سانگلہ ہل۔۔۔تب۔۔1985۔۔۔ ایک روایتی قصبہ نما شہر تھا، مگر میرے لیئے طویل سفر حیات کا ایک اور پہلا پڑاؤ ۔۔دل لگانے کی جگہ تو نہیں تھی،مگر نجانے اس کے کھارے پانی اور لوگوں میں کیا کشش تھی کہ میں نے اپنے مانوس شہروں اور محبوب مقامات کی فہرست میں اسے پہلے نمبر پر ہی رکھا۔۔
تفصیل سے ذکر ہوگا تو آپ بھی مان جائیں گے۔۔
اس شہر اور لوگوں کے بارے میرے پاس سوائے مدح ،اچھی ،دلکش،دل افروز،دلآویز یادوں کے سوا اور کچھ نہیں۔۔اسے مبالغہ سمجھ لیجیئے یا عاشق صادق کی نظر سے دیکھیئے ،احسان شناس کے دل سے پوچھیئے،تو حقیقت یہی ہے۔۔سانگلہ ہل سارے کا تو پتا نہیں،کالج کے لوگ بہت محبت کرنے والے اور یاد رکھے جانے کے قابل ہیں۔۔
یہ تین اپریل 1985 کا دن تھا۔جناب ضیاءالحق شہید کا مارشل لاء اپنے عروج پر تھا ۔چند ہی دن پہلے قومی انتخابات ۔۔جنرل۔الیکشنز۔۔دونوں معنیٰ میں۔۔۔غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے۔۔۔ میرے بھی کئی شناسا اور مہربان ممبر پارلیمنٹ بنے تھے۔
مجھےقومی سیاست میں حصہ لینے کا تو نہیں،البتہ کام کرنے کا شوق تھا۔ایک۔کارکن کی حیثیت سے۔۔اس سے پہلے دور طالب علمی میں بطور سٹوڈنٹ لیڈر ۔۔تحریک نظام مصطفی ۔۔میں سرگرم۔کردار بھی ادا کیا تھا،اور اس سے پہلے 1977 کے انتخابات میں بھی نمایاں حصہ لیا تھا۔۔اور 21 روزہ جیل یاترا بھی کی ،
اب جب اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ آیا، تو ہم سرکار کی نوکری میں چلے گئے۔۔۔۔اس زمانے میں آنکھیں کھلی اور زبان بند رکھنا لازم تھا،سرکاری ملازم کے لیئے۔۔۔۔
سو۔۔آہستہ آہستہ سیاست کا یہ کیڑا جلد ہی دم توڑ گیا۔۔اب سفر،پھر حضر،یعنی خانگی امور،بچے،،بیگم، تدریسی و تحقیقی معاملات میں سارا وقت گزرنے لگا۔۔
"اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں۔۔"
سوز و سازِ رومی تو نصیب میں نہ تھا،البتہ رازی کی بجائے پی ایچ ڈی کی ریسرچ کے طویل مراحل کے پیچ و تاب ایسے گلے پڑے کہ نہ رست کا ہوش تھا،نہ دن کا،نہ کھانے کا،نہ ارام کا۔۔یہ کشمکش سور پیچ و تاب 1995 میں جاکر ختم ہوئے۔۔
صاحبو!
سانگلہ ہل نہ تو لاہور سے دور ہے،نہ فیصل آباد سے ۔۔تقریباً وسط میں ہے۔ مگر بات سانگلہ ہل سے شروع ہوتی ہے اور دور تک نکل ہی جاتی ہے ۔خود نوشت کا یہی تو فنّی اور واقعی مسئلہ ہے کہ زندگی کے سب منظر ،یادیں اور واقعات و احساسات بیک وقت چھوٹے سے دریچے کے کواڑوں سے جھانکنے لگتے ہیں ۔
خیر ۔۔۔یہ تو چلتا ہی رہے گا۔۔
تین اپریل کی صبح نہا دھوکر،بال بناکر ،ہاتھ میں نوکری کا پروانہ تھام کر یہ نوجوان ۔۔منصورہ کے ملحقہ علاقے ۔۔حبیب پارک سے نکلا،ویگن پر بیٹھا،اور لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر جا اترا۔۔ٹکٹ لی اور فیصل آباد جانے والی ٹرین پر سوار ہوگیا۔۔انجانی منزل اور ان جانے مستقبل کی تلاش میں۔
مجھے اس سفر کی کوئی یاد اب یاد ہے،نہ تفصیل ذہن میں ۔تاہم گمانِ غالب یہی ہے کہ تیسرے درجے کی خشتی سیٹ کے کونے میں دبک کر ایک گھنٹے کا یہ سفر کھڑکی سے خوبصورت و دلکش مناظر کو دیکھتے اور اسٹیشنوں کے نام پڑھتے،پلیٹ فارم کے مناظر سے نظریں بچاتے یا چراتے ہی گزرا ہوگا۔۔ٹرین میں کوئی واقف نہیں تھا،نہ لاہور سے شیخوپورہ تک کا راستہ نیا تھا۔۔کہ بے شمار دفعہ یہاں سے گزرا تھا۔۔
مجھے یاد ہے کہ 1974 اور 77۔ کے درمیان میرے ایک مہربان جمعیتی دوست سرفراز چوہدری نے مجھے انگریزی کی ٹیوشن کے لیئے لاہور ۔۔گوالمنڈی میں ایک چوبارے پر قائم انگلش اکیڈیمی میں داخلہ لے دیا تھا۔جہاں شام کے وقت یہ کلاس پڑھنے میں روزانہ ٹرین سے لاہور جاتا اور رات کو واپس شیخوپورہ آتا ۔
اب یہ تو مجھے یاد نہیں کہ وہاں سے کچھ انگریزی سیکھی یا نہیں،البتہ ابن انشاء کی وہ غزل ضرور بارہا سنی،اور خود بخود یاد بھی ہوگئی، جو شائد اسد امانت علی نے گائی اور جسے سننے یا دوہرانے کا کوئی تصور منصورہ سندھ یا جمعیت کے ماحول میں ممکن نہ تھا۔۔۔
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو،اس شہر میں دل کو لگانا کیا۔
ہم آٹھ دس اکیڈیمی فیلوز تھے۔۔ایک خوبصورت ماڈرن نوجوان تھا،جو بہت پاپولر تھا،غالبا وہ یہ غزل گایا کرتا ۔وہ خود کو بھٹو شہید کے زمانے کے کسی صوبائی وزیر کا بھانجا کہتا۔
مجھے اس غزل کا یہ مصرعہ بہت بلیغ لگتا اور پسند تھا
"جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا"
غزل تو ساری ہی بہت پُر اثر تھی،اور گلوکار نے اسے گایا بھی خوب تھا۔۔بلیک اینڈ وائٹ کا زمانہ تھا۔۔یہ غزل جب بھی چھڑتی ،بہت لطف آتا۔بلیک اینڈ وائٹ کے باوجود اسد امانت علی کی چارلی چپلن سائز اور اسٹائل کی مونچھیں بھی خوب چمکتیں اور خاصے کی چیز ٹہرتیں۔۔بعد میں جب ہم یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو ایسی ہی مونچھیں سابق وائس چانسلر ،اپنے استاد ڈاکٹر ذوالفقار علی ملک مرحوم کے چہرے پر دیکھیں تو لطف دوبالا بھی ہوا اور یہ غزل اور اس کا گائیک بھی یادوں کا پختہ نقش بن گئے۔
لاہور سے شیخوپورہ کا سفر تو معمول کی بات تھی۔۔لاہور سے نکلے،دو موریہ پل اور دوسری جانب مینار پاکستان سے آنے یا اس طرف جانے والی ٹریفک کو نیچے گزرتا دیکھنا،دریائے راوی،بادامی باغ،امامیہ کالونی،شاہدرہ۔۔اور شاہدرہ تک مین ٹریک پر پشاور اور پنڈی سے آنے والی ایکسپریس ٹرینوں کی تیز رفتار کراسنگ،چنگھاڑ اور مفاخرانہ برق رفتاری کے مناظر بہت اچھے لگتے۔۔وہاں سے بَل کھا کر ریلوے ٹریک کا شیخوپورہ،فیصل اباد ٹریک پر وحدہ لاشریک کی طرح ہماری معصوم اور البیلی ٹرین کا ہلکا دھواں چھوڑتے ہوئے رفتار پکڑنا بھی بہت دلکش منظر ہوتا۔ان دنوں ٹریک کے دونوں جانب کے مناظر بہت طراوت و لطافت بخش تھے۔۔ان دنوں پلاسٹک شاپنگ بیگز کا رواج نہ تھا،اس لیئے ٹریک اور اس کے اطراف صاف اور خوبصورت ہوتے اور بھلے لگتے ۔ اب تو۔۔۔توبہ ہی بھلی غلاظت اور کراہت کے قومی نشانات سے۔
مسن کالر،قلعہ ستار شاہ اور شائد ایک آدھ اور اسٹیشن چشم زدن میں گزر جاتے تو شیخوپورہ کا خوبصورت،وسیع اور دلکش ریلوے جنکشن نمودار ہوتا۔۔ٹرین کی رفتار ہلکی اور دل کی دھڑکن تیز ہوتی جاتی۔
شیخوپورہ بھی میرا محبوب اور کسی حد تک میری شناخت و تعارف کا شہر ہے۔۔لڑکپن سے جوانی کی دہلیز کا سفر یہیں طے ہوا۔یہاں میرے محبوبین کے گہرے نشانات اور بزرگوں کے نام و نشان ثبت ہیں۔اور ان کیخوشبوؤں اور شفقتوں کا ڈیرہ ہے۔۔یہاں میں نے 1974 تا 78 بہت فعال ،بے فکر اور متحرک وقت گزارا۔۔
تعلیمی،سیاسی،سماجی یادیں محض ایک دریچہ نہیں،پورا دبستان ہے،جو فی الوقت کھولنا خلط مبحث ہی ہوگا۔
شیخوپورہ سے ٹرین اس ٹریک کے تیسرے جنکشن ریلوے اسٹیشن سانگلہ ہل کے لیئے روانہ ہوئی تو نئے مناظر سامنے آنے لگے۔۔
شیخوپورہ سے باہر نکلیں تو ریلوے ٹریک کے ساتھ بڑی سڑک اور اس پر رواں بھاری ٹریفک بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے ۔دلچسپ بات یہ کہ ہم سانگلہ اور فیصل آباد جارہے ہوں تو سڑک کے مسافر سرگودھا کی جانب رواں ہوتے ہیں۔۔
چند منٹ دل کے تار چھیڑنے اور اس کی رفتار کو زیر و زبر کرنے کے بعد ٹرین اگلی منزل کی جانب روانہ ہوئی جو ہماری منزل مراد بھی تھی۔۔
سانگلہ ہل جنکشن ۔
اسٹیشن سے نکلتے ہی کچھ ہی فاصلے پر فاروق آباد سے پہلے ۔۔جس کا پہلے نام چوہڑ کانہ تھا۔۔دو متصل ایک بڑی اور دوسری چھوٹی نہریں ہمارے زیر قدم اور مرکز نگاہ و نظر ٹہریں۔۔ بس،ٹرین یا کار کی کھڑکی سے باہر منہ نکال کر یہ نہریں دیکھنا مجھے آج بھی بھلا لگتا ہے۔۔اس کے بعد تو ٹرین فراٹے بھرتی ہے اور صفدر آباد،بہالیکے،اور دیگر چھوٹے اسٹیشنوں سے گزرتی سانگلہ ہل کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے۔۔
سانگلہ ہل کے ریلوے اسٹیشن پر کئی مسافر گاڑی سے اترے،اور باہر کی جانب نکل پڑے۔۔میں بھی ان میں سے ایک تھا۔۔انجانی منزل کا مسافر۔۔کسی سے منزل ۔۔کالج۔۔کا نشان پوچھا تو معلوم ہوا کہ ذرا آگے جانے والا دس بارہ افراد کا ایک گروپ جو اسی ٹرین سے اترا تھا،پروفیسرز ہی ہیں اور کالج ہی جارہے ہیں۔میں بھی ان کے ساتھ شامل سفر ہوگیا اور خراماں خراماں کالج کی طرف روانہ ہوگیا۔۔راستے میں تعارف ہوا تو پتا چلا کہ یہ سب مختلف مضامین کے پروفیسر ہیں،جو لاہور اور شیخوپورہ سے ایک ہی ٹرین پر روزانہ سفر کرتے ہیں اور کالج میں دو تین گھنٹے گزار کر فیصل آباد سے واپسی کا سفر اختیار کرنے والی اسی ٹرین پر واپس چلے جاتے ہیں۔،یہ کالج دو میل کی مسافت پر شہر سے قدرے باہر تھا ۔بعد کے دنوں میں دو میل کا یہ سفر شیخوپورہ کے سید فدا حسین شاہ صاحب جو اردو کے پروفیسر اور خاصے متشرع بزرگ تھے،کے ناگفتنی اور گفتنی لطیفوں،چٹکلوں اور تبصروں کے باعث اور زوالوجی کےسینیئر پروفیسر طفیل صاحب جو اکثر قائمقام۔پرنسپل بنتے،اور انہی نےمجھے ریلیو بھی کیا ،کے "طفیل" غیر محسوس اور دلچسپ انداز سے کالج کی حدود تک پہنچ کر اختتام پذیر ہو جاتا۔
۔۔۔۔۔۔
کالج کی حدود لامحدود تھیں۔شاہ کوٹ جانے والی سڑک پر ایک گیٹ اور دائیں بائیں دو دیواریں ضرور تھیں،مگر باقی اطراف چار دیواری کے تکلف سے آزاد تھیں۔سو جہاں تک جی چاہتا کالج کی حدود شمار ہوسکتی تھیں۔ہم یعنی پردیسیوں اور مسافروں کا یہ گروپ کبھی مرکزی دروازے سے کالج میں داخل نہیں ہوا،سڑک سے متصل ہی کالج میں داخل ہوتے اور اپنی اپنی کلاسز میں چلے جاتے۔ابتداء میں میری کوئی کلاس ہوتی،نہ منزل،میں کبھی ایک کلاس روم میں واقع اسٹاف روم میں جا بیٹھتا اور کبھی لان میں۔کچھ عرصے بعد جب نئے داخلے ہوئے تو بی اے میں میرا ایک ہی سٹوڈنٹ بنا۔۔ظہیر بھٹی۔۔جو بعد میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں میرا ایم۔اے کا شاگرد بھی بنا،اور اب ڈی پی ایس میں استاد ہے،کو کلاس پڑھانے اسی لان میں کرسی منگوا کر تدریس شروع کر دیتا۔
پہلے روز پرنسپل خواجہ خورشید احمد صاحب کے پاس حاضر ہوا ۔یہ ایک منحنی،متشرع اور نرم خو ،شفیق صاحبِ علم تھے ۔سر پر جناح کیپ پہنتے،کم گفتگو کرتے اور دھیمے مزاج کے حامل تھے ۔زیادہ تر اپنے دفتر میں ہی موجود رہتے۔انہیں کالج کا راؤنڈ لیتے دیکھنے کا اتفاق بھی کبھی نہیں ہوا۔ایک سائیکلو سٹائل پروفارما پر میری جوائننگ ہوئی اور ہم "پروفیسر" بن گئے۔
حسن اتفاق ہے کہ ہم ایک بار 1985 میں "پروفیسر" بنے تو دوسری بار 27 سال بعد 2012 میں دوبارہ "پروفیسر"بنے،مگر شکر ہے کہ 67 سال کی عمر میں اب تک اصل "پروفیسر" نہیں بن پائے ۔!
پرنسپل آفس سےمتصل دفتر میں دیگر رسمی کارروائیاں مکمل ہوئیں کہ واپسی کے سفر کا وقت آگیا۔
کالج کی اصل رونق تب لگتی جب مسافروں کا یہ قافلہ کالج پہنچتا۔بالعموم فیصل آباد سے آنے والے دو تین پروفیسرز بھی اس گروپ میں شامل ہوتے۔یہ کُل چودہ پندرہ لوگ تھے۔کوئی چند مہینے بعد ٹرانسفر ہوجاتا اور کوئی سال بعد۔ اور یوں یہ تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی۔
ان کے واپس جاتے ہی کالج کی رونقیں ماند پڑجاتیں اور ہر سو خاموشی اور اداسی پھیل جاتی۔ان کے آنے سے پہلے اور جانے کے بعد مقامی پروفیسرز خوشی خوشی اور کھلے دل کے ساتھ تدریسی عمل سنبھالتے اور مسافروں سے تعاون کا اظہار کرتے۔کالج کا ٹائم ٹیبل بھی ممکنہ حد تک اسی طرح ترتیب دیا جاتا۔جب کبھی ضرورت ہوتی یہ مسافر دوپہر کی بجائے سہہ پہر کی ٹرین تک بخوشی اپنا سفر ملتوی کرکے کالج کی مصروفیات کو ترجیح دیتے
سانگلہ ہل میں اڑھائی سالہ قیام کے دوران مقامی ساتھیوں کی وسعت قلب،وسعت ظرف اور وسعت فکر کے ساتھ پردیسیوں کے ساتھ بھرپور تعاون اور محبت کے لازوال مظاہرے سامنے آئے۔کوئی باہمی کھینچاتانی نہیں،کوئی باہمی نفرت،ناراضگی اور بغض و عداوت نہیں۔سیاسی،مسلکی و برادری کے تنوع اور اختلاف کے باوجود کوئی جھگڑا یا محاذ
آرائی نہیں۔اسی لیئے سانگلہ کے دوست کبھی بھولے نہیں ۔خود میری ٹرانسفر کے معاملے میں ان کا انفرادی اور اجتماعی کردار میری یادوں کا قیمتی حصہ ہیں۔
بظاہر یوں لگتا تھا کہ سانگلہ کے مقامی دوست سمجھتے تھے کہ۔۔پردیسیوں سے کیا دل لگانا۔۔۔
ان کا تو آنا جانا لگا رہتا تھا۔مگر حقیقت اس کے برعکس تھی کہ
مقامیوں نے پردیسیوں کا دل خوب کھینچا،انہیں دل میں بسایا اور پلکوں پہ بٹھایا اور اپنی محبت کے گہرے نقوش ثبت کیئے۔میں تو کیا ،سب ہی مسافر کبھی بھی
میاں عنایت اللہ شفقت جو بعد میں پرنسپل بھی بنے،۔چوہدری اسلم باجوہ جو متحرک سیاسی لیڈر بھی تھے،چوہدری اشرف ، مسیحی اور ہردلعزیز حنوک فتح جنگ ،عالم دین بزرگ اور سینیئر پروفیسر عبدالغنی قادری ،لائبریرین چوہدری صدیق وغیرہ اور خود جناب
پرنسپل خواجہ خورشید کی شخصیت اور وضعداری کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے ۔
سانگلہ ہل کا کالج شہری روایات،مزاج،ہنگاموں اور طور طریقوں سے بہت دور تھا۔
باہمی کھینچاتانی ،منافقت،بغض و حسد،غیبت اور ایک دوسرے کی برائیوں ،منافقتوں اور پروفیسرانہ رویوں سے پاک تھا۔یہاں بس نصابی سرگرمیاں ہی ہوپاتیں۔غیر نصابی سرگرمیوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا ۔سالانہ کھیل بھی شائد ہی کبھی ہوئے ہوں۔یہاں پروفیسروں کے استقبال و الوداع کا رواج بھی نہ تھا ۔البتہ سٹاف روم میں باہم اشتراک سے چائے ضرور چلتی اور کبھی کبھار سموسے بھی مل جاتے۔کالج کے آس پاس نہ کوئی دوکان تھی،نہ سٹور۔۔پھر یہاں کوئی زیادہ دیر ٹِکتا بھی نہیں تھا۔آج گئے کہ کل گئے۔۔نہ پردیسی یہاں دل لگاتے ،نہ مقامی انہیں مجبوری بناتے۔البتہ سب راضی برضا اور اپنے اپنے حال میں مگن۔کسی شکوے شکایت کے بغیر۔
یہاں کبھی کسی چھوٹے بڑے افسر کو بھی نہیں دیکھا گیا۔ان کی تڑیوں اور دھمکیوں اور احکامات سے محفوظ اس کالج میں ستے خیراں ہی رہتیں۔نہ کوئی موج ،نہ اضطراب،نہ طوفاں، نہ جلسہ،نہ جلوس،نہ ہڑتال ،نہ بائیکاٹ،نہ ہنگامہ،نہ شور و شرابا۔۔
نہایت پرسکون،نہایت غیرجذباتی اور نہایت بے ضرر ماحول۔۔پرنسپل سے بھی خوش،باہم بھی راضی،مطمئن و مسرور۔۔ہر قسم کی اندرونی بیرونی مداخلت سے پاک۔۔
ایک معصوم اور ہومیوپیتھک ٹائپ کا ادارہ۔۔
بھلایا نہ جاسکے گا۔
میں یہاں سے ٹرانسفر ہو کر نومبر 87 میں فیصل آباد اگیا،تو دوبارہ جانے کا نہ موقعہ ملا،نہ مہلت،نہ دل چاہا،البتہ وہاں کے دو ایک دوستوں سے رابطہ ضرور رہا۔
2013 میں جب میرے پاس ڈائریکٹر کالجز کا چارج تھا تو سانگلہ ہل سے متصل فیصل آباد کی حدود میں واقع دارالاحسان۔۔سالار والا۔۔ کے زیر تعمیر کالج کا آفیشل وزٹ کرنے کے دوران دل مچلا تو واپسی کے راستے میں واقع کالج چلاگیا۔۔مگر یہاں کوئی بھی واقف نہ ملا۔
وہ دن اور آج کا دن ۔۔بس یادیں ہی باقی ہیں۔جو سب ہی دلکش ہیں اور ان میں سب سے نمایاں اور دلآویز سانگلہ ہل کے سفر ہی ہیں۔۔اس کی ملک گیر شناخت پہاڑیاں اور ریلوے اسٹیشن کے کاغذی سموسے تو میرے لیئے بھی ناقابل فراموش ہیں،اس کے مقامی پروفیسروں کی محبتوں اور پرخلوص تعاون کی طرح۔۔
تبصرہ لکھیے