر تھوڑی دیر بعد ہل جاتا۔یوسف نے ایک لمحے کو سوچا، کاش کہیں سے دوا آ جائے۔ کاش کوئی معجزہ ہو جائے۔ مگر غزہ کی سرزمین پر زخم اگتے تھے۔
ایک خستہ حال بزرگ عورت پاس بیٹھی اپنے بیٹے کی لاش سے لپٹ کر بین کر رہی تھی۔ ایک کونے میں ایک چھوٹا بچہ اپنی ماں کی گود میں مر چکا تھا مگر ماں کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ واپس نہیں جاگے گا۔
یوسف نے کانپتے ہونٹوں سے کچھ پڑھنا شروع کیا۔
"انا للہ وانا الیہ راجعون"، اور پھر اس نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں:
"پروردگار تو دیکھ رہا ہے۔میں لاچار ہوں میری بچی پر رحم کر دے…". بیٹی کی سانس اب تھمی تھمی تھی۔
"ابا مجھے چھوڑنا مت۔..."
"میں کبھی نہیں چھوڑوں گا."
یوسف نے اس کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیا۔ انسانیت کے بڑے بڑے دعوے دار، بڑے ممالک،طاقت ور حکمران۔ سب اپنی کرسیوں پر بیٹھے خاموش تھے۔اس وقت دنیا کے سب سے تنہا باپ کے آنسو اور اس کی زخمی بیٹی کی کراہیں، کسی رپورٹ میں اعداد و شمار بننے والی تھیں۔
مگر یوسف کے دل میں آج ایک ایسی تحریر کندہ ہو چکی تھی جسے کوئی مٹا نہیں سکتا تھا. محبت کا بوجھ سب سے بھاری ہوتا ہے اور باپ کے کندھے سب سے مضبوط۔ خیمے میں اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ یوسف کا بازو شل ہونے لگا تھا مگر اس نے ڈرپ نیچے نہیں ہونے دی۔ اسے معلوم تھا جب تک اس کے ہاتھ بلند ہیں، شاید بیٹی کی سانس باقی رہے۔
شاید یہ تصویر صرف تصویر نہیں۔یہ زخموں کی گواہی تھی۔ یہ اس سوال کی گواہی تھی جس کا جواب کسی ایوان میں نہیں تھا
"انسانیت کہاں ہے؟"
تبصرہ لکھیے