دنیا کی قدیم ترین تجارت شاید کچھ یوں ہوئی ہوگی:
"تم میرے دو انڈے لو، اور بدلے میں وہ چار آم دے دو۔"
جی ہاں، یہ تھا بارٹر سسٹم، جہاں لین دین براہ راست اشیاء کے تبادلے سے ہوتا تھا۔ نہ رسید، نہ پرچی، نہ ٹیکس کا ڈر! مسئلہ صرف یہ تھا کہ اگر آم والے کو انڈے پسند نہ ہوں تو انڈہ والا بندہ صرف افسوس کھا سکتا تھا۔
وقت بدلا، عقل آئی (کچھ کو ابھی تک نہیں آئی)، اور انسان نے سوچا، "ایسا کچھ ہونا چاہیے جو ہر کسی کو پسند ہو۔" تو یوں سونے اور چاندی کے سکوں کا دور آیا۔ جن کی چمک سے نہ صرف خریداری ہوتی تھی بلکہ رشتے بھی طے ہو جاتے تھے!
رومن سلطنت سے لے کر مغلوں تک، سکہ رائج الوقت ہی سب کچھ ہوتا تھا۔ لیکن بھائیو! مسئلہ یہ تھا کہ سکوں کا وزن اتنا ہوتا تھا کہ اگر بندہ بازار سے آلو پیاز لینے جائے تو واپسی پر خود تول کر بیچا جا سکتا تھا۔
پھر آئی کرنسی نوٹ کی ایجاد۔ چین میں 7ویں صدی میں جب پہلا نوٹ چھپا تو شاید کسی نے سوچا ہو: "کیا یہ کاغذ آلو خرید سکتا ہے؟" لیکن جلد ہی سب مان گئے کہ اگر حکومت کہے کہ یہ کاغذ قیمتی ہے، تو ہے۔ چاہے نوٹ پر بادشاہ کی تصویر ہو یا کسی سیاستدان کی، دونوں کے اثرات ویسے ہی ہوتے ہیں۔
آگے بڑھے تو پلاسٹک کرنسی یعنی کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز آ گئے۔ "نہ جیب میں پیسے، نہ دل میں فکر" والا دور۔ لوگ خریدتے چلے گئے، بینک بل بھیجتے چلے گئے، اور قسطیں تو ایسی چلیں کہ شادی کے جوڑے کی قسط بچوں کے اسکول داخلے تک چلی۔
اور اب جناب، خوش آمدید کریپٹو کرنسی کی دنیا میں!
نہ سکے، نہ نوٹ، نہ بینک، نہ بینک والا! صرف کوڈ، بلاک چین، اور ایک "والٹ" جو آپ کا فون چوری ہونے پر آنسو بن جاتا ہے۔ بٹ کوائن، ایتھیریم، ڈوج کوائن , پائی– نام کچھ بھی ہو، کام سب کا ایک: مستقبل کو آج سے چھین لینا۔
کریپٹو کرنسی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کسی حکومت، کسی مرکزی ادارے کے قابو میں نہیں۔ یہی بات اسے انقلابی بھی بناتی ہے اور کچھ لوگوں کے لیے خوفناک بھی۔
اگر ہم نے کریپٹو کرنسی کو صرف "نیٹ پر فراڈ" کہہ کر نظرانداز کیا تو ہو سکتا ہے مستقبل کا انسان ہم سے یوں پوچھے:
"انکل! آپ کے زمانے میں انٹرنیٹ تھا، آپ نے بٹ کوائن کیوں نہیں خریدا؟"
اور ہم صرف مسکرا کر کہیں: "بیٹا، ہم تو قسطوں میں موبائل خرید رہے تھے…"
وقت کی کرنسی ہمیشہ بدلتی رہی ہے۔ جو لوگ وقت کے ساتھ چلے، وہ مالا مال ہوئے، اور جو پیچھے رہ گئے… وہ ابھی بھی دو انڈے کے بدلے چار آم کی تلاش میں ہیں
تبصرہ لکھیے