ہوم << فتح بیت المقدس کب اور کیسے ؟ شیخ احمد سید

فتح بیت المقدس کب اور کیسے ؟ شیخ احمد سید

(شیخ احمد سید سعودی داعی اور مربی ہیں جو کہ ترکی میں مقیم ہیں ۔نوجوان اور بچے ان کی توجہ کا خاص مرکز ہیں ۔ شیخ کے دروس کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے دروس اور مختلف تربیتی پروگرامز میں قرآنی آیات ، احادیث رسول اللہ ﷺ، سیرت نبوی ، علماء سلف کی کتابوں کے ذریعے شکستہ دل شخص کی ہمت بندھاتے ، راہنمائی کرتے اور مایوسی کا قلع قمع کرکے انسان کے اندر یقین باللہ پیدا کرتے ہیں ۔ حال ہی میں ان کے دو لیکچرز بعنوان " مسجد اقصی کی آزادی اور قرب قیامت قرآن و حدیث میں مسجد اقصی کا تذکرہ" کے نام سے نشر ہوا ہے ، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس سلسلے کے چیدہ اور اہم نکات کا ترجمہ کیا ہے تاکہ اردو پڑھنے والے قارئین تک بھی یہ خیر پہنچے اور جہاں اس معرکے میں اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو وہیں اس گھٹا گھپ اندھیرے میں روشنی کی کرن کا احساس بھی باقی رہے۔اردو ترجمانی : انعم زیدی )

ان دروس میں ہم تین موضوعات پر بات کریں گے ۔
1۔ مسجد اقصی کے فضائل ۔
2۔قربِ قیامت قرآن و سنت میں مسجد اقصی کا تذکرہ ۔
3۔ بیت المقدس کی آزادی ۔

جی ہاں ،بیت المقدس کی آزادی !
یہ جملہ سن کر جس طرح میرے سامنے بیٹھے ہوئے جوان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ دوڑ گئی ہے عین ممکن ہے کوئی اور بھی اسی طرح تعجباً مسکرا اٹھے کہ اس وقت غزہ (یعنی فلسطین) بدترین حالات سے دوچار ہے ، وہ پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں اور آپ بیت المقدس کی آزادی کی بات کررہے ہیں ؟ اس وقت بیت المقدس کی آزادی کیسے ممکن ہے؟

ایسے تمام حیران لوگوں کے لیے وہی جواب ہے جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ان ساتھیوں کو دیا تھا کہ جنہوں نے قبلہ اول کی چابیاں لینے کے لیے جاتے ہوئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عمدہ لباس و سواری منتخب کرنے کا مشورہ دیا تھا کہ میرے ساتھیو مسئلے کا حل یہ مادی چیزیں نہیں ہیں بلکہ مسئلے کا حل رب العالمین کا حکم ہے ۔ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ بے بسی اور بے سرو سامانی کے باوجود ہمارا ایمان ہے کہ فیصلے اوپر آسمان پر ہوتے ہیں اور ہماری یہ نسل ضرور بالضرور مسجد اقصی کو صیہونیوں کے تسلط سے آزاد ہوتا دیکھے گی ، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جلد یہ دن دیکھنا نصیب کرے۔ آمین۔ہمارا یہ یقین کوئی دیوانے کا خواب یا بڑک نہیں ہے بلکہ اس یقین کے پیچھے دو بنیادی وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ سورہ اسراء(سورہ بنی اسرائیل)ہے جو اس وقت نازل ہوئی جب نبی کریم ﷺ سخت ترین حالات سے دوچارتھے ۔ حتی کہ آج جن حالات کو ہم دیکھ رہے ہیں اس سے سخت وقت رسول اللہ ﷺکو درپیش تھا ۔اصحاب رسول ﷺکی ایک جماعت حبشہ ہجرت کر چکی تھی ، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اور ابو طالب وفات پاچکے تھے ، بظاہر دور دور تک مدد و نصرت کا کوئی موقع اور دلاسہ دینے والانظر نہیں آتا تھا ۔عین اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل نازل کی ، جو اس بات کی واضح بشارت تھی کہ اگرچہ اس وقت حالات بدترین ہیں لیکن عنقریب مسلمان مکہ مکرمہ سمیت بیت المقدس پر توحید کا پرچم لہرائیں گے ۔

دوسری وجہ نبی کریم ﷺ کا اپنے آخری ایام میں فتح بیت المقدس کی بشارت سنانا ہے ، کہ میری وفات کے بعد مسجد اقصی آزاد ہوگی ۔اگر اُس وقت کے زمینی حالات کو دیکھا جائے تو نبی رحمت علیہ الصلاۃ و السلام کی وفات کے بعد جزیرہ عرب میں ارتداد پھیل گیا تھا ۔اس وقت کہنے والا کہہ سکتا تھا کہ اتنا بڑا فتنہ برپا ہوگیا بیت المقدس کی فتح کہاں گئی ۔لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی وفات اور بیت المقدس کی فتح میں کتنا فاصلہ تھا ؟ فقط پانچ سال کا ۔بیت المقدس کو چھوڑیں کون یقین کرسکتا تھا کہ مسلمان اتنی قلیل مدت میں پورا جزیرہ عرب فتح کرنے کے بعد اس وقت کی عظیم سلطنتوں کو شکست دے کر ایک وسیع کرہ ارض کو اپنے ماتحت کرلیں گے ؟ ان دو چیزوں کو بنیاد بناتے ہوئے میں مکمل یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہماری یہ نسل بیت المقدس کی آزادی ضرور دیکھے گی ، باذن اللہ تعالیٰ۔کیونکہ فرمان الٰہی ہے (یہ اللہ تعالیٰ کی زمین ہے جسے چاہے وارث بنادے )اور یہ بات عیاں ہے کہ اس سرزمین کے وارث نبی کریم ﷺ تھے اور ان کے بعد ان کی امت وارث ہے۔

ارض فلسطین کے فضائل !
قرآن کریم کی متعدد آیات میں بیت المقدس کا ذکر ہے البتہ پانچ آیات جن کا میں یہاں تذکرہ کروں گا ایسی ہیں جن میں بیت المقدس کو ان کلمات سے پکارا گیا ہے (وہ سرزمین جس میں ہم نے برکت رکھی ہے ) ۔
سورہ اسراء میں فرمان الہی ہے : (پاک ہے وہ ذات جوراتوں رات اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجد اقصی لے گیا ، وہ مسجد جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے )۔
سورہ انبیاء میں ارشاد فرمایا: (اور ہم نے اُسے اور لوط کو اس سرزمین کی طرف نجات بخشی جس میں ہم نے جہاں والوں کے لیے برکت رکھی ہے )۔
سورہ انبیاء ہی کی ایک دوسری آیت میں برکت والے وصف کو پھر سے یوں بیان کیا: (اور تیز ہوا کوسلیمان کے تابع بنادیا گیا ، ایسی ہوا جو اس کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی ہے )۔
سورہ سبا میں ارشاد فرمایا: (اور ہم نے ان کے اور اس شہر کے درمیان جس میں ہم نے برکت رکھی ہے بہت سے شہر آباد کردیے )۔
سورہ اعراف میں فرمایا: (اور جس قوم کو مغلوب کیا گیا تھا ہم نے اسے اُس زمین کے مشرق و مغرب کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے )۔
اس برکت سے مراد دو طرح کی برکتیں ہیں ، دینی برکت اور دنیاوی برکت ۔مختلف علماء کرام کے بقول دینی برکت کا ایک پہلو یہ ہے کہ سرزمین شام کا کچھ حصہ مستقل ارض جہاد و رباط رہا ہے ، علماء سلف اس سرزمین کو جہاد کی تیاری کے لیے منتخب کیا کرتے تھے ۔اگر احادیث میں موجود قبلہ اول کے فضائل کی بات کریں تو ارض شام اور فلسطین کے بارے میں دو طرح کی احادیث آئی ہیں ۔ایک طرف احادیث کا وہ سلسلہ ہے جس میں سرزمین شام کا عمومی تذکرہ کیا گیا ہے اور دوسری قسم ان احادیث پر مبنی ہے جن میں خصوصاً بیت المقدس کا تذکرہ ہے ۔

ایک حدیث مبارکہ وہ ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اس کرہ ارض پر دوسری مسجد جو تعمیر کی گئی تھی وہ مسجد اقصی تھی ۔ جہاں یہ حدیث ہماری ہمت بندھاتی ہے اور اس تڑپ میں مزید اضافہ کرتی ہے کہ اس مبارک مسجد کو کائنات کی گھٹیا ترین مخلوق کے ہاتھ میں نہیں رہنا چاہیے وہیں اس حدیث مبارکہ میں مسجد تعمیر کرنے کا تذکرہ ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس جگہ یعنی بیت المقدس کو بابرکت اور پاکیزہ بنایا جائے تاکہ یہاں باری تعالیٰ کے حضور سر سجدہ ریز ہوں اور تخلیق انسان سے ہی یہاں تسبیحات بلند ہوتی رہی ہیں ۔
اسی طرح صحیح بخاری ومسلم میں مذکور تحویل قبلہ والی حدیث اس مسجد کی فضیلت یوں ظاہر کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی آدھی سے زیادہ مدت مسجد اقصی کی طرف نماز پڑھتے ہوئے گزری ،( اگر اس مسجد کی اہمیت اللہ تعالیٰ کے ہاں نہ ہوتی تو نماز جیسی عظیم عبادت اس مسجد کی طرف رخ کرکے ایک طویل عرصے تک کیوں پڑھی گئی ؟)۔

ایک تیسری حدیث کہ جب سیدنا سلیمان علیہ السلام مسجد اقصی کی تعمیر سے فارغ ہوگئے تو انہوں نے تین دعائیں مانگی تھیں جو قبول ہوئیں،ان میں سے ایک دعا یہ تھی کہ جو بیت المقدس میں نماز کی نیت سے داخل ہو تو نماز سے فارغ ہوتے ہوئے وہ ایسے گناہوں سے پاک ہو جائے جیسے آج ہی پیدا ہوا ہے ۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا وہ طرز عمل ذکر کرتے ہیں کہ جس میں وہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد اقصی جاتے تو پانی کا گھونٹ بھی نہیں پیتے تھے کہ کہیں ان کی نیت میں نماز کے علاوہ کوئی اور عمل داخل ہو جائے ۔ حالانکہ پانی پینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ ہمارے صلحاء اور سلف امت کا طرز احتیاط رہا ہے کہ عمل میں کچھ اور نہ در آئے اگرچہ جائز اور مستحب ہی کیوں نہ ہو کہ کہیں اجر سے محروم نہ ہو جائیں۔اسی طرح یہ حدیث اس صیہونی سوچ کا بھی رد کرتی ہے جس کے مطابق صیہونی دعوی کرتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام نے ہیکل کی تعمیر کی تھی ۔ ہمارے پاس اس حدیث سمیت کئی نصوص ہیں جو بتاتی ہیں کہ انہوں نے ہیکل نہیں بلکہ مسجد یعنی مسجد اقصی کی تعمیر ( تجدید) کی تھی ۔

طبرانی کی ایک صحیح حدیث مبارکہ جس میں ایسے وقت کی خبر دی گئی ہے کہ ایک مسلمان خواہش کرے گا کاش اسے اتنی جگہ میسر آجائے جتنی کمان کا سِرا رکھنے کے لیے ہوتی ہے تاکہ وہ وہاں سے بیت المقدس کا نظارہ کرسکے۔اسی طرح ایک اور روایت میں سیدناموسی علیہ السلام کی خواہش کہ اگرچہ زندگی میں وہ ارض مقدس میں داخل نہیں ہوسکے لیکن انہیں ارض المقدس میں دفن کیا جائے مسجد اقصی کی فضیلت کو عیاں کرتی ہیں بلکہ احادیث میں اس کثرت سے مسجد اقصی سے متعلق احادیث مبارکہ موجود ہیں کہ انسان حیرانی کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے ۔ کیونکہ مسجد نبوی اور مسجد اقصی کے درمیان ایک طویل راہ گزر ہے پھر دور نبوی ﷺ میں قبلہ اول پر عیسائیوں کا قبضہ تھا لیکن نبی کریم ﷺ اپنے اصحاب کرام رضی ا للہ عنہم کے ساتھ مسجد اقصی کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں گویا وہ عیسائیوں کے تسلط سے آزاد ہو اور مسلمانوں کے پاس ہو ۔یہ ہے وہ یقین اور ایمان جو قبلہ اول کی آزادی پر یقین بڑھاتا ہے کہ وہ ضرور بالضرور فتح ہوگی اور ہماری پروان چڑھتی یہ نسل اپنی آنکھوں سے بیت المقدس کی فتح کو دیکھے گی ۔ باذن اللہ ۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں بیت المقدس کا آخری زمانے میں تذکرہ !
ہم پہلے بیت المقدس کا قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں عمومی تذکرہ دیکھ چکے ہیں ، اب بطور خاص بیت المقدس کی آزادی سے متعلق نصوص کو دیکھیں گے ۔قرآن مجید میں بالکل واضح اور قطعیت کے ساتھ تو نہیں لیکن ایسی آیات موجود ہیں جن میں اس حوالے سے اشارے موجود ہیں کہ یہود جب جب تباہی پھیلائیں گے تو انہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ذریعے ذلیل و رسوا کرے گا ۔ ان آیات میں سے ایک مضبوط اور قوی آیت سورہ اسراء کی ہے جس میں بنی اسرائیل کے فساد کے حوالے سے تذکرہ ہے ۔ارشاد ربانی ہے : (اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ بات بتلا دی تھی کہ تم ضرور ملک(بیت المقدس ) میں دو مرتبہ خرابی کرو گے اور بڑی سرکشی کرو گے۔ پھر جب پہلا وعدہ آیا تو ہم نے تم پر اپنے بندے سخت لڑائی والے بھیجے پھر وہ تمہارے گھروں میں گھس گئے، اور اللہ کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا۔ پھر (اس کے بعد تمہاری توبہ کے نتیجے میں) ہم نے تمہیں دشمنوں پر غلبہ دیا اور بکثرت مال اور اولاد عطا کیے اور تمہیں ایک بڑی افرادی قوت بنادیا۔ اگر تم بھلائی کرو گے تو اپنے ہی لیے کرو گے ، اور اگر برائی کرو گے تو وہ بھی اپنے ہی لیے کرو گے ، پھر (تمہاری سرکشی کے سبب) دوسرا وعدہ آیا تاکہ تمہارے چہروں پر رسوائی پھیر دی جائے اور (تمہارے دشمن) مسجد میں گھس جائیں جس طرح پہلی بار گھس گئے تھے اور جس چیز پر قابو پائیں اس کا ستیاناس کر دیں۔عین ممکن ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے، اور لیکن اگر تم پھر وہی (نافرمانیاں )کرو گے تو ہم بھی پھر ویسا ہی کریں گے، اور ہم نے دوزخ کو کافروں کے لیے قید خانہ بنایا ہے۔)

اللہ تعالیٰ کے اس قول(پھر (تمہاری سرکشی کے سبب) دوسرا وعدہ آیا تاکہ تمہارے چہروں پر رسوائی پھیر دی جائے اور (تمہارے دشمن) مسجد میں گھس جائیں جس طرح پہلی بار گھس گئے تھے اور جس چیز پر قابو پائیں اس کا ستیاناس کر دیں۔) میں علماء کا اختلاف ہے کہ حالیہ بنی اسرائیل کا فساد فسادِ ثانی ہے یا نہیں ۔کچھ کی رائے ہے کہ یہ فساد ثانی ہے اور اب ان کی پکڑ ہوگی جبکہ دوسرے گروہ کی رائے برعکس ہے کہ فساد ثانی بھی وہ کرچکے ہیں اور پکڑ بھی ہوچکی ہے ۔اہل علم کے اقوال کے اختلاف سے ہٹ کر دیکھیں تو ہمارے پاس ایک مضبوط دلیل یہی آیت ہے کہ یہود کی تباہی قریب ہے ۔( اگر تم پھر وہی (نافرمانیاں )کرو گے تو ہم بھی پھر ویسا ہی کریں گے،) اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آج بنی اسرائیل کی شقاوت اور فساد حد سے گزر گیا ہے اور سو فیصد وہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی دھمکی کے مصداق بن چکے ہیں کہ اگر تم فساد پھر کرو گے تو ہم بھی تمہاری پکڑ پھر سےکریں گے ۔

اسی طرح ہمارے پاس مختلف احادیث ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عنقریب مسجد اقصی صیہونیت سے آزاد ہوجائے گی، چند دلائل آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔
پہلی دلیل مسند احمد کی وہ حدیث مبارکہ ہے جس کے مطابق جب دجال آئے گا تو وہ بیت المقدس میں مسلمانوں کا شدید محاصرہ کرے گا حتی کہ عیسی علیہ السلام کے نازل ہونے کے بعد یہ محاصرہ اپنے اختتام کو پہنچے گا ۔اس حدیث میں محاصرے کا لفظ واضح دلیل ہے کہ اُس وقت بیت المقدس صیہونیوں سے آزاد ہوگا کیونکہ یہود اندر سے نہیں بلکہ باہر سے محاصرہ کریں گے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ کسی اور جگہ سے محاصرہ کرنے آئیں گے (جبکہ فی الوقت وہ مسجد کا محاصرہ نہیں کرتے بلکہ مسجد درحقیقت ان کے زیر تسلط ہے اور وہ جب چاہیں تباہی مچادیتے ہیں ۔)

ایک دوسری دلیل وہ احادیث ہیں جن میں قرب قیامت یہود سے باقاعدہ قتال کا واضح تذکرہ موجود ہے (جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہود پر فتح دے گا ) مسلمانوں کی تاریخ دیکھیں تو کہیں بھی یہود سے قتال کا تذکرہ نہیں ملتا بلکہ عیسائیوں سے سالہاسال لڑنے والی خونریز واقعات کا تسلسل ہے ، جن میں مسلمانوں کو فتوحات بھی نصیب ہوئیں لیکن یہود کا ذکر تاریخ میں موجود نہیں ہے البتہ اب استعمار کی سازشوں کے بعد یہود کے ساتھ معرکہ ضرور درپیش ہے ۔

تیسری دلیل ابو داؤد کی وہ حدیث مبارکہ ہے کہ جس میں جب ارض مقدس میں خلافت اسلامی کے قائم ہونے کی خبر دی گئی ہے ۔اس حدیث میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ خلافتِ اسلامی قائم ہوچکی ہے یانہیں ۔علماء کی راجح رائے کے مطابق خلافتِ اسلامی کا قائم ہونا باقی ہے جو کہ قرب قیامت ہوگا ۔
آگے بڑھنے سے پہلے لفظ خلافت اور خلیفہ کو سمجھ لیجیے ۔

خلافت کے دو معنی ہیں عام اور خاص ۔عام خلافت سے مراد عام اسلامی حکومتیں ہیں جبکہ خاص معنی سے مراد خلافت علی منہاج النبوۃ ہے ۔جب احادیث میں خلافةٌ یا الخلافة کا ذکر آئے (یعنی لفظ خلافہ کے اوپر تنوین ہو یا ال ہو) تو مطلب ہے خلافہ علی منہاج النبوہ لیکن جب خلیفہ یا خلفاء کا لفظ آئے تو اس سے مراد ہے عام مسلمان حکمران یا طرز حکمرانی ، یہ اصول یا قاعدہ خلافت والی احادیث کی تشریح کا ایک اہم اصول ہے، اسے اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے ،اس کے ہمارے پاس بیشتر دلائل بھی ہیں ۔ مثلا اللہ رب العزت کا فرمان ( میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں) بھی عام معنی پر مشتمل ہے نہ کہ خلافۃ علیٰ منہاج النبوۃ پر ، کیونکہ ہم میں سے ہر شخص خلافۃ علیٰ منہاج النبوۃ کا خلیفہ ہے نہ ہوسکتا ہے ۔اسی طرح سورہ انعام کی آیت ( وہی ہے جس نے تمہیں زمین پر نائب (خلائف ) بنایا ) سے مراد بھی عام معنی ہے ۔خلائف یعنی ایک دوسرے کے بعد جانشین ہونا اور اپنے سے پہلے حکمران کا خلیفہ یعنی نائب ہونا ۔

صحیح بخاری کی حدیث مبارکہ کہ میرے بعد بکثرت خلیفہ آئیں گے ، خلافۃ علی منہاج النبوۃ کی بجائے دیگر طرز حکمرانی پر دلالت کرتی ہے کہ حکمران اپنے پیش رو کے جانشین ہوں گے کیونکہ آپ ﷺ کے بعد خلافۃ علی منہاج النبوۃ کی کثرت نہیں ہوئی ۔ اسی طرح امام مہدی کے ظہور والی روایت کہ " خلیفہ کی موت کے بعد حکمران کے چناؤ میں اختلاف ہوگا " میں خلیفہ سے سے مراد بھی عام مسلمان حکمران ہے نہ کہ خلافۃ علی منہاج النبوۃ ۔ اسی طرح قربِ قیامت حالات کی پیشگوئی کرنے والی ابن ماجہ کی حدیث " تمہارے ایک خزانے کے پاس تین آدمی باہم لڑائی کریں گے، ان میں سے ہر ایک خلیفہ کا بیٹا ہو گا " بھی عام معنی پر دلالت کرتی ہے ،خلیفہ یعنی عام مسلمان حکمران کا بیٹا ہوگا ۔

خلیفہ کا عام اور خاص معنی سمجھنے کے بعد ہم اپنے موضوع کی طرف واپس پلٹتے ہیں ۔
اب بیت المقدس میں خلافت کے نزول والی حدیث دیکھیں تو عام یا خاص کسی بھی معنی میں ابھی تک حدیث مکمل نہیں ہوئی ۔
بنی امیہ کی خلافت کا مرکز دمشق شام تھا جبکہ عباسیوں کا بغداد عراق تھا ۔ کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ بیت المقدس اور خلافت والی حدیث سیدنا عیسی علیہ السلام پر لاگو ہوگی ، درست تطبیق نہیں ہے کیونکہ خلافت اس امت کے لیے خاص کی گئی ہے جبکہ عیسی علیہ السلام کا معاملہ(طرزِ حکمرانی کے اصول) مختلف ہے ، ان کی حکومت کے اقدامات بالکل مختلف ہوں گے جو ابھی تک اس امت کے لیے خاص نہیں کیے گئے مثلا خنزیر کا قتل ، جزیہ کا ختم ہونا وغیرہ ۔ اسی طرح خلافت والی حدیث میں خلافت آنے کے بعد دنیا میں بڑے بڑے تباہ کن زلزلوں ، غموں ، دکھوں اور حادثات کا تذکرہ ہے جو کہ ابھی تک تاریخ میں نہیں ملتا کہ ایسا ہوچکا ہے ۔

مختصرا یہ کہ درج بالا نصوص کو دیکھیں تو ثابت ہوتا ہے کہ یہود دجال کے آنے سے پہلے ارض فلسطین سے دھتکارے جاچکے ہوں گے اور ان کے ساتھ دو معرکے ہوں گے ۔ پہلے معرکے کے نتیجہ میں فتح بیت المقدس ہوگی جو کہ امام مہدی، سیدنا عیسی علیہ السلام اور دجال کے آنے سے پہلے ہوگا اور دوسرا معرکہ ان کے آنے کے بعد ہوگا ۔

یہود کو ارض مقدس سے نکال باہر کیے جانے کے مختلف دلائل ہیں جن میں:
1: دجال یہود سمیت مسلمانوں کا بیت المقدس میں محاصرہ کرے گا اور اصفہان کے ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ ہونگے ۔ یہودی ایران میں رہائش پذیر ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں ابھی وہ ایران میں نہیں ہیں جو ثابت کرتا ہے کہ یہود بیت المقدس سے نکال دیے جائیں گے اور وہ پھر وہاں دجال کے ساتھ آئیں گے ۔
2:جب خلافت بیت المقدس میں داخل ہوگی تو صیہونیوں کے وہاں رہنے کا جواز باقی نہیں رہے گا ۔
3: اسی طرح ابی داؤد کی حدیث کے مطابق قرب قیامت بیت المقدس میں مسلمان آباد ہوجائیں گے اور مدینہ میں کم ہوجائیں گے اس بات کی دلیل ہے کہ بیت المقدس عنقریب فتح ہوگا اور یہود وہاں سے دھتکارر دیے جائیں گے ۔

اسی حدیث میں آگے چل کر قسطنطنیہ کی فتح کا تذکرہ ہے ، یعنی پہلے بیت المقدس مسلمانوں سے آباد ہو جائے گا اور مدینہ ویران ہوجائے گا ، یعنی اس کی آبادی کم ہوجائے گی اور اس کا سبب عیسائیوں سے وہ جہادی معرکے ہوں گے جن میں شرکت کے لیے مسلمان مدینہ سے ارض شام چلے جائیں گے کیونکہ مسلمانوں کا عیسائیوں کے ساتھ معرکہ وہیں(موجودہ ملکِ شام میں) لڑا جائے گا جس کے نتیجے میں قسطنطنیہ آزاد ہوگا ، فتح قسطنطیہ کے ساتھ ہی دجال کا خروج ہوجائے گا ۔اس کی وضاحت ابن ماجہ کی وہ طویل حدیث ہے جس میں نبی کریم ﷺ دجال کے بارے میں تفصیلی خبر دیتے ہیں کہ وہ مدینہ کا محاصرہ کرلے گا تو صحابیہ حیران ہو کر پوچھتی ہیں ، یا رسو ل اللہ ﷺ عرب اس وقت کہاں ہونگے؟جواب میں نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ عرب اس دور میں کم ہوں گے اور ان میں سے بھی اکثر اپنے حکمران سمیت بیت المقدس میں ہوں گے ۔ یہ بات(اپنے حکمران سمیت بیت المقدس میں ہوں گے ) واضح دلیل ہے کہ دجال کے آنے سے پہلے بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوچکا ہوگا ۔اللہ تعالیٰ جلد ان فتح و کامیابیوں کے ذریعے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈا کرے ۔

ان نصوص کا تذکرہ کرنے کے بعد میں مسلمانوں کو ایک نصیحت کرنا چاہوں گا کہ جب یہ نصوص ہمارے دلوں کی تسکین کا سبب ہیں تو جھوٹی، موضوع اور ضعیف روایات کو بنیاد بنا کر مسجد اقصی کا تفصیلی فضائل و محاسن بیان کرنے والی روایات سے اجتناب کیجیے( کہ جب ہمارے پاس درست مواد موجود ہے تو ہم غلط مواد کے ذریعے بشارتیں کیوں سمیٹتے پھریں ۔ )

ترجمے کا اختتام شیخ احمد کے ابتدائی کلمات میں موجود نصیحت سے کیا جاتا ہے تاکہ مذکورہ بشارتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس بھی باقی رہے ۔شیخ احمد امت کی مجموعی صورتحال کا تذکرہ یوں کرتے ہیں ۔

اس وقت امت مسلمہ کئی داخلی اور خارجی مشکلات سے گزر رہی ہے ، فلسطین کا مسئلہ تو نمایاں ہے لیکن مشرقی ترکستان کے ایغور مسلمان پر ہوتا ہوا ظلم و ستم ہماری نظروں سےاوجھل ہے ، (اسی طرح میانمار کی مسلم برادری کس تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہے ، گنے چنے لوگ ہی باخبر ہیں ) جیلوں کی بات کریں تو وہاں مسلمان قیدیوں کی صورتحال ابتر ہے حتی کہ نبی کریم ﷺ کی وفات سے لے کر آج تلک جیلوں کا ایسا کرب ناک منظر سامنے نہیں آیا جو چند ماہ پہلے ملکِ شام کی جیلوں کا ہم نے دیکھا تھا ۔اب اگرچہ بشار الاسد کی معزولی کے ساتھ ان جیلوں کی سیاہ کاریوں کا باب ختم ہوا ہے لیکن اس کے بعد اسرائیلی جیلوں کی جو صورتحال منظر عام پر آئی وہ بھی کسی طرح کم نہیں ہے ، ایک طرف بیرونی دشمن کی طرف سے ظلم و جور کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف امت کے اندرونی مسائل بھی شدید ترین ہیں۔عین اس وقت جب غزہ میں نسل کشی کی جارہی تھی اس کے ہمسائے مسلمان ممالک میں مسلمان میوزیکل نائٹس منا رہے تھے ۔ میں نہیں جانتا کہ اصل تکلیف دہ چیز کیا ہے صیہونیوں کی فلسطین پر جارحیت یا امت مسلمہ کا اپنے بہن بھائیوں کے مجموعی حالات سے نظریں چرا کر رقص و سرور کی محفلوں کا انعقاد کرنا ، مغربی افکار کو اپنانا ، دین بیزاری ،دین میں شکوک و شبہات ، ایک دوسرے پر طعن و تشنیع ، گناہ کرنے پر اصلاح کرنے والوں کو یہ جواب دینا کہ ہم اپنے دلوں میں اہل غزہ کی تکلیف محسوس کرتے ہیں ، باقی رہے ہمارے اعلانیہ گناہ تو یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے ، اس میں کسی کو دخل اندازی کرنے کی ضرورت نہیں ۔

کون سی صورتحال زیادہ خطرناک ہے میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔ درست ہے کہ ساری امت شر میں مبتلا نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے نظریں چرانا ممکن نہیں کہ درج بالا مسائل امت مسلمہ میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔افسوس اس شخص پر ہے جو ان سب حالات سے باخبر بھی ہے لیکن اس کے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی بلکہ اس کی دوڑ دھوپ مال کمانے اور دنیا کے منصب و جاہ تک محدود ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں خیر اور بھلائی کے کاموں کو کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس راہ کی منزلیں ہمارے لیے آسان کرے اور مسجد اقصی جلد صیہونیوں کے تسلط سے آزاد ہو ۔ آمین۔

Comments

Avatar photo

انعم زیدی

انعم زیدی ہے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایم فل کی طالبہ ہیں۔ آن لائن اور آف لائن مختلف پلیٹ فارمز پر لسانیات کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ عربی اور انگلش سے اردو ترجمہ میں مہارت رکھتی ہیں۔

Click here to post a comment