انسانی زندگی اتار چڑھاؤ ، خوشی و غم اور راحت و تکلیف کا مرکب ہے۔ ہر انسان کو زندگی میں ان مختلف حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ کوئی بھی انسان ایک ہی حالت پر قائم نہیں رہ سکتا۔ بقول اقبال
سکون محال ہے قدرت کی کارخانے میں
ثبات تغیر کو ہے زمانے میں
دراصل یہ انقلابات اس امتحان کی مختلف انداز و مراحل ہیں، جس کے لئے انسان کو یہ زندگی ودیعت کی گئی ہے ۔ فرمان الٰہی ہے، " وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً " (سورۃ الانبیاء۔ ٣٥ ) ۔ ترجمہ : ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں۔ یعنی کبھی مصائب و آلام سے دوچار کرکے اور کبھی دنیا کی وسائلِ فراواں سے بہرہ ور کرکے، کبھی صحت و فراخی کی ذریعے سے اور کبھی تنگی و بیماری کی ذریعے سے ہم آزماتے ہیں ، تاکہ ہم دیکھیں کہ شکر و صبر کی ذریعے کون اپنے آپ کو رضائے الٰہی کا مستحق ٹھہراتے ہیں اور کون ناشکری و ناصبری سے غضب الٰہی کا موجب بنتا ہے ۔
انسان فطرتاً بہت سرکش ہے، جب اسے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے خوشی اور نعمتیں مل جائے تو اپنے رب کو بھلا کر تکبر کرنے لگتا ہے اور حق سے منہ پھیر لیتا ہے ، اور جب اسے مصیبت پڑتی تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے والا بن جاتا ہے ۔ قرآن کریم نے سورۃ روم آیت 35, سورۃ شورٰی آیت 48, سورۃ حٰمٓ سجدہ آیت 51 میں اس مضمون کو ذکر کیا ہے ۔
یہ سنتِ الٰہی ہے کہ جب کوئی قوم سرکش ہو کر غلط راستے پر چلنے پڑتا ہے تو ان لوگوں کو لگام لگانے اور واپس صحیح راستے پر لانے کیلئے تکلیف اور عذاب کا ایک کوڑا رسید کیا جاتا ہے تاکہ یہ لوگ توبۂ تائب ہوکر اللّٰہ کی طرف رجوع کریں، اسے ابتلاء باالنِّقم (عذاب کی ذریعے آزمائش) کہتے ہیں ۔ اس کی مثال ایک تیز رفتار گاڑی کو تباہی سے بچانے کے لئے سڑک پر لگے سپیڈ بریکر کی طرح ہے ، جو ڈرائیور کو سپیڈ کم کرنے اور راستے کی نشیب و فراز کا جائزہ لینے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ کئی لوگ اس آزمائش باالعذاب یعنی بدنی تکالیف اور مالی سختی سے سبق لیکر سُدھر جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں عذاب کی ذکر کے بعد تذکیر، رجوع اور تضرع وغیرہ الفاظ آتے ہیں۔ مثلاً لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ، لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ، لَعَلَّہُمۡ یَتَضَرَّعُوۡنَ، لَعَلَّہُمۡ یَتَفکَّرُوۡنَ..
ان الفاظ سے عذاب کی مدعا کا پتہ چلتا ہے ، کہ انسان تکبر اور سرکشی چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع کرکے اس کی بارگاہ میں گڑگڑائیں اور ہمیشہ کی تاوان اور تباہی سے بچ جائے ۔
لیکن بہت سے نافرمانوں میں اس قسم کی ابتلاء سے بھی رجوع الی اللّٰہ کا داعیہ پیدا نہیں ہوتا ۔ اللّٰہ کی عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار نہیں کرتے اور ان کا رخ اصلاح کی طرف نہیں مڑتے ۔ فرمانِ الٰہی ہے ، " وَ لَقَدۡ اَخَذۡنٰہُمۡ بِالۡعَذَابِ فَمَا اسۡتَکَانُوۡا لِرَبِّہِمۡ وَ مَا یَتَضَرَّعُوۡنَ ﴿۷۶﴾
اور ہم نے انہیں عذاب میں بھی پکڑا تاہم یہ لوگ نہ تو اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی عاجزی اختیار کی ۔
جب وہ اس امتحان میں فیل(ناکام) ہوئے تو ربِّ رحیم نے فوراً ان کو نہیں پکڑا بلکہ ایک اور موقع دے کر دوسری قسم کی امتحان سے آزمانے کا فیصلہ کیا جسے ابتلاء باالنِّعم (انعامات کی ذریعے آزمانا) کہتے ہیں۔
اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی بُری حالات کو تبدیل کرکے عیش و راحت کی دروازے ان پر کھول دئیے ۔ ان کی تنگ دستی کو خوشحالی سے اور بیماری کو صحت و عافیت سے بدل دیا، تاکہ یہ لوگ نعمتوں کو دیکھ کر اپنے منعم و محسن کو پہچانیں، اس کی طرف رجوع کریں اور نافرمانی کی روِش کو چھوڑ جائیں۔
کئی لوگ اس ابتلاء میں کامیاب ہو کر اپنے گناہوں اور نافرمانیوں پر نادِم ہوجاتے ہیں اور منعم و مہربان رب کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ۔ لیکن بہت سے باغیوں اور نافرمانوں کو اس انقلابِ حال سے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ وہ اسے لیل ونہار کی گردش سمجھ کر اس کے پیچھے کار فرما قدرتِ الٰہی اور اس کے ارادے کو سمجھنے میں ناکام ہوتے ہیں ۔ ان دونوں قسم کی آزمائشوں (ابتلاء باالنعم و النقم) کیساتھ ان سرکش لوگوں کا عذر ختم ہو کر، ان پر اتمام حجت ہوتی ہے ۔
تنگ دستی کا پہلا علاج ان کے لئے مؤثر ثابت ہوا نہ خوش حالی ان کے اصلاحِ احوال کیلئے کاگر ثابت ہوئی ، تو ان کی مہلت ختم ہوگئے۔ اب اس دنیا میں ان کی باقی رہنے کا جواز ختم ہوا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی عذاب میں اچانک اور دفعتاً پکڑ لئے اور ایسے نیست ونابود ہوگئے کہ ان کا سلسلۂ نسل بھی باقی نہ رہا ۔ ان کی ھلاکت پر افسوس کی بجائے خوشی اور اللّٰہ کی حمدوثنا کا حکم دیا گیا ۔ فَقُطِعَ دَابِرُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ؕ وَ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۵﴾ پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالٰی کا شکر ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے ۔
خوشی اور غم کے یہ حالات صرف سرکش و نافرمان لوگوں پر نہیں آتی، بلکہ نیک و فرمان بردار لوگ بھی زندگی میں ایسے تلخ و شیریں واقعات سے دو چار ہوتے ہیں ۔ لیکن ان حالات میں ان کا معاملہ نافرمانوں کے برعکس ہوتا ہے۔ وہ خوشی اور راحت پر اللہ کا شکر ادا کرنے والے اور تکلیف و مصیبت میں صبر کرنے والے ہوتے ہیں ۔ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ ۔ صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مومن کا معاملہ عجیب ہے ۔ اس کا ہر معاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے ۔ اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کو میسر نہیں ۔ اسے خوشی اور خوشحالی ملے تو شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو ( اللّہ کی رضا کے لیے ) صبر کرتا ہے ، یہ ( بھی ) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ۔‘‘ (صحیح مسلم ۔ 7500)
اس لئے ہمیں ہر حال میں اپنے رب کا فرمان بردار ہونا چاہئے ۔ خصوصاََ تکلیف اور مصیبت کی وقت اپنے رب کی حضور گڑگڑانا چاہئے ، گناہوں سے توبہ کرکے اپنی حالت کی اصلاح کرنا چاہئے ۔ عام طور پر لوگ آفت و مصیبت کی وقت خالق کو بھلا کر مخلوق کے سامنے شکایات کرنے لگتے ہیں ۔ اس سے امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہماری حالت پر رحم فرمائے اور ہماری مصائب کو آسان فرمائیں ۔ آمین۔
تبصرہ لکھیے