ہوم << سانگلہ ہل کا فسوں(2) - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

سانگلہ ہل کا فسوں(2) - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

سانگلہ ہل سے میری وابستگی 1974 کے بعد تب سے ہوئی ،جب میں اسلامی جمعیت طلبہ شیخوپورہ ڈسٹرکٹ کا ناظم بنایا گیا،اور یہ شہر اسی ضلع میں تھا،تو ایک دو بار فرائض منصبی کی ادائیگی کے سلسلے میں یہاں جانا پڑا،جس کی تفصیلات مجھے یاد نہیں۔سوائے ایک سفر کے جس میں، میں رات گئے یہاں پہنچا،اور ڈھونڈھ ڈھانڈ کر اس وقت کے امیر جماعت اسلامی ضلع شیخوپورہ ،سابق ایم این اے،مرحوم چوہدری نزیر احمد ورک کے داماد کے گھر جا پہنچا اور انہیں اپنے جبری قیام و طعام کی زحمت دی۔ اس کے بعد سانگلہ ہل ہی میری سرکاری ملازمت کا پہلا اسٹیشن قرار پایا۔

1984ء کے اواخر میں میری سلیکشن ہوگئی اور مجھے کچھ محنت کے بعد سانگلہ ہل کے اسلامیہ کالج میں پہلی پوسٹنگ ملی۔ ان دنوں میں ادارہ معارف اسلامی منصورہ لاہور میں کام کرتا تھا،اور منصورہ کے سامنے حبیب پارک ، جہاں اس وقت پانچ چھ ہی گھر تھے،اور اب تو ایک نہیں کئی جہان آباد ہیں۔۔۔میں پروفیسر باقر رضوی جو اسلامیہ کالج راوی روڈ میں پروفیسر تھے،شائد بعد میں پرنسپل بھی بنے،کے مکان کے عقبی پورشن کے دو کمروں میں اپنی نوبیاہتا بیگم اور نوزائیدہ بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔

پہلے میں وہاں ادارہ معارف اسلامی سے اوقات کار ختم ہونے کے بعد دن کا بقیہ اور رات کا سارا وقت گزارتا۔۔اب صرف رات گزارنے لگا۔۔وہ ایسے کہ صبح فجر سے پہلے سفر کی تیاری شروع کرتا،فجر کے فوراً بعد ویگن کے ذریعے لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچتا اور صبح فیصل آباد کی طرف جانے والی پہلی ٹرین پر سوار ہوکر تقریباً ایک گھنٹے کے سفر کے بعد۔۔سانگلہ۔ہل ۔۔کے ریلوے اسٹیشن پر جا اترتا۔

سفر کرنا مجھے زیادہ مرغوب تو نہیں ،تاہم ٹرین کا سفر مجھے آج بھی پسند ہے۔چند سال پہلے میں نے اسی شوق کی تکمیل کے لیئے قراقرم ایکسپریس سے لاہور جانے کا فیصلہ کیا ۔۔نجانے کیا مسئلہ تھا۔۔دھند کے باعث ٹرین بہت لیٹ آئی ،اور لاہور میں جو کام تھا وہ بھی نہ ہوسکا،کہ وقت ہی نہیں بچا تھا۔۔البتہ ٹرین کے سفر کا شوق تو پورا ہو ہی گیا،مگر بھاری قیمت پر۔۔اس کے بعد تو ٹرین کے سفر سے توبہ ہی کرلی۔

سفر کے دوران مجھے سوچنے،نوٹس لینے اور لکھنے کی عادت ہے۔۔مناظر دیکھنا اور لوگوں کو پڑھنا،ان کے طور اطوار اور رویوں کا مشاہدہ کرنا بھی by default میرا معمول رہتا ہے۔۔کیونکہ اس کے سوا کرنے کو کچھ ہوتا بھی نہیں اور کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔مطالعہ بھی ہوہی جاتا ہے،اگر ماحول موزوں ہو۔۔

لاہور سے سانگلہ ہل کے یہ اسفار مستقبل کے تانے بانے بننے اور اوہام و اندیشوں اور فکروں میں ہی طے ہوئے۔۔ ان دنوں میں بھرپور جوان تھا۔۔سر اور داڑھی کے بال گھنے اور jet black تھے ۔شباب ہی نہیں ،عنفوان شباب تھا۔۔،پھر ان سفروں نے کام دکھانا شروع کیا،اور سر کے بال ۔۔فارغ۔۔ہونے لگے۔۔اور ہم اب تقریباً 40 سال بعد مکمل فارغ البال ہوگئے ۔
ألا لیت الشباب یعود یوماً
فأخبرہ بما فعل المشیب

کاش کبھی اگر جوانی پلٹ کر آ ہی گئی تو میں اسے وہ سب بتاؤں گا ،جو بڑھاپے نے ہم جوانان رعنا کے ساتھ کیا۔۔مگر وہ باز نہیں آتا،نہ کسی کو بخشتا ہے،نہ جوانی کے نشے میں ڈوبا رہنے دیتا ہے۔
یہی تو زمانہ ہے۔ !
یہی تو گردش ایام ہے!

عربی جاہلی شاعر طرفہ بن العبد کے معروف معلّقہ کے یہ دو شعر بہت حسب حال و مقام ہیں۔۔
أَرَى العَيْشَ كَنْزاً نَاقِصاً كُلَّ لَيْلَـةٍ
وَمَا تَنْقُـصِ الأيَّامُ وَالدَّهْرُ يَنْفَـدِ

میں زندگی کو ایک ایسا خزانہ سمجھتا ہوں جو ہر شب (کچھ نہ کچھ) گھٹتا رہتا ہے اور زمانہ اور (دَور) ایام جس چیز کو گھٹاتا رہے وہ (ایک روز ضرور) فنا ہو جائے گی۔
لَعَمْرُكَ إِنَّ المَوتَ مَا أَخْطَأَ الفَتَـى
لَكَالطِّـوَلِ المُرْخَى وثِنْيَاهُ بِاليَـدِ

تیری جان کی قسم! بے شبہ موت جوان سے خطا کرنے کے زمانے میں ڈھیلی رسی کی طرح ہے درآنحالیکہ اس کے دونوں کنارے (کھینچ لینے والے شخص کے) ہاتھ میں ہوں۔

سو صاحبو!
ہم نے بھی سانگلہ ہل سے اپنی عملی زندگی کا جو سفر قریبا چالیس سال پہلے سیاہ بالوں ،مضبوط جسم اور پختہ عزائم کے ساتھ شروع کیا،اب اپنے لازمی منطقی انجام کی طرف رواں اور نقطۂ اختتام کی جانب نہ صرف بڑھ چکا ،بلکہ اختتام پذیر ہونے کو ہے۔۔یادوں کا ہر دریچہ اسی سفر حیات کی حقیقی کہانی ہے۔کسی لگی لپٹی،مبالغہ آمیزی اور اخفاء و تخفیف و تدھین۔۔۔مداہنت۔۔کے بغیر۔۔

سانگلہ ہل۔۔میری سرکاری محبت ہے،اس کی یادیں بہت دلکش و دلآویز اور ناقابل فراموش ہیں۔۔کراچی کے بہت فاضل اور سینیئر استاد،ماہر تعلیم اور علوم اسلامیہ کے محقق و معلم جناب ڈاکٹر شفقت حسین خادم صاحب زید مجدہ کے کلماتِ تشجیع کے مطابق۔۔
"یہ پہلا پہلا پیار ہوتا ہی بڑا دلفریب ہے۔"

مہربان ،قدردان اور دریچہ خوان دوستو!
سالہاسال سے ایک تأثر معروف عربی شاعر ۔۔النابغہ الذبیانی۔۔ کے ان اشعار کی صورت میرے ذہن پر حاوی رہا۔۔کہ زندگی کے آخر میں تو بس شیریں یادیں بھول جاتی اور تلخیاں باقی رہ جاتی ہیں ۔
اگرچہ حقیقت اور عموم وہی ہے،جو نابغہ عصر نے بتائی ہے، ممکن ہے میرے ساتھ بھی یہی ہو،مگر سانگلہ ہل میں گزرے اڑھائی سالوں کی ہر یاد شیریں،ہر سفر لطیف اور ہر شخصیت ناقابل فراموش ہے ۔
نابغہ نے بھی نا درست نہیں کہا:
المَرءُ يَأمُلُ أَن يَعيشَ۔۔۔۔وَطولُ عَيشٍ قَد يَضُرُّه
تَفنى بَشاشَتُهُ وَيَبقى۔۔۔۔بَعدَ حُلوِ العَيشِ مُرُّه
وَتَخونُهُ الأَيّامُ حَتّى۔۔۔۔لا يَرى شَيئاً يَسُرُّه

"انسان طویل زندگی کی خواہش رکھتا ہے،اسکے باوجود کہ طویل زندگی اسے تکلیف دیتی ہے۔
اس کی ساری بشاشت ختم ہوجاتی ہے اور زندگی کی شیرینی کے بعد اس کی تلخی ہی باقی رہ جاتی ہے۔
زمانہ اس کے ساتھ ایسا دھوکہ کرتا ہے کہ وہ خوش کن کچھ بھی نہیں پاتا۔"

بالعموم نابغہ کی یہ باتیں درست ہیں ،مگر میں جب پلٹ کر یادوں کے دریچے سے سانگلہ ہل میں اپنے گزارے ایام اور اس کے اسفار و احوال پر نظر ڈالتا ہوں ،تو مجھے سوائے مسرت،اطمینان،خوشی اور راحت کے کچھ نہیں ملتا۔ سانگلہ کی ان یادوں کو،یاد کرکے میں سرور سا محسوس کرتا ہوں ۔۔ایک ایک لمحہ مجھے آج تک یاد ہے،ایک ایک منظر،ایک ایک چہرہ میری لوح ذہن پر مرقوم و کندہ ہے۔ اچھا ماحول،اچھے لوگ ،دل کے سچے،مَن کے اُجلے لوگوں کے محبت بھرے رویے اور اچھی یادیں بھلائے نہیں بھولتے !!۔انہی تو اَمر ان لوگوں اور ان کے رویوں نے بھی بنادیا،جو بعد کے تیس سالوں میں میرے پلے پڑے۔ اور سانگلہ تو میرا پہلا پیار تھا ۔سرکاری۔۔اسے میں کیسے بھول سکتا ہوں ۔

عربی شاعر ابو تمّام کے یہ دو شعر بھی حسب حال ہیں۔
نقِّل فؤادك حيث شئت من الهوى
ما الحبُّ إلا للحبيب الأوّلِ
كم منزلٍ في الأرض يألفُه الفتى
وحنينُــه أبــداً لأوّلِ منــــزلِ

محبت اور عشق کے معاملے میں اپنا دل جہاں چاہو لے جاؤ ،مگر اصل محبت تو پہلے ہی محبوب سے ہوتی ہے۔ کتنی جگہیں ایسی ہوتی ہیں،جن سے کوئی شخص دل لگا بیٹھتا اور مانوس ہوتا ہے،لیکن اس کی تڑپ اور اصل محبت تو پہلی ہی منزل سےجڑی ہوتی ہے ۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ فیصل آباد ہیں۔ ڈائریکٹر کالجز، گورنمنٹ کالج سمن آباد کے ریٹائرڈ پرنسل اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق چیئرمین شعبہ عربی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے 30 سال کا تعلق ہے۔ بطور مقرر قومی پروگرام ۔۔حی علی الفلاح۔ سلسلہ "قر ان حکیم اور ہماری زندگی۔ نشری تقاریر پر مشتمل چھ کتب ''قول حسن، قول سدید، قول مبین، قول مجید، قول کریم اور قول حکیم شائع ہو چکی ہیں۔ دو کتب قول فصل اور قول کریم زیر ترتیب ہیں۔ ترکی جو میں نے دیکھا کے نام سے سفرنامہ شائع ہو چکا ہے۔ خود نوشت ''یادوں کا دریچہ'' زیرقلم ہے

Click here to post a comment