ہوم << پاک بھارت سفارتی جنگ کا آغاز- سلمان احمد قریشی

پاک بھارت سفارتی جنگ کا آغاز- سلمان احمد قریشی

گزشتہ ماہ پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روزہ مسلح جھڑپ کے بعد اگرچہ عسکری محاذ خاموش ہو چکا ہے، لیکن اصل معرکہ اب سفارتی میدان میں جاری ہے۔ دونوں ممالک نے عالمی سطح پر ایک بھرپور سفارتی مہم کا آغاز کر دیا ہے، جس کا مقصد دنیا کے سامنے اپنا مؤقف مؤثر انداز میں پیش کرنا اور عالمی رائے عامہ کو اپنی حمایت میں ہموار کرنا ہے۔

پاکستان کی جانب سے ایک نو رکنی پارلیمانی وفد تشکیل دیا گیا ہے جس کی قیادت سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں۔ اس وفد میں ڈاکٹر مصدق ملک، انجینئر خرم دستگیر، سینیٹر شیری رحمان، حنا ربانی کھر، فیصل سبزواری، سابق سفیر تہمینہ جنجوعہ اور جلیل عباس جیلانی جیسے تجربہ کار سیاست دان اور سفارت کار شامل ہیں۔ ان کا مشن واضح ہے: پاکستان کے مؤقف کو دلائل، شواہد اور تاریخ کے آئینے میں دنیا کے سامنے رکھنا اور بھارتی پراپیگنڈے کا بھرپور اور مدلل جواب دینا۔

پاکستان عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ حالیہ کشیدگی کسی وقتی واقعے کا نتیجہ نہیں، بلکہ مسئلہ کشمیر کے دیرینہ اور حل طلب تنازع کا تسلسل ہے۔پاکستان کا مؤقف ہے کہ اگر عالمی طاقتیں اس بنیادی مسئلے کو نظرانداز کرتی رہیں، تو جنوبی ایشیا میں امن کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے گا۔

بھارت نے بھی امریکہ، یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں سات مختلف وفود روانہ کیے ہیں۔ انہی کوششوں کے تحت ششی تھرور جیسے معروف بھارتی سیاست دان کولمبیا میں بھارتی بیانیہ پیش کرنے میں ناکام نظر آئے۔ بھارت خود کو ایک جمہوری، سیکولر اور دہشت گردی کا شکار ملک کے طور پر پیش کر رہا ہے، لیکن یہ دعویٰ اس وقت کھوکھلا محسوس ہوتا ہے جب دنیا کینیڈا میں خالصتان تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل، امریکہ میں سکھ رہنماؤں پر حملوں کی کوششوں، اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت جیسے واقعات پر نظر ڈالتی ہے۔

اس صورتحال میں پاکستان ایک بار پھر اس سفارتی روایت کو زندہ کر رہا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو نے اقوامِ متحدہ میں جرات مندی کے ساتھ اپنائی تھی۔ آج بلاول بھٹو زرداری اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بلاول بھٹو یورپ میں اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی بدولت ایک مثبت اور معتبر امیج رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں بھٹو خاندان کی سیاسی میراث اور نوجوان نسل کی توانائی کا امتزاج ہے۔ جواں سال بلاول چونکہ یورپ سے تعلیم یافتہ ہیں، اس لیے وہ یورپی رہنماؤں اور عوام سے بہتر انداز میں مخاطب ہو کر پاکستان کا مقدمہ زیادہ مؤثر طریقے سے پیش کر سکتے ہیں۔ان کا واضح پیغام ہے کہ اگر جنوبی ایشیا میں دیرپا امن مطلوب ہے، تو مسئلہ کشمیر کا منصفانہ اور قابلِ قبول حل ناگزیر ہے۔

عالمی طاقتوں کا کردار اس سفارتی جنگ میں غیرمعمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ چین حسبِ روایت پاکستان کا قریبی اتحادی ہے اور سی پیک سمیت مختلف شعبوں میں پاکستان کی عملی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ روس نے بھی حالیہ برسوں میں بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دفاعی اور تجارتی روابط کو وسعت دی ہے۔
امریکہ کی پالیسی میں بھی نمایاں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب دوبارہ عالمی سیاست میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کی پالیسی جنگوں سے گریز، مذاکرات اور معاشی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ وہ نہ صرف افغان امن معاہدے اور بھارت و چین کے درمیان "سیزفائر" جیسے معاملات میں کریڈٹ لیتے ہیں، بلکہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی خواہش کا بھی متعدد بار اظہار کر چکے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے لیے یہ ایک نادر سفارتی موقع ہو سکتا ہے، بشرطیکہ اسے مؤثر طور پر استعمال کیا جائے۔

ترکی اور آذربائیجان کھل کر پاکستان کے مؤقف کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔ بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا جیسے خطے کے دیگر ممالک بھی بھارت کے جارحانہ رویے سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ مستقبل میں بنگلہ دیش پاکستان کے مزید قریب آ جائے۔اس معاملہ پر پاکستان کو بھرپور انداز میں گرمجوشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بنگلہ دیش اور پاکستان خطہ میں بھارت کے لیے ایک کھلا چیلنج ہیں۔ماضی کی غلطیوں کو فراموش کرتے ہوئے مستقبل بہتر کیا جاسکتا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان روایتی دشمنی کے تناظر میں بھارت کا اسرائیل سے بڑھتا ہوا اتحاد ایران کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، جو بھارت کی ایران سے قربت میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

او آئی سی کی مسلسل حمایت، اور سب سے بڑھ کر بھارت کی آبی جارحیت کو یورپی فورمز پر مؤثر طریقے سے اٹھانا، سفارتی محاذ پر پاکستان کے مؤقف کو تقویت دے سکتا ہے۔ پانی کے مسئلے پر بھارت کے جارحانہ عزائم کا انکشاف یورپ میں خاصا اثر ڈال سکتا ہے، کیونکہ یورپی اقوام ماحولیات اور قدرتی وسائل کے حوالے سے خاصی حساس ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری ذاتی مفادات اور معاشی ترجیحات سے ہٹ کر خطے کے زمینی حقائق کا غیرجانبدارانہ تجزیہ کرے۔ اگر مسئلہ کشمیر کو مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا، تو یہ سفارتی کشمکش کسی بھی وقت ایک بڑے عسکری تصادم میں بدل سکتی ہے، اور اس بار اس کی قیمت صرف پاکستان یا بھارت نہیں بلکہ پوری دنیا کو چکانا پڑے گی۔

Comments

Avatar photo

سلمان احمد قریشی

سلمان احمد قریشی اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ تین دہائیوں سے صحافت کے میدان میں سرگرم ہیں۔ 25 برس سے "اوکاڑہ ٹاک" کے نام سے اخبار شائع کر رہے ہیں۔ نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنے تجربے و بصیرت سے سماجی و سیاسی امور پر منفرد زاویہ پیش کرکے قارئین کو نئی فکر سے روشناس کراتے ہیں۔ تحقیق، تجزیے اور فکر انگیز مباحث پر مبنی چار کتب شائع ہو چکی ہیں

Click here to post a comment