ہوم << ارض مقدس پہ ڈاکہ اور مجرم کون؟ محمد سلیمان منصور

ارض مقدس پہ ڈاکہ اور مجرم کون؟ محمد سلیمان منصور

دنیا کا ہر خطہ اپنی ایک حیثیت رکھتاہےاور اسی حیثیت کے مطابق اسکی اہمیت ہوتی ہے۔اور اس اہمیت کے مطابق اسکے ساتھ رویہ اورسلوک ہوتاہے۔

تاریخ پر نظر دوڑائیں تویہ بات بالکل روزروشن کی واضح ہو جائے گی قومیں رہائش اور سکونت کےلئے اسی جگہ کو زیادہ مناسب اور موضوع سمجھتی ہیں جہاں کی آب وہوا٬ موسم٬ زمینی پیداوار٬ معاشی نظام کی بہتری اور معیشت مضبوط ہو۔جس جگہ خوبصورت لہلہاتے ہوئے کھلیان، باغ وبہار، بحر وبر، سبزہ زارسے گھرے ہوئے پہاڑاور افق کی بلندی سے بہتے ہوئے چشمیں وہاں کی موحولیات پر اثر انداز ہوتے ہوں۔پھر مزید برآں سرحدی، ثقافتی، تمدنی اورمذہبی لحاظ سے کسی جگہ کو اہمیت حاصل ہوتویہ اس کی قدروقیمت کو چارچاند لگادیتی ہے۔

زمین کے خطوں پر نظر دوڑائیں تواس طرح کی تصویر کشی ارض مقدس ارض فلسطین کے خطہ کی نظر آتی ہے۔جس کی گواہی خود بنانے والے رب ذوالجلال نے دی ہے کہ یہ خطہ ارض مقدس ہے۔ارشاد فرمایا: یقوم ادخلواالارض المقدسۃ ( المائدہ: 21 ) موسی علیہ السلام نے کہا اے میری قوم تم اس مقدس سر زمین ( شام وفلسطین) میں داخل ہوجاؤ۔اور کہیں فرمایا کہ یہ زمین بابرکت ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: ونجینہ ولوطاالی الارض التی برکنا فیھا للعلمین( الانبیا: 71) ہم اس کو ( ابراہیم) اور لوط کو بچاکر اس زمین کی لے چلے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کےلیے برکت رکھی ہے۔

میں برکت کی تشریح میں نہیں جاتا بس یہی بات اس علاقہ کی برکت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ رب ذوالجلال نے اولوالعزم پیغمبروں کو یہاں پیدا فرمایا، ان کا مسکن بنایا، انک ی ہجرت گاہ بنایا، ان کا مدفن بنایا، اور حضرت موسی کی قوم کوتو اس مقدس جگہ نہ جانے پر زجروتوبیخ اور خسران کا پروانہ سنایا، اور حضور علیہ السلام کا قبلۂ اول اور شب معراج پر انبیاء کی اجتماعی عبادت کا مرکز بنایا۔

یہ مقام جتنا زیادہ بابرکت ہے، اتنا زیادہ محل نزاع ہے۔دنیا کے سماوی مذہب کے ماننے والوں نے اس پر اپنے حق تملیک کا دعوی کیا، اگرچہ وہ خود سماوی مذہب پر نہ ہوں، اور یہ اس لیے کیا تاکہ اپنے جرائم اور تنفر مذھب کو چھپا سکیں، لیکن جو تدبیر اور طریقہ اختیار کیا وہی ان کے اصل چہرہ اور خبث باطن کی دلیل بن کر سامنے آیا۔کیونکہ کسی بھی مذہب میں کسی علاقہ پر فتح حاصل کر نے کے لیے اور اس پر قبضہ کر نے کےلیے جو اصول مقرر ہیں، اس میں معصوم بچوں، خواتین، بوڑھےاور گھروں میں بیھٹنے والے جوانوں پر حملہ کرنا اور انھیں قتل کرنا جائز نہیں، لیکن جب یہ کسی سماوی مذہب کے پیروکار ہی نہیں تو ان کا دعوی ملکیت کیسا؟ بلکہ تاریخ کا مطالعہ کر نے سے پتہ چلتا ہے کہ دورۂ عمری میں عیسائی پادریوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیت المقدس کی چابیاں رکھتے ہوئے دستاویز تیار کی تھیں جس میں تحریر تھا کہ بیت المقدس اور اس کے اردگرد کے علاقہ مسلمانوں کی ملکیت ہیں۔

لہذا آج کسی کا فلسطین پر دعوی ملکیت ایک ڈاکہ کی مانند ہے۔ اور ڈاکہ مارنا ہر مذہب میں ناجائز ہے۔اور ہر قانون میں ظلم شمار ہوتاہے۔اور ظلم پر معاونت کرنے والا بھی ظالم اور مجرم ہوتاہے۔اور معاونت جہاں اسک و سپورٹ اور مدد فراہم کرنے سے ہو تی ہے وہیں اس ظلم پر خاموشی سے بھی ہوتی ہے۔ اس لئے لادین، حقوق انسانیت کے ٹھیکیداروں کاسفاکیت بھراسلوک تو جرم ہےہی لیکن اہل اسلام اور مسلم حکم رانوں کی اس پر خاموشی بھی جرم عظیم ہے۔اور اس جرم میں شریک ہو نےکا ہمارے پاس کوئی معقول عذر نہیں ہے ۔ دنیا ہماری بے حسی کا تماشا دیکھ رہی ہے۔اور ہم صلا ح الدین ایوبی کے منتظر ہیں۔اور ان کی راہ تک رہے ہیں۔

یاد رکھیں! ماں کی کوکھ نے تو صرف صلاح الدین جنا تھا، انھیں فاتح بیت المقدس ان کے جذبۂ ایمانی ، توکل علی اللہ، پاکیزہ ماحول، اپنے اندرخود اعتمادی، اپنے اختیارات کے بقدر تیاری اوراپنے زمانہ کی جنگی تدابیر ی، وہ جوہرتھے جس سے صلاح الدین فاتح بیت المقدس بنے۔
ماں کی کوکک نے تو صرف ابو عبیدہ، خالد بن ولید اور عمر ابن خطاب جنے تھے، انھیں فاتح بیت المقدس تو اسلام کے خوبصورت نظام نے بنایا تھا۔
آج بھی اگر فاتح بیت المقدس بننا ہے تو اسلام کے دامن میں آنا پڑے گا۔اپنے لسانی ، قومی،نسبی، عصبی، اختلافات کو پس پشت ڈال کراتفاق، اتحادکا پھریرا بلند کر نا پڑے گا۔اپنے ذاتی مفاد کو پیچھے رکھ کراسلامی اقدار کی حفاظت کی خاطر اپنے جان ومال کو پیش کرنا پڑیگا۔اسلامی تعلیمات کا جامہ اوڑھ کر اخلاص وللہیت کی روح پیدا کرکے عمل کی وہ تصویر پیش کرنی پڑیگی جو کفر کے ایوانوں میں ہلچل مچادے۔دل میں جذبۂ ایمانی٬شوق شہادت اورہمدردی مسلمین وانسانیت رکھ کر وہ آوازبلند کرنی پڑیگی جو دشمنان اقصی پہ رعب ودبدبہ طاری کردےاور انھیں گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کردے۔

آج حالات نے سوچنے پر مجبور کردیا٬ آج نہ اٹھ سکے تو پھر کبھی نہ اٹھ سکیں گے۔آج حالات نے رخ بدلا ہے اگر ہم نے رخ نہ بدلا تو بدلتے حالات ہمارا رخ خود بدلیں گے لیکن اسکے نتائج برے سنگین ہونگے۔