رشتے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ زندگی کا سفر ان کے بغیر دشوار ہو جاتا ہے۔ والدین سے بڑھ کر کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ زندگی کی بہاریں انہی کے دم سے ہیں۔ ان کی رضا، اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا ہے۔ ماں زندگی بخشتی ہے، جبکہ باپ جینے کا سلیقہ عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ کو جنت کا دروازہ قرار دیا گیا ہے۔ آخرت کی کامیابی کی امید بھی تب ہے جب دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے، تب ہی جام کوثر تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
سورۃ النساء کی آیت 36 میں رب کائنات نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا ہے، وہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ گویا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی کو خوش کرنے کا حق ہے تو وہ والدین ہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کو عمر میں برکت کی خوشخبری دی ہے۔ ان کا مقام اتنا بلند ہے کہ جنت کا ٹکٹ بھی ان کی رضا کے بغیر نہیں مل سکتا۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص ہلاک و برباد ہے جس نے والدین میں سے ایک یا دونوں کو پایا اور پھر بھی جنت حاصل نہ کی۔ قرآن مجید کی سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے پہلے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر فرمایا اور اس کے بعد رشتہ داروں، محتاجوں، نماز اور زکوٰۃ کا۔ سورۃ بنی اسرائیل میں تو یہاں تک فرمایا کہ والدین کے سامنے "اف" تک نہ کہو، بلکہ ادب و احترام کے ساتھ نرمی سے بات کرو۔ جھڑکنا بھی پسند نہیں فرمایا۔ روح کانپ جاتی ہے جب قرآن کو صحیح معنوں میں پڑھا جائے۔
اسی سورۃ میں اللہ تعالیٰ محبت اور عاجزی کے ساتھ جھک کر والدین کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیتا ہے اور ان کے حق میں دعا کرنا سکھاتا ہے، "میرے پروردگار! جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالا اور میرے حال پر رحم کیا، اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما۔" کیا شاندار مقام ہے کہ رب خود الفاظ عطا فرما رہا ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہماری جان اور مال بھی باپ کی ملکیت ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ماں کی نافرمانی اور بدسلوکی کو رب تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔
میرے دوستو! ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ والدین جیسی نعمت ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔ رب کائنات ہمیں عذابِ نار سے بچانا چاہتا ہے، اسی لیے قرآن میں بار بار والدین کے مقام اور ان سے حسن سلوک کا ذکر فرمایا۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم پل صراط پار کر جائیں، دوزخ سے بچ جائیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ وقت تلوار کی مانند ہے، اگر تم اسے نہ کاٹو تو یہ تمہیں کاٹ دے گا۔
یہ بات ہمیں سمجھنی ہوگی کہ ماں اور باپ الگ نہیں کیے جا سکتے، جیسے دھوپ اور چھاؤں، یا سکے کے دو رخ۔ ماں ہمیں دنیا سے متعارف کراتی ہے، اور باپ دنیا کو ہم سے۔ ماں سے ہم اپنی ذات پر توجہ دینا سیکھتے ہیں، اور باپ سے اپنی ذمہ داریوں پر۔ ماں کا تجربہ ہمارے علم کا خزانہ ہے، اور باپ کا تجربہ ہمیں عمل کی ہمت دیتا ہے۔
ماں باپ دونوں ہی نجات کا ذریعہ ہیں، رحمت، نعمت اور رب کا فضل ہیں۔ ان کی زندگی عام طور پر مختصر ہوتی ہے، اس لیے اُن کے ساتھ وقت گزاریں، اُن کی دعائیں لیں۔ اُن کے قدموں میں بیٹھ جائیں اور اُن کے احکامات پر ویسے عمل کریں جیسے ایک غلام اپنے مہربان آقا کے سامنے بچھ جاتا ہے-
تبصرہ لکھیے